ریڈیو پروگرام ،، ساز اور آواز ،، کے لئے آئے نئے چہرے اپنے خوابوں کی تعبیر تلاش کرنے اور اپنی آواز کا جادو جگانے ریڈیو پاکستان پشاور روڈ راولپنڈی کے ایک ہال میں سب بڑی بےتابی سے اپنی اپنی باری کے منتظر شیشے لگی دیوار کے پیچھے ریکارڈنگ انجنیئر پہ نظریں ٹکائے بورڈ کے ماہرین کو منصفین کی کرسیوں پہ براجمان ہوتے دیکھ کے اپنی سانسوں پہ ضبط کی بندش لگانے لگے ۔ سب کو ملحقہ کمرے میں بٹھا دیا گیا اور ہر کوئی بلائے جانے پہ اپنی آواز مشینوں میں منتقل کروا کے یاس و امید کے مدو جذر میں باہر آ رہا تھا ۔
شاہد کا نمبر ابھی دور تھا اور اسکی سوچ اس موجد کی جانب مبذول ہو گئی جس نے ریڈیو کی ایجاد میں ا پنا کارہائے نمایاں دکھایا ۔ بے تار برقی شعاوں کے ذریعے پیغامات کی ترسیل اور وصولی کا کام مارکونی سے پہلے کنٹوکی کا ایک کسان ناتھان سٹیبل فیلڈ قصرِ شاہی کے صحن میں کامیاب تجربہ کر چکا تھاجسے دیکھتے ہوئے بھی کسی نے اہمیت نہ دی اور ایک شب اٹھارہ سو بانوے کا اصل موجد انیس سو انتیس کوسوتے میں قتل کر دیا گیا اور اس کے آلات چرا لئے گئے ۔ زمین پانی اور ہوا میں برقی مقناطیسی رو ہی ریڈیو کی ایجاد کا موجب بنی جسکی شہرت بعد ازاں اٹلی کے موجد مارکونی کے حصہ میں آئی ۔ بےشک ضرورت ایجاد کی ماں ہے لیکن بعض اوقات اچانک حادثاتی طورکوئی مثبت نتیجہ نکل آتا ہے ۔ اسے اپنی آواز کو ساز کے ساتھ ملا کر گانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا لیکن میز پہ ہاتھوں کی جنبش اور گلے کا اشتراک کرتے کرتے وہ اس مقام پہ پہنچ چکا تھا جہاں اس کی خواہش پوری ہو سکتی تھی ۔ اسے اسٹیج کے رموز و اوقاف پہ قدرے دسترس حاصل تھی لیکن باپ کی لعن طعن سے خائف وہ فنکار کی بجائے ایک گائک بننے آ گیا کیونکہ اس میں مونچھیں کٹوانے کی نوبت نہیں آئے گی ۔
اس کا نام پکارا گیا اور قدم اس کمرے کی جانب بڑھے جہاں اس نے پروگرام پروڈیوسرز ، موسیقاروں کے ہمراہ ریکارڈنگ انجنیئر کو ایک نظر دیکھا ۔ اسے امتحان کے بارے سب سمجھا دیا گیااور پہلا سوال کہ وہ باقاعدہ سازندوں کے ساتھ گاتا رہا ہے یا نہیں ۔ شاہد کے منفی جواب پہ اگلا سوال ۔۔ ایک گانے کا ساز بجایا جائے گا ۔ گانے کے بول ،کس فلم کا ہے ، کس پہ فلمایا گیا ہے اور آواز کس کی ہے ؟ گانے کا ابتدائیہ ساز شروع ہوا اور رآواز سے پہلے ریکارڈ بند ۔ ۔۔ جی اس گانے کے بول ہیں ،، کچھ لوگ روٹھ کر بھی لگتے ہیں کتنے پیارے ،، فلم کا نام ،، عندلیب ،، وحید مراد اور شبنم ،، پہ فلمایا گیا ہے اور پلے بیک سنگر احمد رشدی ہیں ۔ دوسرا سوال نہیں بلکہ گانے کا ساز شروع ہو گا اور اس کے ساتھ اسکی آواز شامل ہونی تھی ۔ اف میرے خدا یا ، ابھی سنبھل کے بیٹھا ہی تھا کہ ،، بہت یاد آئیں گے وہ دن ، مجھے تڑپائیں گے وہ دن ،صنم ، تیری قسم ، بمشکل پہلے انترے کے اختتامیہ تک گایا ہی تھا کہ ٹھک سے ریکارڈ بند ہو گیا ۔ ریکارڈنگ روم میں سب ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے اور شاہد کو حیرانگی اس بات پہ تھی کہ چہ میگوئیاں کیا ہو رہی ہیں ۔ جونہی اندر سے بھاری بھرکم آواز ابھری کہ سب سے آخر میں پھر سے بات چیت ہو گی یہیں تشریف رکھیں پہ شاہدکی تھوڑی ڈھارس بندھی لیکن اسے تو ساز کے ساتھ گانا نہیں آتا تھا کوئی چلنتر گانا ہوتا تو امید رکھی جا سکتی تھی اتنا مشکل گانا ، نہیں نہیں وہ سنگر ، بہت مشکل میں ڈال دیا اساتذہ کرام نے اب نجانے کن مزیدمشکل مراحل سے اسے گزرنا ہو گا کون سے سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ آخری امید وار کے جاتے ہی نتائج کا اعلان کر دیا گیا لیکن اسے کچھ نہیں بتایا گیا ۔
تھوڑی ہی دیر میں موسیقار کامیاب امیدواروں کو اپنے ساتھ لے گئے اور اس کمرے میں اب ریکارڈنگ انجنیئر اور دو پروڈیوسرز رہ گئے ۔ نئے امید وار اندر داخل ہوئے تو شاہد کو عجیب سا لگا کہ اسے کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے ۔ اندر سے پھر اعلانِ عام ہوا کہ پنجابی اور اردو ریڈیو ڈراموں کے لئے آپ سب سے چناو ہو گا ، دوسرے کمرے میں جا کرانتہائی تحمل مزاجی کا ثبوت دیتے ہوئے خود کو تیار کیجئے ۔ باہر ناموں کی لگائی ترتیب سے سب کو موقعہ فراہم کیا جائے گا کہ وہ اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کرکے ریڈیو ڈرامہ ٹیم میں شامل ہو سکیں ۔ شاہد آپ سے شروعات ہوں گی پہ شاہد نے خود کو پیش کیا اور اردو ڈرامہ کے سنئیر پروگرام پروڈیوسر نور صاحب نے اندر سے ایک مسودہ شاہد کے حوالے کیا اور بتایا کہ پہلے اشارے پہ پہلے صفحہ پہ لکھا پڑھیں اور پھر مائک پہ بولیں اسی طرح تین صفحات کے جملے ایک ایک کرکے بولنے ہیں ۔ وقت دیکھتے ہوئے شروع کریں کے ساتھ ہی سرخ بتی روشن ہو گئی ۔۔
