میں نے اپنی ویتنامی دوست تھائو سے کہا کہ مجھے آج ہلٹن ہوٹل جانا ہے۔ ویتنام کا معروفِ عالم ’’ہلٹن ہوٹل‘‘۔ وہ مسکراتے ہوئے چونکی۔ اسے پچھلے تین چار روز میں ویتنام میں میری دلچسپی کے دائروں کا علم ہوچکا تھا۔ ہم نے جو کہانیاں پڑھ رکھی تھیں، اس نے اپنے جنم کے ساتھ اپنے اوپر برداشت کیں، وہ دیگر لاکھوں ویتنامیوں کے ساتھ جنگ کی ان کہانیوں کا ایک کردار رہی ہے۔ مگر ویتنامیوں کو میں نے اپنے اس سفر میں کبھی بڑھکیں مارتے نہیں دیکھا کہ ہم نے امریکہ کو ناکوں چنے چبوا دئیے۔ تقریباً بیس سال تک جاری جنگ جس میں ساٹھ ہزار کے قریب امریکی ہلاک، تین لاکھ سے زائد زخمی اور ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہسپتالوں میں داخل ہونے پر مجبور ہوئے۔ اور جو بچ کر امریکہ پہنچے وہ تاعمر ذہنی کرب اور بیماریوں کا شکار رہے۔ دنیا کی تاریخ کی اس طویل جنگ میں لاکھوں بے گناہ ہلاک ہوئے ۔امریکہ کو وہاں سے سرکاری سطح پر شکست قبول کرکے نکلنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس جنگ کے ایک امریکی سپہ سالار میگنا مارا کو میں نے 1990ء کی دہائی میں امریکہ ہی میں ایک کانفرنس میں یہ کہتے سنا کہ ’’میں نے ویتنام میں جنگی جرائم کیے ہیں، میرے خلاف جنگی جرم کے تحت مقدمہ دائر کیا جائے۔‘‘ اس کانفرنس کے بعد امریکہ کے ہر سفر پر میری اُن سے ملاقات ہوئی کہ وہ میرے ایک امریکی دوست جوناتھن گرانوف کے ہاں ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو کے خلاف تھنک ٹینک میں ملازمت کرتے تھے۔ امریکہ نے اپنے سپہ سالار کے اس موقف کو ہمیشہ درگزر کیا کہ اگر میگنا مارا کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ کھولا جائے تو امریکہ نے ویتنام میں جو جنگی جرائم برپا کیے ہیں، اس کے منکشف ہونے پر امریکہ کے اپنے عوام امریکہ کے سامراجی کردار کے خلاف اٹھ کھڑے ہوسکتے ہیں۔ جیسے ساٹھ کی دہائی میں امریکہ کے اندر اسی جنگِ ویتنام کے خلاف امریکی عوام نے عوامی تحریک برپا کرکے امریکی انتظامیہ کو ویتنام سے نکلنے پر مجبور کردیا۔
تھائو نے کہا ٹھیک ہے، تمہاری خواہش پوری کرنے کے لیے تمہارے ہمراہ چلتی ہوں۔ مگر مجھے ہلٹن ہوٹل جانے کے خیال کے ساتھ ہی گبھراہٹ ہونے لگتی ہے۔ لیکن تھائو نے میری سیاسی جہاںگردی کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ساتھ جانے کی ہامی بھرلی۔
