ہمسایہ برادری کے 60 برس
وہ ہم میں ہی ہوتے ہیں مگر ہم ایک دوسرے کو جانتے ہوئے بھی بہت کچھ نہیں جانتے۔ یوگندر ناگ پال کو میں جانتا ہوں۔ میرے دوست کشمیر سنگھ، جو رندھاوا ہے مگر کہلاتا نہیں کا نزدیکی دوست ہے۔ پنجابی پنجابی کرنے والے کشمیر سنگھ نے ناگ پال کو پنجابی ہونے کے حوالے سے ہی متعارف کروایا تھا۔ مگر ناگ پال جب ہندی بولتا ہے تو گاڑھی اور روسی بولتا ہے تو روسیوں کی طرح۔ البتہ اب پتہ چلا ہے کہ موصوف نے بچوں کے لیے لکھی گئی سائنسی کتابوں کے ہندی میں تراجم کیے تھے جو ہندوستان میں مقبول تھیں۔
کل ہونے والی ایک تقریب میں میں اکیلا پاکستانی تھا جو روس میں ہندوستانیوں کی سماجی ثقافتی تنظیم "ہندوستانی سماج" کے قیام کے 60 برس پورے ہونے کے سلسے میں تھی۔ مجھے اس تنظیم کے موجودہ صدر کشمیر سنگھ نے مدعو کیا تھا، ایک پاکستانی کے طور پر نہیں بلکہ بڑے بھائی کے طور پر، جو وہ مجھے سمجھتا ہے۔ اور ہے بھی کتنی دور کا، لاہور کے قریب امرتسر کا تو ہے۔ واہگہ سے "کشمیر سنگھ آ" کرکے صدا دو تو پہنچ ہی جاتی ہوگی۔
اس ثقافتی تقریب کو ترتیب دینے والوں میں میرے کئی شناسا تھے جو میرے ساتھ ریڈیو صدائے روس میں کام کرتے رہے تھے یعنی کشمیر سنگھ، پراگتی، الپنا وغییرہ جو سب بے حد مصرف تھے، رام بھائی یعنی پروفیسر رام ودھوا اور یوگندر ناگپال ویسے ہی ماسکو میں موجود نہیں تھے چنانچہ مجھے وہاں اپنا آپ اجنبی لگا، مگر ساڑھی میں ملبوس لکھنئو کی پراگتی نے آگے سے گذرتے ہوئے اپنی مستقل مسکراہٹ کے ساتھ اتنے پرخلوص سے جب میرا حال پوچھا تو سارا غیر پن ہوا ہو گیا۔ ویسے بھی میں کوئی آدھ گھنٹہ پہلے ہال کی تیسری قطار میں جا کر درمیان میں بیٹھ گیا تھا۔ جب لوگ آ گئے تو نکل نہیں سکتا تھا۔ البتہ تقریب شروع ہو گئی تو پھر اس کے تمام مراحل اشتیاق سے دیکھے۔
جنوری 1957 میں ہند روس سرکاری سمجھوتے کی رو سے حکومت ہند کے منتخب کردہ دانشوروں کی پہلی ٹکڑی بطور مترجم اور ریڈیو پریزنٹرز کے روس پہنچی تھی تاکہ سوویت یونین کے لوگوں کی سماجی و ثقافتی زندگی سے ہندوستان کے لوگوں کو روشناس کروائیں۔ اس ٹکڑی میں ہندی ادیب بھشم ساہنی، ہندی کے شاعر، ڈرامہ نگار اور الہ آباد یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر رام کمار ورما، تامل، سنسکرت اور ہندی کے عالم ڈاکٹر سوما سندرم تھے جو یہاں غیر ملکی زبانوں میں تراجم کے ادارے رادوگا پبلشنگ ہاؤس سے منسلک ہوئے۔ رادھے شیام دوبے اور بنوئے رائے ریڈیو ماسکو کے ساتھ۔ جون کے وسط تک ایڈیٹرز، ٹرانسلیٹرز اور اناؤنسر کی تعداد تقریبا" 25 ہو گئی تھی جنہوں نے "ہندوستانی سماج" کے نام سے اپنی تنظیم بنانے کا فیصلہ کیا۔
