ادریس غازی ہم سب کا دانش مند دوست ہے۔ لڑکپن سے اس کا میرا سہہ پہر سے رات گۓ تک کا ساتھ ہے ۔ رہتا میمنوں کے محلے میں ہے کیونکہ خاندانی میمن ہے ۔ پڑھنے پڑھانے اور تقریر کرنے میں لڑکپن سے تیز ہے ۔ والدین اور ہم سب دوستوں کا اکلوتا نور نظر ہے۔ بچپن سے پڑھاٸ اور چڑھاٸ کا ماہر ہے ۔ کسی بھی قسم کا پہاڑ اس کے سامنے رکھ دو اس پر چڑھ جاتا ہے ۔ چوٹی پر پہنچنے کا اسے ہمیشہ سے شوق رہا ہے ۔ ایڑھی چوٹی کا اتنا زور لگاتا ہے کہ بعض اوقات ایڑھی تیڑھی ہوجاتی ہے مگر یہ ہار نہیں مانتا اور سب کچھ سیدھا کرکے ہی دم لیتا ہے ۔ ہم دوستوں میں یہ واحد تھا جو انجینٸرنگ کالج جاتا تھا اور کالج کے بعد سارا وقت آرٹس پر صَرف کرتا تھا۔ امتحان دینے کا ازلی شوق تھا چنانچہ انجینٸر بننے کے بعد مقابلے کے امتحان میں بیٹھ گیا اور سول انجینٸر کے ساتھ ساتھ سول سرونٹ بھی ہوگیا۔ کٸ مشہور وزیروں کا سرکاری سیکرٹری رہا ۔ سندھ کے وزرا کی سنگت اسے صرف کوارٹر بگاڑسکی مگر پیسہ اس کا کچھ بگاڑ نہ پایا۔ پیسے کو ہاتھ کا میل سمجھ کر کبھی ہاتھ نہ لگایا ۔ تنخواہ اور اکلوتی بیوی پر گذارا کیا۔
یہ ہنس مکھ ہوکر بھی فلسفی ہے ۔ ہنستے ہنستے فلسفے کے بِل میں گھس جاتا ہے ۔ کہانی سناتے سناتے ہاٸیکو کہنے لگتا ہے ۔ میرے مزاح پر ہنستا ہے اور پھر مجھ سے زیادہ پرمزاح جملوں سے جوابی حملہ کردیتا ہے ۔ بیوروکریٹ میں اسے صرف ٹھنڈی بوتلوں کے کریٹ پسند ہیں ۔مزاج کا بھی ٹھنڈا اور غریب پرور ہے۔ آج کل پاکستان بھر میں تقاریر اور مباحثوں کی ترویج میں صف اول کا جنونی ہے۔ اتنی پیاری باتیں کرتا ہے کہ اسے کٸ بار کہا کہ موٹیویشنل اسپیکر بن جاٶ ۔ کہتا ہے اس طرح میں امیر ہوجاٶں گا۔ اپنے بچوں کو لاٸق بنانے میں اپنی ساری لیاقت صَرف کردی۔ کار ایسے سلیقے سے چلاتا ہے کہ دوسروں کو ٹکر مارنے کے بھرپور مواقع دیتا ہے مگر خود کسی سے نہیں ٹکراتا ہے ۔ اتنا پرفیکشنسٹ کہ اسے کام دےکر بھول جاٸیں چھ دن بعد خود کام مکمل کرکے آپ کے پاس پہنچ جاۓگا۔
اس کے ساتھ ہمیشہ دماغی ٹرکس چلتی پھرتی ہیں۔ کوٸ بال پواٸنٹ مانگ لے تو ڈھکن اپنے پاس رکھےگا تاکہ یاد رہے کہ بال پواٸنٹ واپس لینا ہے۔ اگر ادریس اپنی رسٹ واچ پہننے کی بجاۓ ہاتھ میں پکڑے ہوۓ ہے تو سمجھ جاٸیے کہ اس نے کرنے کیلۓ کوٸ کام یاد رکھا ہوا ہے ۔ جب تک وہ کام کر نہ لے واچ ہاتھ میں ہوتی ہے۔ دوستوں میں کوٸ چیخنے چلانے لگے یہ تب بھی مسکین سی آواز میں ہی دلیل دیتا رہتا ہے ۔ اس کا کرنٹ افٸیر میں تو بارہا نام آیا مگر افٸیر میں کبھی نہیں۔ کبھی کسی ایک لڑکی کیلۓ آہیں بھرتے نہیں پایا گیا۔ صرف ایک بار یہ سننے کو ملا تھا کہ اس نے ایک لڑکی کو خط لکھ دیا تھا ۔ اس کے بعد دو ماہ تک اپنا خط نہیں بنایا ۔ پرفیکشنسٹ اتنا کہ شیو کرتے ہوۓ جب تک آدھے گال کی صفاٸ کرتا ہے بقیہ آدھے گال پر دوبارہ سے شیو نکل آتی ہے ۔
ادریس غازی نے اپنا خون سفید ہونے نہیں دیا مگر بالوں کو سفید ہونے سے نہ روک سکا۔ اب دور سے ہی پہچانا جاتا ہے ۔ سفید بالوں کا اتنا بڑا گملہ ہم میں سے کسی کے سر پہ نہیں جب ہی ہر کوٸ اسے سر ، سر کہہ کر مخاطب کرتا ہے ۔ اسے ٹھاٹ کی زندگی پسند ہے نہ باٹ کی ۔ بس کھاٹ پر ہی راحت محسوس کرتا ہے ۔ ادریس نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پی لیا مگر اب بھی اس کی پیاس نہیں بجھی ۔ ہم کٸ دوست سوپ کے شوقین ہیں اور ادریس یخنی کا ۔ شام ہوتے ہی اس کے پاس یخنی ہوتی ہے اور کار سمیت ایک اسٹپنی ۔ کسی رات آپ ادریس کے ساتھ چار بجے صبح تک بیٹھ جاٸیے اگلے دن آپ بھی اپنے آپ کو دانشور محسوس کرنے لگیں گے ۔ ادریس کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ غلط وقت پر غلط جگہ پیدا ہوگیا ہے ۔ ہم ہیرے کی تو قدر کرتے ہیں مگر ہیرے جیسے لوگوں کی نہیں۔