خیبر پختونخواہ کے مشہور شہر ہری پور ہزارہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان شاعر حمزہ حامی صاحب 11 مارچ 1996 کو قدیر احمد صاحب کے گھر میں پیدا ہوئے ۔ حامی صاحب کا اصل نام محمد حمزہ اور قلمی نام حمزہ حامی ہے شاعری میں حامی تخلص استعمال کرتے ہیں ۔
حامی صاحب نے بی ایس سی میڈیا سائنس کی تعلیم حاصل کی ہے ۔ اس غرض سے وہ کراچی میں رہائش پذیر ہیں اور ان کا تعلیمی سلسلہ جاری ہے ۔ انہوں نے 20سال کی عمر سے شاعری شروع کی ۔ ان کی شاعری میں خیالات کی پختگی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی عمر سے آگے جا رہے ہیں ۔ ان کی شاعری کہیں بھی قاری کو بور ہونے نہیں دیتی بلکہ قاری کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور پڑھنے پر نہ صرف مجبور کرتی ہے بلکہ متاثر بھی کرتی ہے اور ان کی شاعری سے انفرادیت اور تازگی کی جھلک بھی محسوس ہوتی ہے یہی ان کی شاعری کا کمال ہے ۔ ان کی شاعری میں جس طرح کا لب و لہجہ استعمال ہو رہا ہے اس سے یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ وہ مستقبل قریب میں اردو کے شعر و ادب کے میدان میں اپنا ایک خاص مقام بنانے میں بہت جلد کامیابی حاصل کر لیں گے ۔
حمزہ حامی صاحب کی شاعری سے ایک نمونہ کلام اور چند منتخب اشعار آپ کی نذر
غزل
حالِ دل تجھ کو سنائیں گے چلے جائیں گے
ہم فقط خاک اڑائیں گے چلے جائیں گے
جس جگہ تم نے جلائے تھے چراغِ منت
اس جگہ سر کو جھکائیں گے چلے جائیں گے
کیا تجھے یاد ہے گاؤں کا وہ بوڑھا برگد
پھر وہاں شور مچائیں گے چلے جائیں گے
ہم کو محبوب ہیں سب لوگ ترے گاؤں کے
سب سے ہم ہاتھ ملائیں گے چلے جائیں گے
کون دیکھے گا یہ ہونٹوں پہ نشاں بوسوں کے
ہم ترا وصل منائیں گے چلے جائیں گے
اپنے بیمار کے پہلو میں گزارو اک شب
کچھ رلائیں گے، ہنسائیں گے چلے جائیں گے
ہم وہ دیوانے صحرا میں گزاریں گے جو شب
اور وہاں حشر اٹھائیں گے چلے جائیں گے
بس وہ اک بار کہے یہ تو مرا ہے حامیؔ
پھر گلے اس کو لگائیں گے چلے جائیں گے
اشعار
دل وہ درویش ہے جب وجد میں ہُو بولے گا
آســـــمـاں ٹـوٹ پـڑے گا تـو نمـــو بـولــے گا
تیــرے مجــذوب کـریں گے وہ دھـمالِ الفت
ٹوٹ جائیں گے جو گھنگھرو تو لہو بولے گا
۔۔۔۔۔۔۔
دسترس میں تھا اس کا بندِ قبا
پر نہ ہم سے کبھی کھلا یارو
آبِ رضواں بہ دستِ ساقی ہمیں؟
معجزہ ہو گیا ہے کیا یارو
۔۔۔۔۔۔۔۔
آخرش ٹوٹ گریں گے در و دیوارِ ستم
دیر کب لگتی ہے خاموشی صدا ہوتے ہوئے
شہرِ مقتول تری خیر، ترے لوگ اُٹھے
آج شمشیر بکف شعلہ نوا ہوتے ہوئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے مانگا جو عشقِ کامل تو
مجھ کو کچا گھڑا دیا سائیاں
۔۔۔۔۔۔۔
یار وہ جوگ کا ماہر تھا بڑا جوگی تھا
زلفِ خم دار کے جو زیرِ اثر آیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل یہ ماریں گے اک دوسرے کو سبھی
اور یہ قتل مذہب کے سر جائیں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل میں اِک آس ہے جَگی آقاﷺ
ایک اشکوں کی ہے جھڑی آقاﷺ
نام سُن کر ترے مدینے کا
دل کی کِھلنے لگی کلی آقاﷺ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کربلا اک سفر ہے حامیؔ جی
تیرگی سے نئے اجالوں کا
۔۔۔۔۔۔۔
پابجولاں ہی چلو دشت کی جانب حامیؔ
عین ممکن ہے اسی رہ پہ ستارے ہوں گے
حمزہ حامی