،، قاضی جی کی قینچی کہاں ہے ؟ بول کے پہلے صفحہ کو آرام سے الگ کیا تو دوسرے صفحہ پہ نظر پڑی جس پہ لکھا تھا کہ درج تحریر تین بار بولنی ہے لیکن پہلی ادائیگی سے تیز تر ہو ۔۔۔ وہ دیکھو چھت کیا ٹپا ٹپ ٹپا ٹپ ٹپک رہی ہے ۔ ادائیگی ہوتے ہی تیسرے صفحے کی تحریر جو سامنے آئی اس کی ہدایات کچھ دقت پیدا کر رہی تھیں ۔ شاہد کے چہرے پہ ابھرے ابھار کو پروڈیوسر بھانپ گیا اور خود رہنمائی کی کہ اس صفحہ پہ تحریر جو لکھی ہے اسے ایک بار تحکمانہ اور دوسری بار بے پروائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہاں تھوڑا وقفہ لگا کے ادائیگی کرنی ہے اسے مائک پہ اجاگر کریں ۔فقرہ تھا ،، روکو مت جانے دو ،، سمجھ میں جو کچھ آیا وقت ضائع کئے بغیر پہلا جملہ اونچی آواز میں ۔۔ روکو ، مت جانے دو پہ پروڈیوسر کا چہرہ کشادہ ہوا تو دوسرا جملہ بے پرواہ ہو کر تھوڑا مسکراتے ہوئے بولا ۔۔ روکو مت ، جانے دو ۔ اندر سے واہ کی آواز کیا آئی شاہد ہر سوال کے لئے ہمہ تن گوش تھا ۔ پنجابی پروگرام پروڈیوسر الطاف پرواز صاحب نے تو بغیر کوئی سوال کئے اتنا کہا کہ ہر ہفتے اک واری ،، ہماری گلی ،، وچ وی رونقاں لگن گیاں ۔ آں ہاں بار نہیں جانا ، الطاف پرواز صاحب کی بات پہ سب ہنس دیئے اور شاہد آخری امیدوا ر تک وہیں بیٹھا رہا ۔ نتیجہ نکلا تو شاہد سنگر کی بجائے فنکار بن کے کامیاب ہوا ۔ بہت سے امیدواروں میں شاہد ، شمع ، زبیر زوبی اور روبینہ اردو پروگراموں کے لئے منتخب ہوئے اور انور کو پنجابی پروگرام میں جگہ مل گئی ۔ سنئیر فنکار سید علی کے ساتھ زبیر زوبی ، روبینہ اورضمیرکاظمی کے سپرد شاہد ، شمع کر دئے گئے ۔ مسودے تقسیم کئے گئے تاکہ اپنے اپنے کردار جلد از جلد پڑھ کے ہفتے کے اندر اندر ریہرسل مکمل کرکے ریکارڈنگ کی جا سکے ۔ مزید گفت و شنید چلتی رہی اور ریڈیو اسٹیشن کی کنٹین سے سموسے اور چائے کا انتظام پرانے فنکاروں نے اپنے نئے فنکاروں کے لئے کر رکھا تھا یوں ایک ٹیم تیار ہو گئی جو مستقبل قریب میں آن ائیر ہو گی ۔ سیدعلی طویل قامت بہت ملنسار اور کراچی کی بود و باش میں اردو کے تلفظ پہ خوب دسترس رکھتے تھے ، کراچی ہی سے تعلق رکھنے والی درمیانے قد کی شمع بھی بات چیت میں اچھی فنکارہ کی صلاحیت رکھتی تھی ، روبینہ کا تعلق راولپنڈی سے تھا اور وہ اردو کے ساتھ ساتھ پوٹھوہاری میں بھی پروگرام کرنے کی خواہشمند تھی ، زبیر زوبی راولپنڈی اسٹیج پر اپنی پہچان کروا چکا تھا ، ضمیر کاظمی دبلے پتلے جسم میں سے جب اپنی آواز کا جادو جگاتا تو مائک اس کو بہت قبول کرتا آیا تھا ۔ اس کے بہت سے مداح اسے ریڈیو پروگراموں میں ایک مستند فنکار کی حیثیت سے جانتے تھے ، سب کا تعارف ہو جانے پر شاہد خود کوان سب سے کچھ سیکھنے کی تمنا لئے اپنا مختصر تعارف کروا رہا تھا اور ضمیر کاظمی کی دانشمندانہ نظر نے اس کے اندر چھپے فنکار کو بخوبی پہچان لیا ۔ سنیئر پروگرام پروڈیوسر نور صاحب نے ایک پروگرام کا اپنا مکمل مسودہ شاہد کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ اسکی چار کاپیاں کاربن پیپر رکھ کر لکھے اور مکمل کرکے کل ساتھ لیتے بھی آنا ۔ قوی امید ہے تمہاری خوش خطی دوسروں سے بہتر ہو گی ۔پروڈیوسرز کے جاتے ہی سب نے اپنے اپنے راستے ناپے ۔
