حاملہ برقعے
————-
سارے گھر
بغیر کھڑکیوں اور روشندان کے بن رہے ہیں
گھروں کے دروازے
اگر کُھلےبھی ہوں
تو
دروازوں پہ غیرت کے وزنی تالے لٹکے رہتے ہیں
کسی نے فاختہ کے منہ میں
زیتون کی شاخ نہیں دیکھی
زیتون صرف بوڑھے
راتوں کو جاگنے کے لیے کھاتے ہیں
لڑکیاں برقعوں کو
سیج پہ لٹا کے
دیوار پہ چاک سے
روشندان بنانے میں جتی ہوئی ہیں
برقعے پیدائش کے
اور
لڑکیاں دیوار پہ روشندان
بننے کی منتظر ہیں
—————
حاملہ برقعے کی تشریح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غالب کی شاعری کا مجموعہ دیوان غالب چھپنے کے بہت سالوں بعد مولانا حالی ، حسرت موہانی ، طبا طبائی ، بیخودی ، بیخود ، آسی ، شوکت میرٹھی اور بہت سے لکھنے والوں نے غالب کی شاعری کی تشریح کی کتابیں چھاپیں ہیں ، میں غالب کے دلدادوں میں سے ایک دلدادہ ہوں کوشش کی ہے کہ غالب کو غالب ہی کے نقطہُ نظر سے پڑھوں اور سمجھوں مگر مجھے اس بات کے اعتراف کرنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ ان شارحین نے بھی مجھے غالب کو سمجھنے میں میری بڑی مدد کی ہے ،، مگر جیسا کہ میں نے کہا کہ ان لوگوں نے دیوان غالب چھپنے کے کئی سالوں بعد اس کی شاعری کی تشریح لکھی ہے
مجھے میری نظم "حاملہ برقعے" کی تشریح اتنی جلدی مل جائے گی مجھے توقع نہیں تھی
کل میں نے ایک نظم فیس بک پہ لگائی تھی "حاملہ برقعے " جس میں معاشرے کی گھٹن کی طرف اشارہ کیا گیا تھا جہاں مرد عورت کو گھر کے دروازوں پر غیرت کے وزنی تالوں کے اندر رکھتا ہے اور مرد عورت سے نہیں عورت کے پہنے کپڑوں سے جنسی عمل کرتا ہے اس کے برقعوں سے جنسی عمل کرتا ہے ایسے میاں بیوی بھی ہیں جنہوں نے آج تک کبھئ ایک دوسرے کو سارے کا سارا نہیں دیکھا . مجھے ایک پاکستانی عورت نے بتایا تھا میری شادی کو 21 سال ہو گئے ہیں ہمارے چار بچے ہیں مگر میں نے اج تک اپنی پوری شلوار اتار کر اپنے شوہر کے ساتھ جنسی عمل نہیں کیا
"یہ لوگ خواب میں بھی برہنہ نہیں ہوتے،
یہ بد نصیب تو کبھی تنہا نہیں ہوتے"۔
(ساقی فاروقی)
ان کو برقعوں میں قید ایسے گھروں میں رکھا جاتا ہے جن میں کھڑکیاں اور روشندان تک نہیں ہیں ۔
لہذا یہ عورتیں یا ان کے جسم بچوں کو جنم نہیں دیتے ان کے کپڑے اور ان کے برقعے بچوں کو جنم دیتے ہیں جن سے یہ مرد جنسی عمل کر تے جاتے ہیں یہ عورتیں تو اس وقت دیواروں میں روشندان بننے کے خواب دیکھنے میں مصروف ہوتی ہیں جب ان کے مرد ان کے کپڑوں سے جنسی عمل کر رہے ہوتے ہیں۔
آج میری نظر سے اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک اجلاس کی کارروائی پر پڑی جس میں عورتوں کے حقوق کے بل پر شق وار غور کیا اور اس بل کی منظوری کے لیے یہ اجلاس بلایا گیا تھا ۔
آپ میری نظم پڑھیں اور اس بل میں دی جانے والی بعض شقیں پڑھیں تو آپ کو یہ میری نظم کی تشریح لگے گی
کہا گیا ہے عورت کی غلطی کرنے پر مرد یعنی شوہر عورت پر ہلکا سا تشدد کر سکتا ہے ۔۔
اب یہ ہلکا سا تشدد عورت کی ناک کاٹنا بھی ہو سکتا ہے ، عورت کے بال کاٹنا بھی ہو سکتا ہے ، عورت کے چہرے پہ تیزاب پیھنکنا بھی ہو سکتا ہے یا پنچائیت کے فیصلے کے مطابق عورت کے ساتھ سرعام اجتماعی ہلکا سا جنسی عمل بھی ہو سکتا ہے مگر کسی شق میں ایک نقطے میں بھی نہیں لکھا گیا کہ مرد کی غلطی کرنے پر بیوی بھی شوہر کے منہ پر ہلکا سا تھوک سکتی ہے, ہلکا سا جوتا مار سکتی ہے, مگر ایسا نہیں لکھا جا سکتا کیونکہ مرد تو غلطی کر ہی نہیں سکتا غلطی تو عورت ہی کرتی ہے ۔
کہا گیا ہے کہ آرٹ کے نام پہ عورت پر رقص ، موسیقی اور مجسمہ سازی کی تعلیم پر پابندی ہو گی ، اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ مرد پر بھی اس تعلیم پر پابندی ہو گی کے نہیں اور کیا جب مرد عورت کا رقص دیکھنے جائے عورت کا گانا سننے جائے اور اگر اس کو پسند آئے اور وہ عورت کا یہی رقص یہی گانا اپنے بستر پہ سننا چاہے تو اس کی بھی کوئی سزا ہے کہ نہیں؟
کہا گیا عورت غیر محرموں کے ساتھ تفریحی مقامات پر نہیں جائے گی اور مردوں سے آزادانہ میل جول نہیں رکھے گی ، یہی وہ سوچ ہے جس کی بنا پہ ضیاءالحق کے دور میں جماعت اسلامی کے لڑکے ایک ساتھ راہ چلتے لڑکے لڑکیوں سے نکاح نامے طلب کرتے تھے اور پیش نہ کرنے پر ان کے بال کاٹ دیتے تھے
کہا گیا خاتوں نرس مردوں کی تیمارداری نہیں کر سکتی ۔ جب کے ہمیں بتایا جاتا رہا ہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے جب اسلام کے لیے جنگیں لڑی گئیں تو محّمدؐ کے ہوتے ہوئے عورتیں زخمی فوجی مردوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں اور مرد زخمی پیاسوں کو پانی پلاتی تھیں جس بات کو اسلام چودہ سو سال پہلے درست سمجھتا تھا پاکستان میں آج اسلامی نظریاتی کونسل اس کو خلاف اسلام سمجتی ہے
کہا گیا کے غیر ملکی مہمانوں کے استقبال اور ان کی دعوتوں میں عورت نہیں جائے گی مگر یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ اگر غیر ملکی مہمان عورت ہو تو کیا مردوں پر وہاں جانے کی پابندی ہو گی کے نہیں؟
بس میری نظم پڑھیں اور اس بل کی شقیں پڑھتے جائیں نظم آپ کو سمجھ آ جائے گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“