ہم اپنے ہوٹل سے نکلے، ٹیکسی لی۔ ہنوئی کی منظم ٹریفک کے بیچ ہماری ٹیکسی رواں تھی اور تھائو مجھے جنگ اور اپنے خاندان کی دلخراش داستان سناتی جارہی تھی۔ ہنوئی کے قدرتی حُسن اور انسانی تخلیقات نے مجھے اپنے سحر میں پہلے دن سے ہی لے لیا تھا، جب میرا جہاز اس کے عالمی ہوائی اڈے پر اترا۔ جہاں مجھے ویتنام کو ترقی کرتے دیکھ کر حیرت اور خوشی ہورہی تھی کہ امریکہ کو شکست دینے والی، جنگ کی راکھ سے جنم لینے والی قوم نے ترقی، خوشحالی اور انسانی ترقی کی منازل طے کرلی ہیں، وہیںمیں رشک وغم میں مبتلا تھا کہ ہم اور ہمارا وطن تنزلی کی طرف تیزی سے جا رہے ہیں اور اوپر سے ہمیں فخر بھی ہے کہ ہم اسلامی دنیا کی قیادت کرنے جا رہے ہیں۔ ہم ایٹمی قوت ہیں۔ باتیں اور دعوے کرنا کوئی ہم سے سیکھے۔
میں نے دنیا کے بڑے بڑے شہروں میں بڑے بڑے عالیشان ہلٹن ہوٹلز دیکھ رکھے ہیں، بلکہ رہنے کے مواقع بھی ملے ہیں، مگر آج مجھے ہنوئی کے ہلٹن ہوٹل کو دیکھنا تھا، جو دنیا بھر میں اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے ذکر پر تیسری دنیا کے ترقی پسند کارکن اپنے انداز میں ردِعمل دیتے تھے، مگر امریکہ اور اس کے اتحادی ’’ہلٹن ہوٹل ہنوئی‘‘ کے ذکر پر تھرتھر کانپنے لگتے تھے۔ ویتنام کی جنگ جسے دوسری انڈوچائنا جنگ اور ’’مزاحمتی جنگ برخلاف امریکہ‘‘ کے ناموں سے بھی جانا جاتا ہے، ’’ہلٹن ہوٹل‘‘ کا ذکراس جنگ میں ویتنام میں لڑنے والے فوجیوں کے خون کو خوف سے جما دیتا تھا۔
ہماری ٹیکسی اس عالمی شہرت یافتہ ’’ہلٹن ہوٹل‘‘ کے عین سامنے رکی۔ بل کی ادائیگی کرکے میں ’’ہلٹن ہوٹل ہنوئی‘‘ کے مین گیٹ کی طرف تیزقدم چلنے لگا۔ تھائو میرے پیچھے چل رہی تھی۔ ہلٹن ہوٹل کے مین گیٹ کی پیشانی پر فرانسیسی میں لکھا تھا، Maison Centrale ۔ سیاحوں کا تانتا بندھا ہواتھا۔ دنیا کے اس معروف ’’ہلٹن ہوٹل‘‘ کو دیکھنے کی خاطر۔ پیلا پینٹ اور پتھر کی دیواریں۔ سڑک کے ساتھ فٹ پاتھ کے برابر دیوار پر اس ’’ہلٹن ہوٹل‘‘ کی مختلف کتبوں پر لکھی تاریخ۔ جب ویتنام ایک کالونی تھا، اس دور میں 1886ء میں فرانسیسیوں نے انقلابی جدوجہد کرنے والوں کو قید کرنے کے لیے Hao Lo کے نام سے اس عمارت کی تعمیر کی۔ ویتنامی زبان میں اس کا نام ’’جہنم کا سوراخ‘‘ تھا۔ اس نام کا سبب اس گلی کے نام پر تھا جہاں یہ عمارت تعمیر ہوئی، Pho Hao Lo۔ چوںکہ یہاں لکڑی اور کوئلے کے چولہے بکتے تھے۔ جب فرانس نے ویتنام کو اپنی نوآبادی بنایا تو اسے انہوں نے انڈوچائنا اور ویتنام میں انقلاب اور آزادی کی جدوجہد کرنے والوں کو جیل اور عقوبت خانے میں بدل دیا۔ فرانسیسی میں اس زنداں کا نام Maison Centraleتھا۔ یہ زنداں سنگین مجرموں یعنی سیاسی قیدیوں کے لیے خصوصی طور پر بنایا گیا تھا جہاں قید ہی نہیں، پائوں میں بیڑیاں اور گلوں میں کڑکیاں لگاکر ’’سنگین مجرموں‘‘ کو تشدد کے مختلف طریقوں کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ اس زنداں کو چارسو کے قریب قیدیوں کی تعداد کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ جیل چھوٹی پڑتی گئی اور قیدیوں کی تعداد دوہزار سے تجاوز کرگئی۔