سوویت عہد میں یہ تنظیم ہراونش رائے بچن، فیض احمد فیض، کیفی اعظمی، علی سردار جعفری سے شاعری سننے کا بندوبست کرتی تھی اور ادب پر بحث کرنے کی خاطر یش پال، خواجہ احمد عباس، راجندر سنگھ بیدتلسی داس، مرزا غالب، رابندرناتھ ٹیگور، اقبالی، عصمت چغتائی، سبھاش بندوبادھیا جیسے ادیبوں کو مدعو کرتی تھی۔ ادیبوں اور شاعروں جیسے سرداس،تلسی داس، مرزا غالب، رابندرناتھ ٹیگور، اقبال، منشی پریم چند، سبرامنیم بھارتی کے دن مناتی تھی۔
ڈاکٹر سوما سندرم نے پہلی روسی ہندی لغت مرتب کی۔ ہندوستانی سماج کے ایک بانی رکن مدن لال مادھو نے ماسکو سٹیٹ یونیورسٹی سے روسی ادیب گورکی اور ہندوستانی ادیب پریم چند کے تقابلی مطالعے پر ڈاکٹریٹ کی۔ انہوں نے تالستوئے (ٹالسٹائی ) کے ضخیم ناول جنگ اور امن کو ہندی میں منتقل کیا۔ وہ تقریبا" تیس سال تک ہندوستانی سماج کے سربراہ رہے۔ روسی حکومت نے انہیں "آرڈر آف دی فرینڈشپ" کا اعزاز دیا اور حکومت ہند نے "پدما شری" کا۔ مادھو صاحب دھان پان، خاموش طبع اور مسکان بھری شخصیت تھے جو کیس طرح بھی پنجابی نہیں لگتے تھے لیکن وہ تھے اصل لاہوری۔ میری جب ان سے پہلی ملاقات ہوئی تھی وہ اسی برس کے تھے مگر انہوں نے بات سب سے پہلے لاہور سے متعلق ہی شروع کی تھی۔ یہ شفیق شخصیت جنہیں پچاس سال سے زیادہ عرصہ گذر جانے کے بعد بھی لاہور یاد آ رہا تھا، اپنی زندگی میں پھر لاہور کبھی نہ جا سکے۔
ہندوستانی سماج کی ایک اور اہم شخصیت اتل ساوانی تھے۔ میں نے انہیں دور سے دیکھا تھا۔ بات کبھی نہیں ہوئی۔ مجھے وہ ایک ہندی فلموں کے اداکار کی طرح لگے تھے۔ انہوں نے روسی ادب کوے گجراتی زبان میں منتقل کیا تھے۔ مسلمان مگر کٹڑ ملحد کمیونسٹ تھے ۔ وہ ہندوستانیوں میں بہت مقبول شخصیت تھے۔ ان کا چندبرس پہلے ماسکو میں ہی انتقال ہوا تھا۔ ان کے جنازے میں سبھی ہندوستانی شریک تھے۔ ان کا ایک ہی بیٹا تھا جو باپ کے انتہائی بیمار ہونے پر امریکہ سے آیا تھا۔ ان کے انتقال پر رسوم کی بات چلی تو ان کے بیٹے نے اسلامی رسوم کے ساتھ مسلمانوں کے قبرستان میں دفنانے کا طے کیا تھا۔ کشمیر سنگھ بتاتا ہے کہ نماز جنازہ پڑھنے کے لیے صرف مولوی تھا اور ان کا بیٹا، باقی سینکڑوں لوگ ایک طرف کھڑے تھے۔ میں نے سن کر کہا تھا،" شریف آدمی بتا ہی دیتے، ہم پاکستانی لوگ شریک ہو جاتے"۔ خدا ان کی مغفرت کرے۔ سبھی ہندوستانی ان کے معترف رہے۔
