ہنستا ہوا آنسو
اب ہم اردو ادب کے دورِ یوسفی میں نہیں جیتے۔
کیا یہ الفاظ کافی نہیں ہیں؟
اس ادیب کے لیے جو ہنستاتے ہنساتے رلا دیتا تھا۔اس کا ہر قہقہ ایک سیپ تھا۔ اس سیپ میں آنسو کا ایک موتی ہوتا تھا۔
وہ موتی مٹی میں مل گیا۔
پنجاب کے کسی گمنام شاعر نے کیا غضب کا شعر لکھا ہے:
’’اڑیا بھنور ہیا پردیسی
موتی شبنم دا‘‘
وہ زندگی کی شبنم جیسے تھے۔
ایک جاپانی شاعر نے اپنے بیٹے کے انتقال پر لکھا تھا
’’شبنم کی دنیا
شبنم کی دنیا ہوتی ہے
مگر۔۔۔!!‘‘
بہت لوگوں کو معلوم نہیں ہوگا کہ گاندھی نے شاعری بھی کی تھی۔اس کا شعری مجموعہ میں نے بچپن میں پڑھا تھا۔اس کے مجموعے کا نام تھا’’Songs from Prison‘‘
یعنی ’’قید کے گیت‘‘
قیدی گیت نہیں!!
کیوں کہ گیت کبھی قیدی نہیں ہوتا۔
مگراس مجموعے میں صرف ایک ہی گیت اچھا تھا۔
اچھے گیت کی ایک پہچان یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ ایک بار سننے کے بعد ہمیشہ کے لیے یاد ہوجائے!
اس سارے مجموعے میں یاد رہنے جیسا گیت تھا:
’’زندگی کنول کی پتی پر
چمکتا ہوا شبنم کا قطرہ ہے
اور نیچے موت کا پانی ہے‘‘
جب میڈیا پر مشتاق یوسفی کی ابدی رخصتی کی خبرذہن کے جسم پر ایک نیل کی طرح نمودار ہوئی۔اس وقت مجھے گاندھی کا یہ بھولا بسرا گیت اچانک یاد آگیا :
’’زندگی کنول کی پتی پر
چمکتا ہوا شبنم کا قطرہ ہے
اور نیچے موت کا پانی ہے‘‘
کیا ہم اس شعر میں کچھ ترمیم کرسکتے ہیں؟کیا ہم یہ لکھ سکتے ہیں؟
’’زندگی کنول کی پتی پر
مسکراتا ہوا آنکھ کا قطرہ ہے
اور نیچے موت کا پانی ہے‘‘
مشتاق یوسفی زندگی کے کنول کی پتی پر
ایک ہنستا ہوا آنسو تھے۔
وہ آنسو جوپچانوے برسوں تک ادب کی آنکھ میں اٹکا رہا اور پھر وہ شبنم کا موتی ؛وہاں چلا گیا؛جہاں سے آیا تھا!
’’اڑیا بھنور ہیا پردیسی
موتی شبنم دا‘‘
غالب نے غضب کے الفاظ لکھے تھے:
’’ایسا کہاں سے لاؤ کہ تجھ سا کہیں جسے‘‘
یہ الفاظ ہر کسی کی وفات پر لکھنے جیسے نہیں ہے ۔کاش! مشتاق کا کوئی عاشق ؛اس کے کتبے پر غالب کے یہ الفاظ کندہ کروائے اور آتی ہوئی دنیا کو بتائے کہ ایسے ادیب ہر روز پیدا نہیں ہوتے۔
ایسے قلمکار اس لیے اتارے جاتے ہیں کہ زمانے کے ضمیر پر لگ جانے والا زنگ اپنے قلم سے صاف کر پائیں۔
مشتاق یوسفی کی کتابوں کا ہر صفحہ اس ریگ مال کی طرح تھا؛جو روح پر جمی ہوئی میل اتار دیتا تھا۔
’’مار دیتا ہے لگاوٹ میں تیرا رودینا
تیری طرح کوئی تیغ نگہ کو آب تو دے‘‘
غالب کے اس شعر کے مانندیوسفی صاحب بے سبب آنسو بہانے میں یقین نہیں رکھتے تھے۔
انہوں نے تو کبھی پڑھنے والوں کو بے سبب ہنسایا بھی نہیں۔مشتاق یوسفی کبھی بامقصد ادب تخلیق کرنے کا دعوی نہیں کیا۔انہوں نے کبھی اپنی تعریف نہیں کی۔ انہوں نے کبھی نہیں لکھا کہ ان کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔مگر یہ حقیت ہے کہ مشتاق یوسفی بہت بڑے قلمکار ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بڑے قاری بھی تھے۔ان کی تحریر سے ان کے وسیع مطالعے کی مہک آتی تھی۔وہ غیر ملکی ادیبوں اور تاریخی کہاوتوں کو اس طرح بیان کرتے تھے جیسے آس پاس اور ابھی کی بات ہو۔انہوں نے اپنے قاری کو کبھی بھی علم اور عقل سے دہشت زدہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔
