سچ کہا تھا کسی نے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اگر اس بات کی سچائی اور تلخ حقیقت دیکھنی ہے تو گزشتہ روز ہونے والے پنجاب کے وزیراعلیٰ کے انتخابی نتائج کو دیکھ لے جس میں چوہدری پرویز الہیٰ اکثریتی ووٹ لینے کے باوجود اس لیئے ہار گئے کہ چوہدری شجاعت نے ق لیگ کے دس ووٹ شمار نا کرنے کا ڈپٹی اسپیکر کو خط لکھ دیا تھا۔اور اس خط کی بنیاد پر دوست مزاری نے دس ووٹ مسترد کیئے تو اکثریت پھر اقلیت میں بدل گئی اور یوں حمزہ شہبازشریف وزیر اعلیٰ کا انتخاب جیت گئے ۔کیا کبھی کوئی سوچ سکتاتھا کہ چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الہیٰ کے درمیان اتنی دوریاں ہوجائیں گی کہ چوہدری شجاعت ہی چوہدری پرویز الہیٰ کی شکست کا سبب بن جائیں گے۔
ملکی سیاست کےڈھنگ بھی نرالے ہیں یہاں ہر وہ کام ہوسکتا ہے جس کی توقع نہیں کی جاسکتی۔یہاں سیاسی مفادات کی خاطر کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔اقتدار کے حصول کی خاطر کسی آمر کو دس بار وردی میں منتخب کرانے کا دعویٰ بھی جمہوری لوگ کرسکتے ہیں اور نظریاتی طور پر بدترین سیاسی مخالف کسی بھی وقت ایک ہوسکتے ہیں ۔اگر آج ن لیگ اور پیپلزپارٹی شیر وشکر ہیں تو کل تک سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوے بھی ان ہی کے تھے اور چوہدری کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہنے والا مسیحا اسی چوہدری کی وزارت اعلیٰ کی خاطرووٹ مانگ رہا تھا۔
یہی سیاست ہے کہ یہاں پر پیٹریاٹ بھی بنتے ہیں اور وٹو بھی وزارت اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہوتے ہیں ۔طے ہوگیا کہ اقتدار کے حصول کی خاطر کسی بھی اخلاقی قدر کی کوئی اہمیت نہیں ہے کوئی نظریاتی فلسفہ اقتدار کے سامنے نہیں ٹک سکتا۔عمران خان جس طرح مینڈٰیٹ کے احترام کی بات کررہے ہیں انہی کے دور حکومت میں سینیٹ میں ان کی اقلیت کو اکثریت میں بدل دیا گیا ان کو اس وقت اصول ضابطے اور اخلاقی قدریں کیوں بھول گئیں ۔اپوزیشن میں ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والے میاں صاحب کی جماعت نے پنجاب میں ناتو کسی اور کا مینڈیٹ تسلیم کیا ہے اور نا ہی کسی اور جماعت کے ووٹرز کو عزت دی ہے ۔پنجاب میں اتحادی جماعتوں کے وزرا محکموں کے لیئے زلیل ہوتے رہے اور محکمے نہیں دئیے وزرا کام کے لیے زور لگاتے رہے مگر ان کے محکمے کے سیکرٹری ان کی بات سننے کے روادار نہیں تھے۔
ساری جاتی دیکھ کے آدھی دیجیو چھوڑ پر عمل کرتے ہوئے ن لیگ نے چوہدریوں کو آفر کی کہ وہ پرویز الہیٰ کو پی ڈٰی ایم کی طرف سے وزیراعلیٰ بناتے ہیں ۔اور بڑے چوہدری اس جھانسے میں آگئے ۔لہذا سیاست کے بازی گر زرداری نے بازی الٹ دی۔چند تصویر بتاں چند حسینوں کے خطوط ، بعد مرنے کے میرے گھرسے یہ ساماں نکلا اور اسی طرح ایک خط نکل آیا جس کی بازگشت تو تھی مگرمندرجات کا سوائے زرداری کے کسی کو علم نہیں تھا۔ڈپٹی اسپیکر نے اس خظ کی بنیاد پر اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا اور حمزہ شہبازشریف کو وزیراعلیٰ کا انتخاب جیتنے کی نوید سنا دی۔یوں حمزہ شہباز شریف وزارت اعلیٰ کا انتخاب ہارنے کے باوجود ٹیکنیکل بنیادوں پر کامیاب ہوگئے ۔دلچسپ امریہ کہ کپتان مسٹرایکس اور وائی کا زکر کرتا رہا اور گیم مسٹر زیڈ کرگیا۔
