ہاں صاحب ! کیا مرض ہے ؟
جی ۔ ۔ جی ۔ ۔ وہ ۔۔ ۔ بہت علاج کرایا ۔
ہاں ! ۔ ۔ آپ کرتے کیا ہیں ؟ وہ مجھے گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولے ۔
جی ۔ ۔ میں ریٹائرڈ ۔ ۔ ۔ !!
اوہ! بہت خوب !! پنشن تو اچھی خاصی ہوگی ؟
ہاں ، ہاں ۔ ۔ بس ،میں نے واضح کردیا کہ ، کہتا ہوں سچ کہ ۔ ۔ ۔ ۔!
گڈ ، اور بچے وغیرہ ؟
ہاں اللہ کا فضل ہے ۔ برسر روزگار ہیں ۔ ۔ بڑے یہ ۔ ۔ منجھلے یہ ۔ ؟ چھوٹے یہ ۔ یہ ہیں ۔
اوہ، کیا کہنے ! انہوں نے نعرۂ تحسین بلند کیا ۔
دیکھیے ! آپ کو آرام کی سخت ضرورت ہے ۔ کچھ دن کے لیے یہاں ایڈمٹ ہوجائیے۔ ۔ !!
اس غیر متوقع حملے کے لیے میں تیار نہیں تھا ۔ ارے صاحب ! اچھا بھلا ہوں ، بس دوا دے دیجئے ۔ گھر میں مشاورت کرکے بتادوں گا ۔
مسیحا نے وار خالی جاتے دیکھ ٹھنڈی آہ بھری ۔۔ ۔ ۔ میں نے دیکھا ان کی آدھی انکساری جاتی رہی ۔
ٹھیک ہے ! کچھ ٹسٹ کروالیجئے ۔ کاؤنٹر پر پیسے جمع کرکے ہماری لیب سے رپورٹ ایک گھنٹے میں مل جائے گی ۔ اسے لے آئیے ۔
انہوں نے رکھائی سے کہا اور بے دلی سے ایک پیپر ہاتھ میں تھما دیا ۔
کاؤنٹر پر معلوم ہوا ٹسٹ کے دوہزار ہوں گے ۔
اگر ، باہر کرائیں تو ؟
وہ ڈاکٹر صاحب کو قابل قبول نہیں ہوں گے !!
کیوں ؟؟
مجھے نہیں معلوم !! مختصر جواب تھا ۔
یہ ڈاکہ زنی ہے ، میں جزبز ہوا ۔ اپنے دوست کی لیب سے نصف سے بھی کم میں ٹسٹ کروا کر ڈاکٹر کے کیبن میں داخل ہوا تو ۔ ۔ ۔ خوش دلی تو دور ، ماتھے پہ بل ۔ ۔ اور آنکھوں میں شرارے ناچ رہے تھے ۔ ۔ وہی کیفیت تھی جو کسی کا شکار چھیننے پر شکاری جانور کی ہوتی ہے ۔ مہذّب ،تعلیم یافتہ ،شکاری نے کاغذ پر آڑھی ترچھی لکیریں کھینچی جو میں وہیں ٹیبل پر چھوڑ آیا ۔ ۔ ۔باہر قطار میں مدقوق چہرے بیٹھے تھے ۔ مسیحا کی مسیحائی کے منتظر ، باہر لان میں باوردی شوفر سفید مرسڈیز سے ٹیک لگائے ۔ ۔ اگلے سوئے مقتل !! مطلب اگلی کلینک کے لیے سراپا منتظر !!