شاہد نے بڑے انہماک سے چار کورے کاغذ لے کے ان میں تین کاربن پیپر رکھ کے پن لگا دی ۔ کچی پنسل کی بجائے پکی پنسل سے لکھنا شروع کیا اور بڑی احتیاط سے پورے پروگرام کا مسودہ تیار کرکے سکھ کی سانس لی ۔ لکھتے لکھتے اسے پورے پروگرام کے سب کرداروں کی مکمل تفصیل کا پتہ چل گیا ۔ وہ مکمل مسودے کو بار بار پڑھ کے ر اپنے ہاتھ سے لکھے مسودے کے ایک ایک لفظ کی تصدیق کر رہا تھا مبادا کہیں غلطی ، کردار کی ادائیگی کے الگ معنی نہ دے دے ۔ رات دیر تک خیالوں میں کھویا شاہد اپنے والدِ محترم کی نصیحت کو مدِ نظر رکھے قدرے خوش تھا کہ اس کا شوق جب ریڈیو سے پورا ہونے لگا ہے تو اسٹیج کو خیرباد کہہ دے گا ۔ ریڈیو پہ مونچھیں رکھنے نہ رکھنے کی کوئی بندش نہیں ضمیر کاظمی کی ہلکی ہلکی مونچھیں بدستور چلی آرہی ہیں جبکہ سید علی مونچھیں رکھنا پسند ہی نہیں کرتے ۔ نیند کی دیوی کچھ زیادہ ہی مہربانیاں دکھا رہی تھی ۔ وہ مائک سے نکلی آواز کے ساتھ ساتھ خود بھی محوِ پرواز تھا ۔ لوگوں کے تاثرات اس کی آواز کی بھرپور عکاسی کر رہے تھے ۔ شب گذرتے دیر نہ لگی اور ایسے خوشی کے لمحات تو ویسے بھی آنکھ جھپکنے میں گذر جاتے ہیں ۔
ایک نیا سفر شروع ہو چکا تھا ۔ ریڈیو اسٹیشن پہنچتے ہی سب سے ملاقات ہو گئی ۔ اصل مسودہ کے ساتھ باقی چار تیار مسودے بھی نور صاحب کے حوالے کئے اور انہوں نے مسودوں پہ ایک طائرانہ سی نطر ڈالتے ہوئے ہلکی سی مسکراہٹ دی جو اس کے لئے ایک انمول تحفہ تھی ۔ اصل مسودہ اپنے پاس رکھتے ہوئے باقی چاروں مسودے زبیر زوبی ، روبینہ ، شمع اور شاہد کو دیتے ہوئے اپنے اپنے کردار کو یاد کرنے کی ہدایت دی ۔ ضمیر کاظمی اور سید علی کے پاس الگ مسودے تھے ۔ شاہد نے اپنے مسودے کو کھولا تو اس کے حصے پاگل کے کردار کے صفحات تھے ۔ اس کے ذہن میں مکمل مسودہ کی روداد گونج رہی تھی کہ ریڈیو کی وین میں سب سوار کسی انجانے راستے پہ چل نکلے جس کا علم صرف ڈرائیور اور پروڈیوسر کو تھا ۔ نور صاحب بالکل خاموش دور کہیں اپنی سوچوں میں مستغرق شاید نئے ڈرامہ کی تشکیل دے رہے تھے کہ ڈرائیور نے وین کی رفتار ہلکی کرکے مینٹل ہاسپیٹل کے مین گیٹ پہ بریک لگائے ۔ گیٹ پہ متعین گارڈ کو اجازت نامہ دکھاتے ہوئے وین پارکنگ میں لگا دی گئی اور نور صاحب کے ہمراہ چھ فنکار ان کے نقشِ قدم پہ چلتے رہے ۔ جہاں جہاں فنکار کو کہا گیا اسی پاگل کردار کی حرکات و سکنات اور اس کی خود کلامی یکے بعد دیگرے ہر فنکار اپنے اندر سمو رہا تھا اور شاہد کو ایک ادھیڑ عمر خاتون کے احاطے کے باہر اس کی حالت کو نقل کرنے کی ہدایت دیتے وقت نور صاحب نے بتایا کہ یہ خاتون ایک پروڈیوسر کی بیوی ہے ، اس کے ردِ عمل پہ غور کرنا ۔۔ بس اتنا کہہ کے وہ آگے بڑھ گئے لیکن اس خاموش طبع خاتون کے سماعتی پردوں سے جیسے کوئی مانوس آواز نے پورے بدن میں ہلچل سی مچا دی ، اپنے بکھرے بالوں کو جھٹک کراپنی آنکھوں کو وا کئے طنزیہ ہنسی میں ،، تم آ گئے ،، کہہ کے اتنا اونچا قہقہہ لگایا کہ شاہد کا دل دہل گیا ۔ دور جاتے ہوئے لمبے سایہ میں خود کو سموئے اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ گرتے موتی گالوں کی ویرانی سے ڈھلک کر زمین بوس ہو رہے تھے اور انہی ہچکیوں میں اس نے اپنا منہ دوسری جانب پھیر لیا ۔ بالکل ساکت بت بنی ماضی کی یادوں میں کھوئے اس کردار کو کچھ یاد نہ رہا کہ وہ پاگلوں کے ہسپتال میں ہے ۔
وین میں بیٹھے تمام فنکاروں پہ ایک عجیب سی کیفیت طاری تھی جس کا اظہار ان کے چہروں سے عیا ں تھا ۔ وہ سفر پہ گامزن تو تھے لیکن ہسپتال کے ماحول میں ڈوبے ہوئے اپنے اسباق ازبر کر رہے تھے ۔ واپس ریڈیو اسٹیشن پہنچتے ہی سب ریڈنگ روم میں اپنے مسودوں کے ایک ایک لفط پہ اپنی کارکردگی دکھانے میں کوشاں تھے کہ پروڈیوسر نور صاحب نے شاہد کو اپنے کمرے میں بلایا ۔ وہ سر جھکائے ہدایات لینے کے لئے منتظر تھا کہ اسے مسودہ پڑھنے کو کہا گیا ۔ ا بھی پہلا مکالمہ ،، سمندر کی گہرائی ۔۔۔۔۔۔ ایک زناٹے دار تھپڑ شاہد کی گال پہ انگلیوں کے نشان ثبت کر گیا ۔۔۔۔۔ لفظ سمندر نہیں سمنَدر ہے اوپر زبر ہے پیش نہیں اور تم جو بول رہے ہو وہ ایک آتشی کیڑا ہے جو آگ میں پیدا ہوتا ہے ۔ شاہد تھپڑ کی کسک ۔۔۔
نہیں استادِ محترم یہ تو کسی کسی خوش نصیب کے حصے میں آتا ہے ؟
تمہاری شادی ہو چکی ہے ؟
جی بات چیت تو چل رہی ہے ۔۔
بہتر ہے تم اس شعبے کو چھوڑ دو کیونکہ جو لگن تمہارے وجود میں پنپ رہی ہے اس کی رنگت میں دیکھ چکا ہوں ، بہتر ہے تم ۔۔۔
معاف کیجئے گا اب میں آپ کے زیرِ سایہ اپنی منزل تک پہنچ جاوں گا ۔ مجھے اپنی شاگردی میں لے کے دور نہ کیجئے گا پر ہلکی سی چپت لگا کے نور صاحب نے مثبت میں سر کو جنبش دی اور بڑے پیارے انداز میں وہ مزید گویا ہوئے ۔۔