یہ بھی تو کسی المیے سے کم نہیں کہ والد کے وزیراعظم ہونے کے باوجود حمزہ شہبازشریف سکون سے وزیر اعلیٰ بن کر کام نہیں کرسکے ۔اوروزارت اعلیٰ کی پرفارمنس ایسی کہ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف نے پنجاب میں روند کر رکھ دیا ۔وزارت اعلیٰ کی نمبرز گیم میں پوری گیم ہی ہاتھ سے نکل گئی اور مستعفی ہونے کا اعلان کردیا جس کو زرداری نے روکا اور الیکشن لڑنے کا کہا ایسے میں زرداری کام آیا اور تب جاکرٹیکنیکل فتح حاصل ہوئی ۔سوال یہ ہے کہ اگر عدالتی فیصلے کے بعد یہ ٹیکنیکل وزارت اعلیٰ بچ بھی گئی تو کیا عمران خان کی اپوزیشن کے سامنے حکومت کام کرسکے گی۔ایوان میں اقلیتی ووٹوں کے ساتھ موجود حکمران جماعت کیا نصف ملک جتنا صوبہ سکون سے چلا پائے گی۔
کوئی جانتا ہے کہ کسی آمر کی جمہوری قوتیں اور عوام مخالفت کیوں کرتی ہیں ۔اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ عوام سے مینڈیت لے کر نہیں آتا بلکہ عوامی رائے کے خلاف برسراقتدار ہوتا ہے ۔اس لیئے جمہور کی طرف سےاس کے خلاف مذاحمت لازم ہوجاتی ہے۔حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ جمہور کی اکثریت کی نمائندہ نہیں ہے تو کیا اس کے خلاف مذاحمت نہیں ہوگی ۔مذاحمت ضرور ہوگی مطلب یہ کہ پنجاب ایک نئے سیاسی بحران کی طرف بڑھ گیا ہے اور آنے والے دنوں میں یہ بحران مزید بڑھے گا اور یہ بحران صرف اور صرف نئے انتخابات کے زریعے ہی ختم ہوگا۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں اتحادیوں نے وقتی کامیابی تو حاصل کرلی ہے مگر ماننے والی بات یہ ہے کہ انہوں نے مل کر عمران خان کے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ کیا ہے ۔عوامی رائے عمران خان کے حق میں بہتر ہورہی ہے اس کے لیے عوام میں ہمدردی میں اضافہ ہورہا ہے ۔اگر اتحادیوں کی سیاسی غلطیوں کی رفتار یہی رہی تو فری اینڈ فیئر انتخابات کی صورت میں پنجاب میں عمران خان میں سب کو بہا کر لے جائے گا۔ن لیگ آئندہ عام انتخابات کے لیے تیار رہے اور ان انتخابات میں تو زرداری بھی ن لیگ کو نہیں بچا سکے گا۔
اتحادیوں کو ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حکومت میں رہ کر عوام کو ریلیف دے کر ہی عوام کے دل جیتے جاسکتے ہیں ۔بدترین مہنگائی اوراقربا پروری سے نا تو عوام کی ہمدردی حاصل ہوتی ہے اور نا ہی نیک نامی حصے میں آتی ہے۔تکینیکی کامیابیاں وقتی ہوتی ہیں عوام کے اندر عمران خان کا بیانیہ چل رہا ہے اس کا توڑ نکالیں وگرنہ یہ سب کوششیں رائیگاں جائیں گی اور اگلی بار عمران خان پہلے سے زیادہ طاقتور بن کر سامنے آئے گا۔ بالفرض عمران خان اقتدار میں نا بھی آسکا تو اس قدر مضبوط اپوزیشن ہوگا کہ شائد ہی کسی حکومت کوچلنے دے ۔اب یہ امتحان شروع ہوگیا ہے پاکستانی کی سیاسی قیادت کا مشکل ترین امتحان دیکھتے ہیں کہ وہ اس امتحان میں کیسے کامیاب ہوتے ہیں ۔فی الوقت حقیقت یہ ہے کہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی ٹیکنیکل کامیابی شائد اب تک کی سب سے بھیانک سیاسی غلطی ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...