ویتنام پر امریکہ اور اس کے سامراجی اتحادیوں کی طرف سے مسلط کردہ جنگ میں اسے مزاحمت اور آزادی کی جنگ لڑنے والے ویتنام نے جنگی قیدیوں کی جیل میں بدل دیاگیا۔ اس زنداں میں جو پہلا امریکی جنگی قیدی داخل ہوا، اس کا نام لیفٹیننٹ جونیئر گریڈ ایوریٹ الورنر تھا۔ 5اگست 1964ء کو اس زنداں میں اس پہلے امریکی جنگی قیدی کے ساتھ اس عمارت نے تاریخ میں نیا نام حاصل کرلیا۔ ویتنام میں لڑنے والے امریکی فوجیوں نے اس جیل میں کم خوراکی اور سخت گیر رویے پر اس کو ’’ہنوئی ہلٹن‘‘ یا ’’ہلٹن ہوٹل‘‘ کا نام دے دیا۔ امریکہ جیسے جدید ملک کے باشندوں کے لیے اس جیل خانے کی کہانیاں امریکہ تک جا پہنچیں۔ اور یوں ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ’’ہنوئی ہلٹن‘‘ عالمی صحافت اور سیاست کا ایک جانا پہچانا نام بن کر ابھرا۔
ہم دونوں، امریکی فوجیوں کے قرار دئیے گئے ہلٹن ہوٹل میں داخل ہوئے جہاں فرانسیسی سامراجی دور میں اس جیل کے اندر برپا کہانیوں کی تصاویر، مجسموں، کاغذات اور جیل کی انتظامیہ کی طرف سے تشدد کرنے والے آلات نمائش کے طور پر رکھے گئے تھے۔ آزادی کی اور سیاسی جدوجہد کرنے والے قیدیوں کی تصاویر اور ان کے ناموں کی فہرست بھی دستیاب تھی جن میں ایک بڑی تعداد ویتنامی خواتین کی تھی۔ میری ویتنامی دوست تھائو خاموشی سے سب کچھ میرے ساتھ دیکھتی جارہی تھی۔ چلتے چلتے اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ جب جذبات پر قابو نہ رکھ سکی تو اس نے ٹشوپیپر نکال کر آنسو صاف کرنے کی کوشش کی۔ خود پر قابو پانے میں ناکام ہوکر وہ مجھ سے اجازت لے کر باہر چلی گئی۔ قیدخانہ اب ایک عجائب گھر ہے۔ مجھے وہاں گھومتے گھومتے یکایک لاہور کے شاہی قلعے میں قائم عقوبت خانہ یاد آیااور اس کے بعد جنوبی لبنان میں خیام کے قصبے میں قائم خیام جیل، جو لبنان میں فرانسیسی دور میں فوجی بیرک تھی۔ لبنان میں خانہ جنگی کے دوران جب اسرائیل نے جنوبی لبنان پر قبضہ کیا تو اس فرانسیسی فوجی بیرک کو جیل اور عقوبت خانے میں بدل دیا۔ 1985ء سے 2000ء تک اسرائیلیوں نے اسے آزادی پسند لبنانیوں کے لیے زنداں اور عقوبت خانے کے طور پر استعمال کیا۔ نام نہاد اسرائیل (حقیقتاً فلسطین) کی سرحد پر واقع خیام جیل کے اس زنداں کی کہانیاں Maison Centrale سے مختلف نہیں ہیں۔ 