ق پہ دو نقطے حلق سے نکالنا اور ڈنڈے والے ک کی آواز الگ ہوتی ہے ، غ اور گ کا فرق واضع رکھنا ، اردو بےشک اپنے اندر ایک لشکر کو سنبھالے ہوئے ہے لیکن ہر زبان کا اپنا ذائقہ ہوتا ہے جس میں دوسری زبان کی شمولیت اس کی ساخت کو تباہی کے دھانے پہ پہنچا دیتی ہے ۔ مختلف زبانیں سیکھنا اچھی بات ہے اور علاقائی زبانیں ہر بارہ کوس پہ اپنی شناخت کرواتی ہیں جس سے وہاں کے باسیوں کے رہن سہن کا پتہ چلتا ہے ۔ ا ردو میں صرف اردو استعمال کرنا اور جب ،، ہماری گلی ،، پنجابی پروگرام میں جاو تو وہ ہر بار کسی علاقائی زبان کو نشر کرتے ہیں ، اس کا خاص خیال رکھنا الطاف پرواز ایک اچھا پروڈیوسر ہے ۔ اب تم جا سکتے ہو اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ ایک دوسرے سے مکالمات کی ادائیگی کا اہم مرحلہ عقلمندی سے نبھانا ۔
جی بہتر کہتے ہوئے شاہد دوسرے فنکاروں میں پروڈیوسر کی ہدایت کے عین مطابق اپنے کام میں مگن ہو گیا ۔ فائنل ریہرسل کے ساتھ ہی ریکارڈنگ میں سب کی محنت رنگ لائی اور رات خبروں کے بعد یہ ڈرامہ آن ائیر ہو گیا ۔ ریڈیائی لہریں بہت سے سامعین کے پردہ سماعت میں رس گھولتی اپنا مقام بنا گئیں ۔ ایک نئی آواز نے اس وقت خود کو نمایاں کیا جب ریڈیو پاکستان لاھور سے پنجابی پروگرام میں نظام دین عروج پہ تھے ۔ آزاد کشمیر ریڈیو تراڑکھل آزاد کشمیر اپنی آزادی کے پروگراموں میں چاشنی بھر رہا تھا ۔ ریڈیو ایران زاہدان سے فرمائشی پروگرام کی دلکشی عروج پر تھی ۔ بی بی سی لندن اور وائس آف امریکہ سے اردو پروگرام دنیا کی سیاسیات پر قبضہ جمانے میں کوشاں تھے اور آکاش وانی پر سیکولرازم کا پراپیگنڈہ کرنے میں سب ا یڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے ۔ ان سب کے مابین ایک منفرد اردو پروگرام ،، سب رنگ ،، کی ابتدا ہوئی جس میں ایک آواز نصف گھنٹہ ایک کہانی کو صوتی ِ اثرات اور کہانی کے مطابق آواز کے لوچ میں خود کو اسقد ر عوامی شاہکار بنا گئی کہ مارکیٹ سے فلپس ، مرفی ، مارکونی ، زینت ، بش ، ہٹاچی ، فارگوسن اور نیشنل کے اعلی برانڈز ریڈیو زیادہ تر گھروں میں اس آواز کی لگن میں پروگرام شروع ہونے سے قبل ریڈیو بینڈ پہ فریکیونسی تلاش کرنے میں محو نظر آتے ۔ شاہد کے سننے والوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ۔ سال بھر کی انتھک محنت رنگ لائی اور ہر روز چاہنے والوں کے خطو ط میں گوناگوں اضافت شاہد کو سالانہ ایوارڈ کی صف میں شامل کر گئی ۔