اب آتے ہیں ساٹھ سالہ تقریب کی جانب۔ اس تقریب کے روح رواں تنظیم مذکور کے جنرل سیکرٹری جواں ہمت اور جوان و خوبرو وشال جیٹھالیہ تھے۔ یہ راجستھانی جواں مرد انگریزی اور ہندی ایک ہی تسلسل سے بولتا ہے، باقاعدہ درست شین قاف کے ساتھ۔ اس نے تقریب کے دو حصوں میں شرکت کی۔ پہلی میں وشال اور پراگتی مائک پکڑے سٹیج پر آئے اور دونوں نے بڑے اچھے انداز میں تقریب کے "مین سپانسرز" کی ہندی زبان میں مشہوری آپس کی گفتگو میں کی۔ دوسرا حصہ ایک پیشہ ور رقاص اور دسیوں روسی لڑکیوں پر مشتمل اس کی ناچ منڈلی کا تھا جو غالبا" 1980 کے عشرے کو رقص کی زبان میں بیان کر رہے تھے۔ ان کے ہر رقص سے پہلے ایک جانب کھڑا ہوا خوش لباس وشال جیٹھالیا رواں انگریزی میں بغیر پڑھے اور خالص اناؤنسروں کے انداز میں تعارف کرواتا تھا۔ مجھے اس کا انداز اور اظہار بہت پسند آیا اور جانے سے پہلے میں نے اس کو داد بھی دی۔
تقریب کو 1940 سے لے کر اب تک کے عشروں میں بانٹا ہوا تھا۔ ہر عشرے کو ہندوستانیوں کی کوئی علاقائی تنظیم اپنے انداز میں پیش کرتی تھی۔ کچھ رقص کی شکل میں، کچھ کھیل کے انداز میں۔ کچھ حصے بہت مضبوط تھے اور کچھ حصے کمزور لیکن اچھی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں ماسوائے رقاص کی منڈلی کے کوئی بھی پیشہ ور اداکار یا رقاص نہیں تھا۔ سبھی ہندوستانی برادری کے لوگ، ان کی بیویاں اور بچے تھے، جن میں سے کچھ میں تو فی الوقعی فنکار کی جھلک تھی۔ ایک کمزور سا بچہ تھا سات سال کا جو واقعی رقص میں کھو جاتا تھا۔ اسی طرح ایک بچی تھی چار پانچ سال کی جس نے رقص میں ایسے غمزے دکھائے کہ جوانسال کیا دکھائے گی۔ مجموعی طور پر پروگرام بھرہور، مختصر اور بااثر تھا۔ ڈھائی گھنٹے کے پروگرام میں آخری لمحے جو راجستھانی ٹیم کے تھے، کچھ اکتا دینے والے تھے کیونکہ اس میں شامل بیشتر بچے شاید پوری تیاری نہ کر پا سکے تھے ۔
ساٹھ سال پورے ہونے پر انگریزی، ہندی اور روسی میں "مائیتری" نام کا ایک مجلہ بھی شائع کیا گیا جس کے مدیر رام بھائی یعنی پروفیسر رام ودھوا ہیں جو بنیادی طور پر فزکس میں پی ایچ ڈی ہیں۔ میانوالی سے ہیں۔ اردو بہت اچھی بولتے ہیں۔ شاعری سے لگاؤ ہے۔ مزیدار چیزیں بنا کر کھلاتے ہیں اور "منتخب" اشعار سے دل برماتے ہیں۔ ان کی پانچ رکنی ٹیم میں میرے دو اور شناسا پراگتی جنہیں میں لکھنئو کی مکمل انسان کہتا ہوں اور بھائی یوگندر ناگ پال، یاد رہے ناگ سانپ کو نہیں ہاتھی کو کہتے ہیں، بھی شامل ہیں۔
نیک تمنا ہے کہ میرے دوستوں یوگندر پال کی چیئرمین شپ اور کشمیر سنگھ کی صدارت میں "ہندوستانی سماج " مزید فعال اور توانا ہو۔ آخر میں بتاتا چلوں کہ بات چل رہی ہے تاکہ ہندوستانی سماج اور پاکستانیوں کی روس میں تنظیم " مل کر پاکستان" کچھ ثقافتی سرگرمیاں مل جل کر کرے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“