ہر تحریر کی ایک شخصیت ہوتی ہے۔ ہر تحریر کا ایک روپ اور رنگ ہوتا ہے۔ ہر تحریر کا صرف ایک نقش نہیں ایک عکس بھی ہوتا ہے۔ مشتاق یوسفی کی تحریر مسکراتے ہوئے بدھ جیسی تھی۔ اس مسکراہٹ کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ گوتم بدھ نے برسوں سے مسکرانا چھوڑ دیا تھا ۔ مسلسل نہ مسکرانے کی وجہ سے وہ مسکرانا بھول سا گئے تھے۔ پھر ایک دن ناریل کے درختوں کے نیچے ایک صاف شفاف چشمے میں انہوں نے کئی برسوں کے بعد اپنا چہرہ دیکھا اور ایک عمر کے بعد ان کے روکھے سوکھے ہونٹوں پر مسکراہٹ کی کلی کھلی۔ بدھ بت تراشوں نے گوتم کے اس لمحے کو پتھر میں قید کیا۔ صرف بدھ مت کے پیروکار اس مسکراہٹ سے عقیدت نہیں رکھتے۔ دنیا کے بہت سارے باغی بھی اس مسکراہٹ کے عاشق ہیں۔ وہ سب کہتے ہیں کہ اس مسکراہٹ میں جو معصومیت ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ وہ مسکراہٹ دنیا پر نہیں۔ کسی دوسرے پر نہیں۔ اپنے آپ پر تھی۔ بدھ کسی اور پر نہیں بلکہ اپنے آپ پر مسکرائے تھے۔
گوتم کی طرح مشتاق یوسفی بھی اپنے آپ پر ہنستے تھے اور نہ صرف خود ہنستے تھے بلکہ دوسروں کو بھی ہنستاتے تھے۔ وہ اپنی ذات کے قید تنہائی میں نہیں تھے۔ ان کی ذات میں پورا زمانہ تھا۔ وہ اپنے آپ پر اس طرح ہنستے کہ پورا زمانہ اپنے آپ پر ہنسنے لگتا۔
کیا اپنے آپ پر ہنسنے سے زیادہ کوئی خوبصورت خودتنقید ممکن ہے؟
اپنے شعر کی طرح غالب کا نثر بھی کمال کا تھا۔ اس کمال کا ایک سبب تو یہ تھا کہ غالب نے خطوط کی صورت جو نثر تخلیق کیا وہ یہ سوچ کر تخلیق نہیں کیا کہ یہ کبھی منظرعام پر بھی آسکتا ہے۔ اس لیے اس نثر میں بناؤ نہیں ہے اور اس نثر کی دوسری بڑی خوبی یہ ہے کہ اس جیسا بے تکلف نثر اس سے قبل اردو میں کسی نے نہیں لکھا۔ ہر عظیم ادیب اپنا اسلوب اپنے ساتھ لاتا ہے۔ مشتاق یوسفی کا کمال یہ ہے کہ اس جیسا نثر نہ صرف ان سے پہلے بلکہ ان کے بعد بھی کسی کے حصے میں نہیں آیا۔
چیکو سلواکیا کے ایک ادیب سے جب کسی نقاد نے پوچھا کہ آپ کی تازہ کتاب میں کون سا پیغام ہے؟ تب انہوں نے چڑ کر جواب دیا تھا کہ ’’کیا میں کوئی پوسٹ مین ہوں کہ ہر بار ایک پیغام لاؤں‘‘ مشتاق یوسفی دنیا کو بہت بڑا پیغام دینے نہیں آئے تھے۔
مشتاق یوسفی کچھ نیا سنانے نہیں بلکہ پرانا یاد کرانے آئے تھے۔
مشتاق یوسفی ایک نام نہیں؛مشتاق یوسفی ایک نظر تھے ۔وہ نظر جو گہرائی میں اتر کرہر گناہ میں پوشیدہ گناہ ثواب تلاش کر آتی تھی وہ نظر جو ہر گناہ میں ایک پوشیدہ ثواب میں پوشیدہ گناہ کاپردہ چاک کرتی تھی!
فیض نے فرمایا ہے:
’’اک تیری دیدچھن گئی ہم سے
اور دنیا میں کیا نہیں باقی!!‘‘
اب اس دید کے دروازے بند ہوئے ۔مشتاق یوسفی اس دنیا سے اس طرح گئے ۔جس طرح وہ پچاون برس پہلے آئے تھے!سات دہائیوں تک اردو میں قہقہوں کے پھول کھلانے والے ؛مشتاق یوسفی کے سفید کفن پرروتے ہوئے سرخ گلاب اس کے ساتھ مدفون ہوئے!