سب سے زیادہ خطوط جہلم سے ن ش نے پروگرام ،، سب رنگ ،، کی مد میں معرفت پروگرام پروڈیوسر ارسال کئے جس میں اس فنکار کو سراہا گیا جو اکیلے سال بھر اپنی آواز کا جادو جگاکے سامعین کے دلوں پہ راج کرتا رہا ۔ بہت سے خطوط شاہد کے نام آتے رہے جو شاہد کی زندگی کا قیمتی اثاثہ بنے ۔ شاہد اپنی زندگی کے اس عروج پہ جانے کی تمنا کئے شب وروز محنت کررہا تھا جس میں اس کا ایک ریکارڈ بن جائے اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس کو شادی کے بندھن میں باندھ دیا گیا ۔ شادی کے ایک مہینے میں ہی اس کے پروگراموں میں قدرے کمی کیا واقع ہوئی ایک تہلکہ مچ گیا ۔ ہر کوئی خطوط میں اس کے متعلق بہت سے سوالات کر رہا تھا جس کے جوابات اختصاری دیئے جا رہے تھے جو عوام میں اور ارتعاش برپا کر نے کا موجب بنے ۔ پنجابی پروگرام ،، ہماری گلی ،، میں شاہد کا میواتی بولی کا کردار بہت مشہور ہوا اور اس کا مزاحیہ رخ بھی ابھر کے سامنے آیا ۔ سننے والوں کی پسندیدگی اس کی زندگی کا حاصل تھی ۔ وہ ایک بار پھر اپنی لگن میں مگن اپنی فنکارانہ دنیا میں لوٹ آیا ۔
گرمی زوروں پہ تھی اور ریڈیو اسٹیشن کے احاطہ میں شیشم کے اشجار کے سایہ تلے شاہد اور سنیئرپروگرام پروڈیوسر نور صاحب پروگرام ،، سب رنگ ،، کو ایک نئی ڈگر پہ لانے سے متعلق گفت و شنید کر رہے تھے کہ گارڈ نے شاہد سے ملنے والوں کی نوید سنائی ۔ نور صاحب نے شاہد کے چہرے کا بغور مطالعہ کیا اور اسے کہا کہ جایئے اپنے مہمانوں سے مل لیجئے ۔ شاہد کی زندگی میں یہ پہلی بار ہوا تھا کہ کوئی انجان جواں سال صنفِ نازک اس سے ملنے ریڈیواسٹیشن تک پہنچ چکی تھی ۔ وہ گیٹ کی جانب قدم بڑھا تو چکا تھا لیکن کئی بار مڑ کے استادِ محترم کو بھی دیکھ رہا تھا جو کہ گیٹ کی جانب ہی چلے آرہے تھے مگر کچھ فاسلے پہ وہ کھڑے ہو گئے ۔ شاہد نے ایک نازک اندام لڑکی کو سامنے پا کر تھوڑی ہچکچاہٹ سی محسوس کی تو آداب بجا لاتے ہوئے نرم و نازک ہاتھ کا انداز اسے شکریہ کہنے پہ مجبور کر گیا ۔ اس نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ وہ جہلم سے آپ کے تمام پروگراموں کے لئے خطوط ارسال کرتی رہی ہے ۔۔۔
اچھا تو آپ ہیں ،، ن ش ،، بہت بہت شکریہ آپ کے خطوط کی اضافت میرے ایوارڈ کا حصہ بنی اور آپ کی قیمتی رائے میری زندگی کا انمول اثاثہ ہے ۔ سپاس گذار ہوں کہ آپ ملاقات کے لئے یہاں تک تشریف لے آئیں اور وہ لڑکی جو دور کھڑی ادھر ہی دیکھ رہی ہے وہ بھی آپ کے ساتھ ۔۔۔۔
