عالمی برادری کی علم حاصل کرنے کے سفر میں کامیابیاں شاندار ہیں، اس سے زیادہ شاندار عالمی برادری میں علم پھیلانے میں ناکامیاں ہیں۔ پہلے کچھ حقائق۔
امریکہ میں 39 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ ستارہ قسمت کی خبر دے سکتا ہے۔ 57 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ قسمت ہمارے ہاتھ میں نہیں، ہتھیلی میں ہے (اس کی لکیروں کی شکل میں)۔ 8 فیصد امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ چاند پر جانا دھوکہ تھا جبکہ پروفیشنل ریسلنگ سچ ہوتی ہے۔
یہ مثالیں ایک ایسے ملک کی ہے جہاں پر بنیادی تعلیم عام ہے۔ دنیا میں ہر جگہ تو یہ بنیادی چیز بھی موجود نہیں۔ یہ مذاق ہنسنے والے ہوں لیکن ہر مذاق ہنسنے والا نہیں۔ ان کی دو مثالیں۔
ہیٹی میں ہیضے کی وبا پھیلی جس سے دو ہزار اموات ہوئیں۔ اس کا الزام کالے جادو پر لگایا گیا۔ اس میں 'جادوگروں' کو پکڑا گیا اور کم از کم بارہ افراد ہجوم کے ہاتھوں جادو کے ذریعے بیماری پھیلانے کے الزام میں قتل ہوئے۔ یہ 2010 کا واقعہ ہے۔ (نیچے دئے گئے لنک سے)۔
قدرتی آفات کے پیچھے فزکس کارفرما ہے۔ ان سے بچنے کے لئے انسانی قربانیاں دی جاتی رہی ہیں۔ بیسویں صدی تک ایسا ہوتا رہا ہے۔ (زلزلے کے بعد کاہن کے ہاتھوں بچے کی قربانی کا واقعہ نیچے دی گئی پوسٹ سے)۔
سائنس میں ہمیں بہت کچھ ابھی نہیں پتہ لیکن ہمیں کم از کم اتنا ضرور علم ہے کہ ہیضہ جادو سے نہیں، جراثیم سے ہوتا ہے۔ زلزلے زمین کی جیولوجی کا نتیجہ ہیں، یہ بچوں کی قربانی دینے سے نہیں رکتے۔ یہ واقعات اگر دلخراش لگے تو بنیادی علم حاصل کرنے میں ناکامی سے ہونے والے نقصانات اس سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہیں۔ یہ زندگی اور موت کے معاملات ہیں۔
ایک مثال: ہم جانتے ہیں کہ جب خون کی شریانوں پر فیٹ گلوبیول جمع ہو جائیں تو ان کے بند ہو جانا دل کے امراض کا باعث بنتا ہے۔ ان کو ٹھیک کرنے کے کچھ طریقے ہیں۔ کبھی مؤثر رہتے ہیں، کبھی نہیں۔ غلط علاج بھی ہوتے ہیں۔ لیکن ہم یہ مکمل یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہُدہُد کے پنجے نیم گرم پانی میں ابال کر دن میں تین بار اس کی پانی کی کُلی کرنے سے شریانوں میں بننے والے فیٹ گلوبیولز کو کوئی بھی فرق نہیں پڑے گا۔ اگر کوئی علاج کروانے کی سکت نہیں رکھتا تو فرق معاملہ ہے، ورنہ ایسا کرنا جان بوجھ کر موت کو دعوت دینا ہے۔ لیکن اگر محلے کا کوئی شخص اس کو آزمودہ نسخہ کہہ کر یہ بتا دے کہ اس کے پھوپھو کے بیٹے نے اس طرح شفا پائی تھی تو کئی اچھے خاصے تعلیم یافتہ لوگ علاج ترک کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ اس وقت 'متبادل' علاج کرنے والوں کی عالمی مارکیٹ دو کھرب ڈالر کی ہے۔
آئیوڈین یا ویکسین جیسی سادہ چیزیں ہوں یا نفسیاتی امراض کا علاج 'پچ نکالنے' والے ظالمانہ طریقے سے۔ یہ سب ہنسنے والے مذاق نہیں، موت کے کھیل ہیں لیکن ایسا کیوں؟
علم پر عدم اعتماد کی وجہ نفسیات، سوشیولوجی اور اکنامکس میں ہے۔ کچھ لوگ معلومات تک رسائی نہیں رکھتے، پڑھ لکھ نہیں سکتے یا انٹرنیٹ کو استعمال نہیں کر سکتے۔ بہت سے لوگ اپنی روزانہ کی مصروفیات اور ذمہ داریوں میں اتنا الجھے ہوتے ہیں کہ ان کے پاس معلومات حاصل کرنے کا وقت نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ معلومات کو صرف ان ذرائع سے حاصل کرتے ہیں جو ان کے اپنے تعصبات کی حمایت کریں۔ اور اب تاریک ترین پہلو یہ کہ جہالت بھرا مواد انٹرنیٹ کو آلودہ کر چکا ہے۔ جھوٹ سچ کی نسبت آسانی سے بِکتا ہے کیونکہ جذبات کے میدان میں علم، سچ اور دلیل کی زیادہ اہمیت نہیں۔ خود علم رکھنے والے، علم بانٹنے والے اور تعلیمی ادارے بھی اس کے ذمہ دار ہیں جو اس بنیادی حقیقت کا سامنا نہیں کرتے جس کو مارکیٹنگ کے شعبے سے وابستہ افراد، شعبدہ باز اور سیاستدان بڑی اچھی طرح جانتے ہیں۔
تعلیمی نظام کی کمزوری کا رونا ہمیشہ سے چلا آ رہا ہے۔ انٹرنیٹ کی دنیا میں استاد اور تعلیمی نظام کا اپنا کردار بدل جانا چاہیۓ۔ استاد معلومات کا ذریعہ نہیں کیونکہ معلومات تو انٹرنیٹ سے بھی لی جا سکتی ہے۔ استاد کا اصل کام تجسس اور سیکھنے کا جذبہ ابھارنا اور راہنمائی دینا ہے۔ اکیسویں صدی میں تعلیمی نصاب کا اصل کام وقت کی مینجنمنٹ، تجزیاتی سوچ، انسانی تعلقات اور پراپیگینڈا کو پہنچاننے کے بارے میں سکھانا ہے۔ تجزیاتی سوچ پیدا ہوئے بغیر فارمولے یاد کر لینے کا قطعا کوئی فائدہ نہیں۔ اس کے ساتھ اب ایک اور اہم چیز ایسی زبان میں اچھی مہارت ہونا ہے جس سے عالمی رابطہ ہو سکے۔ اسے پڑھنے، سمجھنے اور ٹائپ کرنے میں مہارت اور معلومات تک رسائی۔ صرف ڈگری علم نہیں ہوتی۔
تعلیمی نظام سے باہر، جذبات سے الگ ہو کر بنیادی تجزیاتی سوچ ابھارنا ہم سب کا کام ہے۔ خود اپنے اندر بھی اور دوسروں میں بھی۔ کیونکہ دنیا کو غلط جاننے کی وجہ سے بننے والا ہر مذاق ہنسنے والا نہیں ہوتا۔