::: " حموربی اور بابلی تہذیب و تمدّن " از مالک رام :::
اظہاریہ: احمد سہیل***
میں نے حموربی کانام پہلی بار معروف ترقی پسند ادیب اور دانش ور سبط حسن صاحب سے سنا تھا۔ ان کا ایک مضمون غالبا لاھور کے ادبی جریدے " فنون"میں گل گامش اور حموربی کے حوالے سے چھپا تھا۔ جو میرے زہن میں تھا۔۔ میں نے سبط حسن صاحب سے حموربی کے متعلق جب دریافت کیا تو انھوں نے کوئی ایک گھنٹہ مجھے حموربی کے فلسفہ قانون ان کی سوانح کے علاوہ بابلی تہذیب کے متعلق تفصیل سے بتایا۔ اور میں نے اس گفتگو کے بعد جب سبط حسن صاحب سے کہا کہ مجھے تو حموربی کا فلسفہ قانون " دستوری یا قانون عمرانیات" کی ایک شاخ لگتا ہے۔ تو میری یہ بات سنکر وہ مسکراتے اور کہا " تم کچھ کچھ اس کو سمجھ گے ھو"۔۔۔۔۔۔۔ اور بات آئی گئی ھوگئی۔ کئِ سال بعد ۱۹۹۱ میں میرا دہلی جانا ھوا وہاں مجھے اردو کے محقق مالک رام { پیدائش: ۲۲ دسمبر " بھالیہ، گجرات، پاکستاں۱۹۰۶ ۔۔۔۔ وفات ۔ ۱۶ ۱پریل ۱۹۹۳، دہلی} کی کتاب " حموربی اور بابلی تھذیب و تمدن" ہاتھ لگی۔ کتاب پڑھ کرحموربی کے نظریات، قانون اور قدیم بابلی گم گشتہ تھذیب و ثقافت کس بیش بہا آگاہی ملی۔ مالک رام نے لکھا ھے حموربی عراق کے کے حکمران تھے۔ اس وقت بابل اس کا دار الحکومت تھا۔۔ مالک رام نے یہ کتاب مولوی عبد الحق کے کہنے پر لکھی۔ اور انھوں نے حموربی کے " قانون" کا ترجمہ کرنے کو کہا۔ پھر اس حوالے سے ایککچھ مضامین رسالے "تاریخ اور سیاسیات" میں شائع بھی ھوئے۔ مگر یہ رسالہ مرحوم ھوگیا۔ زیر نظر کتاب میں مالک رام نے اسے " دنیا کی قدیم قانونی/ دستوری دستاویز قرار دیا ھے۔ حموبی کا قانون کم وبیش تقریبا دو ہزار برا تک نہ صرف بابل {سومر اور اکدا} ہی میں، بلکہ ایشیائے کوچک اور وسط ایشیا کے بہت سے خطے میں بھی نافذ رہا۔ یہ کتاب ۲۱۳ صفحات کی ھے۔ جس کو پانچ/۵ ابواب میں منقسم کیا گیا ھے:
۱۔ قانون حموربی
۲۔ حموربی کون تھا؟
۳۔ بابلی تھذیب و تمدّن
۴۔ بابلی مذھب و معتقدات
۵۔ بابلی زبان وادبیات
حموربی (1792 تا 17500 ق م) اٹھارویں صدی قبل مسیح میں قدیم بابل کے پہلے شاہی خاندان کا چھٹا اور سب سے مشہور بادشاہ گزرا ہے۔ سمیر اور اکاد ’’جنوبی عراق‘‘ کی شہری ریاستوں کو اپنی قلمرو میں شامل کیا اور لرسا کے ایلمی بادشاہ کو شکست دے کر اس کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ مگر فتوحات سے زیادہ اپنے ضابطہ قوانین کے لیے مشہور ہے۔ حموربی کا قانونی ، آئینی اور اخلاقی ضابطہ دنیا کا سب سے قدیم ضابطہ ہے۔
"حمورابی کا ضابطہ قانون انسانی تاریخ میں پہلی قانونی دستاویز مانی جاتی ہے، جس میں قوانین کو تحریراً ایک مکمل ضابطے کی صورت میں پیش کیا گیا۔اس کی تاریخ تخلیق 18ویں صدی قبل مسیح بتائی جاتی ہے۔ اس ضابطے میں 282قوانین شامل ہیں ،جنہیں بارہ الواح پر لکھا گیا۔اسے تحریری صورت میں8 فٹ بلند پتھر کے ستونوں پر کندہ کرایاگیا، جنہیںبابلاورمیسوپوٹیمیاکے دیگرشہروں کے بڑے چوکوں میں نصب کروا یا گیا تاکہ ہر خاص و عام کی رسائی میں آسکے اور عوام کی زیادہ سے زیادہ تعداد ان سے آگاہ ہوسکے۔ مصریوں نے بابل پر قبضہ کیا، تو ان ستونوں کو بھی تباہی کا سامنا ہوا۔ بعدازاں اس ضابطے کا ذکر بھی تاریخ کی کتابوں سے حذف کردیا گیا، تاہم 1901ء میں انہیں فرانسیسی ماہرین آثاریات نے پھر سے کھود نکالا،تو دنیا اس ضابطے سے واقف ہوئی۔ ان ستونوں میں حمورابی کو مردک یا شمش سے یہ ضابطہ وصول کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ وہیں یہ بھی تحریر ہے کہ دیوتاؤں نے انسانوں میں حمورابی کو منتخب کیا کہ ان کے پیغام اور قوانین کو عوام تک پہنچانے کا وسیلہ بنے جبکہ اس کی بادشاہی کا فیصلہ زمانوں پہلے ہی کرلیا تھا اور یہ بھی طے تھا کہ وہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو اکٹھا کرکے انہیں ایک عظیم سلطنت کی صورت دے گا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ حمورابی کے ضابطہ قانون کے اثرات غیر معمولی حد تک دیرپا اور دور رس ثابت ہوئے۔ جتنے بھی مذاہب اور ضابطہ ہائے قوانین اس کے بعد متشکل ہوئے، اس کے سائے سے ہٹ کر اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکے۔ نہ صرف میسوپوٹیمیاکے عوام کی زندگیوں پر بلکہ آنے والے وقتوں میں مختلف تہذیبوں کے افراد کی زندگیوں پر بھی اس ضابطے نے اثرات مرتب کیے۔ بابلی تہذیب پہلی بڑی انسانی تہذیب مانی جاتی ہے، جو دجلہ و فرات کے قرب و جوار میں ایک بڑی سلطنت کی صورت میں موجود تھی۔یہ مختلف قبائل اور ریاستوں کی صورت میں موجود تھی" {دنیا کا پہلا قانون ساز، حمورابی، مشمول کتاب، 'دانش مشرق'، از محمد عاصم بٹ}
۔ڈاکٹر محمود احمد غاذی قانون حموربی پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں
"قدیم ترین قانون جو آج ہمارے سامنے موجود ہے،وہ قانون حموربی ہے۔اور جس کا متن دنیا کی ہر بڑی زبان میں مطبوعہ موجود ہے،حموربی حضرت عیسیً سے تقریبا پونے دو ہزار سال پہلے گزرا ہے،اس کی وفات کا اندازہ ۱۷۵۰ قبل مسیح کیا جاتا ہے،بعض محققین کا خیال ہے کہ یہ وہی شخص ہے،جس کو دنیائے اسلام نمرود کے نام سے جانتی ہے،یہ حضرت ابراہیمً کا معاصر تھا،اس نے قوانین کا مجموعہ تیار کروایا تھا جو کئی سو دفعا ت پر مشتمل ہے۔یہ فرمانروا کم و بیش پینتالیس سال حکمران رہا۔اس نے دنیا کا قدیم ترین مجموعہ جو کل دو سو بیاسی دفعات پر مشتمل ہے ،ایک بڑی سنگ لوح پرکنندہ کروایا تھا۔آٹھ فٹ بلند یہ لوح جو اس کے زمانے میں لکھی گئی تھی،۱۹۰۱ میں دستیاب ہوئی۔،اگر اس قانون کا سرسری جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اگر انسان کو اللہ تعالی کی اور اس کے بیجھے ہوئے انبیا ء کی رہنمائی میسر نہ ہو تو وہ کس انداز کا قانون مرتب کرتا ہے،ہے،اس قانون کے تحت انسانی آبادی ایک طرح کے انسانوں پر مشتمل نہیں تھی،بلکہ اس نے آبادی کو تین طبقات مین تقسیم کیا ہوا تھا،ایک طبقہ حکام یا اشرافیہ کا طبقہ،ایک عامتہ الناس اور ایک غلاموں کا طبقہ،لیکن ان احکام کے باوجود ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس قانون میں بعض ایسی مثالیں موجود ہیں ،جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ جب یہ قانون مرتب کیا جا رہا تھا تو وہاں بعض آسمانی شریعتوں کے بقایا جات بھی موجود تھے۔ان آسمانی شریعتوں کے بقایا جات بظاہر حضرت نوحً،حضرت ادریس یا کسی اور قدیم تر پیغمبر کی شریعت کے تھے،جن کو ہم نہیں جانتے،لیکن بعض ایسی مثالیں موجود ہیں،جن سے پتہ چلتا ہے کہ بعض آسمانی کتابیں یا کم از کم ان کی ماندہ تعلیمات وہاں موجود تھیں۔جن کے اثرات اس قانون میں پائے جاتے ہیں۔ (محاضرات فقہ،ص:۱۳،۱۴،)۔
1950/511 میں مالک رام کی تقرری عراق میں ہوئی تھی جہاں انہیں بابل کی تہذیب اور ثقافت اور بالخصوص حموربی کے قوانین کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔حموربی بابل کا چھٹا بادشاہ تھا۔ مالک رام کو حموربی کے قوانین نے بہت متاثر کیا اور عراق سے واپسی پر اس کا خصوصی مطالعہ کیا۔ ***
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