2000ء میں جب جنوبی لبنان سے اسرائیلی افواج نکلنے پر مجبو رہوئیں تو یہاں سے ہزاروں قیدی رِہا ہوئے۔ اس کے بعد میری جہاںگردی مجھے اس مشکل، حساس اور تنازعاتی خطے اور قصبے میں لے گئی۔ جہاں میں نے عقوبت خانے کی دلخراش کوٹھڑیاں ہی نہیں دیکھیں بلکہ حزب اللہ سے اجازت لے کر اس زنداں میں اپنی جوانیاں لٹا دینے والے ایسے قیدیوں سے بھی ملا جو جوانی میں یہاں آئے اور 2000ء میں درمیانی عمر میں رِہا ہوئے۔ اسے کہتے ہیں سیاسی جدوجہد۔۔۔
ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک دکھ بری نگاہوں اور غم کے ساتھ قدم بڑھا رہا تھا کیوںکہ مجھے یہاں ایک ایسے جنگی قیدی کے یونیفارم کو دیکھنا تھا جو بعد میں امریکہ کا نامور سیاست دان بنا۔ 2008ء کے انتخابات میں بارک ارباما کے خلاف ریپبلکن پارٹی کی طرف سے صدارتی الیکشن بھی اس امریکی جنگی قیدی نے لڑا، جان سڈنی مکین۔ جان مکین 26اکتوبر 1967ء کو ہنوئی کے شہر کی فضائوں سے بموں سے بھسم کردینے والے ایک مشن بعنوان Operation Rolling Thunder کے دوران پرواز کررہا تھاکہ اس ہوائی حملے کے دوران آزادی اور انقلاب پسند ہوچی من کے مزاحمت کاروں کے ہاتھوں اس قدر شدید زخمی ہوا کہ لگتا تھا کہ بس اس حملہ آور امریکی کے دن گنے جا چکے ہیں۔ موت وحیات کی کشمکش کے درمیان زخمی جان مکین کو گرفتار کیا گیا۔ اور پھر لیفٹیننٹ کمانڈر جان مکین کو فوری طور پر مشہورِزمانہ ’’ہلٹن ہوٹل‘‘ منتقل کردیا گیا۔ اس نے تقریباً چھے سال بعد 1973ء میں رہائی حاصل کی۔ یکایک میں اس شوکیس کے سامنے کھڑا تھا جہاں امریکہ کے اس حملہ آور جنگی قیدی جان مکین کا امریکی بیجوں میں سجا یونیفارم نمائش کے لیے رکھا تھا۔ اس امریکی حملہ آور کا شوکیس میں سجا یہ یونیفارم پوری ویتنامی قوم کی داستانِ جرأت وآزادی کی کہانی بیان کررہا تھا۔ جو قومیں عمل کرتی ہیں، وہ دعوے اور بڑے الفاظ بیان نہیں کرتیں۔ جان مکین کے بدن پر اور ذہن پر مرتب ہونے والے اثرات اس کی موت تک قائم رہے۔ ’’ہنوئی ہلٹن ہوٹل‘‘ کا یہ جنگی قیدی 25اگست 2018ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوا۔
فرانسیسیوں کی قائم کردہ یہ جیل جو بعد میں ویتنامیوں نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے جنگی قیدیوں کے لیے استعمال کی، سینکڑوں تحریروں اور کتابوں کے ذریعے اس کے اندر برپا دلخراش داستانوں کو بیان کیا گیا۔ آج جب ویتنام کی جنگ ختم ہوئے 43سال بیت چکے ہیں، ویتنام میں لڑنے والے امریکی فوجیوں اور اُن کے گھروں میں جنم لینے والی تیسری نسل میں بھی ’’ہنوئی ہلٹن ہوٹل‘‘ کو جنگِ ویتنام اور اس میں لگنے والے زخموں کی ایک دردناک یاد کے طور پر جانا جاتا ہے۔
“