جی وہ ہی مجھے یہاں تک لے آئی ہے ورنہ اس دور میں گھر سے باہر کون قدم رکھنے دیتا ہے بس آپ کو دیکھ لیا اب صرف ایک سوال پوچھ کر واپس جانا چاہوں گی ۔ میرا نام نسیم ہے اور امید ہے کہ آپ مجھے سوال کرنے کی اجازت دیں گے ۔۔۔۔
بصد شوق سوال کیجئے آپ کو اس کا مکمل حق حاصل ہے کہہ کے شاہد نے پیچھے جو دیکھا تو استادِ محترم کافی قریب آ چکے تھے ۔۔
ہمارے بہت قریب آنے والی شخصیت آپ کے پروڈیوسر لگتے ہیں اس سے قبل یہ اور قریب آ جائیں یہ بتایئے آپ کی شادی ۔۔۔۔
جی مہینہ بھر پہلے اس بندھن میں مجھے جکڑ دیا گیا ہے پہ نسیم کے ہاتھ میں پکڑا پیکٹ نیچے گر گیا جسے جھک کر شاہد نے اٹھایا لیکن اس دوران نسیم اپنی ہمراز سہیلی کے پاس پہنچ چکی تھی ۔ استادِ محترم نے معاملہ کی تہہ تک پہنچتے ہوئے شاہد کو حکم دیا کہ ان معزز مہمانوں کو الوداع کہہ کے واپس ریڈیو اسٹیشن آو ۔ ۔۔۔ وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا دونوں کے قریب گیا تو نسیم کی آنکھوں میں نمودار موتی اس کی دلی کیفیت کے آئینہ دار تھے ۔ اس کی ہمراز سہیلی اداسی کے عالم میں ایک ٹک شاہد کو دیکھے جا رہی تھی جس کے مخفی راز نہ بتانے پر بھی از خود عیاں ہو رہے تھے ۔ شاہد نے ٹیکسی کو ہاتھ دیا اور ٹیکسی کا پچھلا دروازہ کھول کے دربانی کی حالت میں ان کے بیٹھ جانے پہ خود اگلی سیٹ پہ بیٹھ کر پوچھ ہی لیا کہ ریلوے اسٹیشن چلیں یا بس کے اڈے تک ۔۔۔
نسیم کی بجائے اس کی ہمراز سہیلی نے بمشکل بس اڈے تک کہا تو ٹیکسی کے پہیے لیاقت باغ لاری اڈے کی جانب رواں دواں ہو گئے ۔ ٹیکسی سے فارغ ہوتے ہی لاھور کی بس سفر کے لئے تیار تھی اس میں سوار ہونے سے پہلے شاہد نے نسیم سے پوچھا کہ ن ش کے خطوط میں ن تو آپ کے نام نسیم کو ظاہر کرتا ہے لیکن ش کون ہیں ؟
ایک ذو معنی مسکان نسیم کے لبوں پہ عود کر آئی اور بس کے سفر کی جانب متحرک ہوتے ہوئے اس نے جواب دیا ملاقات سے پہلے تک ،، ن ش ،، یکجا تھے جس کا ذکر میرے ہر روز کے لکھے خطوط میں ہے اور وہ پیکٹ آپ کے پاس ہے لیکن آج سے ،، ش ،، میری ہمراز سہیلی شمیم ہے جو مجھے یہاں تک لے آ ئی لیکن ہمارے آنے میں قدرے تاخیر ہو گئی کے ساتھ ہی بس اپنے سفر پہ گامزن ہو گئی شاہد الوداعی ہاتھ ہلاتے ہلاتے ہر روز کے لکھے خطوط کے اس پیکیٹ کو سنبھالے واپس ریڈیو اسٹیشن پہنچا تو نور صاحب شاہد کو دیکھتے ہوئے مزید اس کے فن میں نکھار پیدا کرنے میں دلجمعی سے کام لینے لگے اور شاہد ہر روز کے خطوط کو پڑھتے پڑھتے اس دور میں داخل ہو گیا جہاں فنکار عوامی امنگوں کا شاہکار بن جاتا ہے۔۔۔
https://www.facebook.com/groups/1690875667845800/permalink/1722508328015867/
“