اب اردو ادب پڑھنے والوں کوہنساتے ہنستاے کون رلائے گا؟
اب انہیں کون بتائے گا کہ:
’’مردکی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم
سب سے آخر میں نکلتا ہے‘‘
اب ایسے الفاظ کون لکھے گا؟
’’پاکستان میں افواہوں کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ سچ نکلتی ہیں‘‘
اس تلخ حقیقت کو ہنستے ہوئے صرف مشتاق یوسفی ہی بے نقاب کرسکتے تھے کہ
’’آسمان کی چیل ؛ چوکھٹ کی کیل اور کورٹ کے وکیل سے خدا بچائے
ننگا کرکے چھوڑتے ہیں‘‘
اور گذشتہ روز صرف مشتاق یوسفی کا انتقال نہیں ہوا
اس کے ساتھ مدفون ہو وہ مرزا بھی
جس کو مشتاق یوسفی اپنا ہمزاد لکھا کرتے تھے
اور جس کے بارے میں کہا کرتے تھے
’’بقول مرزا دنیا کی جتنی بھی لذیذ چیزیں ہیں
ان میں سے آدھی تو مولوی صاحبان نے حرام کردی ہیں
اور بقیہ آدھی ڈاکٹر صاحبان نے‘‘
اور مرزا صرف اس بات تک محدود رہنے والے نہیں تھے۔ وہ مرزا ہی تھے جنہوں نے ان سے پوچھا تھا کہ:مرغ اذان کیوں دیتا ہے؟تو ہم نے سیدھے سبھاؤ جواب دیا کہ اپنے مالک کی حمد و ثنا کرتا ہے۔
کہنے لگے ’’صاحب! اگر یہ جانور واقعی عبادت گذار ہے تو مولوی اسے اتنے شوق سے کیوں کھاتے ہیں؟‘‘
اس مشتاق یوسفی کا انتقال ہوگیا جس کی تحریروں میں بہت سارے کردار ہمیشہ جیتے رہیں گے۔ ان کی تحریروں میں صرف مرزا ہی نہیں بلکہ وہ گورا بینک مینیجر بھی ہمیشہ جیتا رہے گا جس کے بارے میں انہوں نے لکھا تھا کہ ’’شرابی اور خالی بوری کو کھڑا کرنا ممکن نہیں ہے‘‘ اور اس شرابی بینکار کی وہ محبوبہ بھی احساسات کے ساتھ اٹکھیلیاں کرتی رہے گی جو میکپ کی مدد سے عمر کے گھاؤ بھرنے کی بھرپور کوشش کیا کرتی تھی اور مشتاق یوسفی نے ان کا خاکہ اس عنوان سے شروع کیا تھا کہ ’’پٹری چمک رہی تھی؛ گاڑی گذر چکی تھی‘‘ اور ان کی تحریروں میں صرف انسان ہی نہیں بلکہ وہ سیرز نامی کتا بھی ہمیشہ رہے گا جس کو بچوں نے بوگن ولیا کے نیچے دفن کیا تھا۔ جس کے بارے میں یوسفی صاحب کے آخری الفاظ تھے یہ تھے کہ ’’کئی مہینے بیت گئے۔پت جھڑ کے بعد بوگن ولیا پھر انگارے کی طرح دہک رہی ہے۔ مگر بچے آج بھی کسی آدمی کو پاؤں رکھنے نہیں دیتے کہ وہاں ہمارا یک ساتھی سو رہا ہے‘‘ اور صرف وہ کتا نہیں بلکہ وہ بلی بھی ان تحریروں کی گلی میں میاؤ ں میاؤں کرتی رہے گی جو برسات کے دن ٹرک کے نیچے آگئی تھی۔ جس کے چھوٹے بچے کے بارے میں مشتاق یوسفی نے لکھا تھا کہ ’’اس کی آنکھیں بالکل ماں پہ گئیں تھیں‘‘
یہ دنیا بھول کی بہت بڑی وادی ہے۔اور المیہ یہ ہے کہ اس دنیا میں ہم کچھ عرصے کے بعداس ناقابل فراموش قلمکار کو بھی بھول جائیں گے جس نے لکھا تھا :
’’ہمیں نام؛ مردوں کے چہرے؛ راستے؛ کاروں کے میک؛ شعر کے دونوں مصرے؛ یکم جنوری کا سالانہ عہد؛ بیگم کی سالگرہ اور سینڈل کا سائز؛نماز عید کی تکبیریں؛ سال گذشتہ کی گرمی سردی؛ عیش میں نام خدا اور طیش میں خوف خدا ؛ کل کے اخبار کی سرخیاں؛ دوستوں سے خفگی کی وجہ اور نہ جانے کیا کیا یاد نہیں رہتا‘‘
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