(اکیسویں صدی میں)
ریاست جموں و کشمیر کے معاصر اردو غزل گو شعرا کے قبیل میں پروفیسر حامدی کاشمیری سرخیل شاعر قرار دیے جا سکتے ہیں۔ان کا شمار ریاست کے بزرگ ترین اورسینئر غزل گو شعرا میں کیا جاتا ہے۔حامدی کاشمیری کی شعری کائنات سات دہائیوں پر پھیلی ہوئی ہے۔اس کا اندازہ ان کے پہلے شعری مجموعے’’عروسِ تمنا‘‘ میں مرقوم دیباچہ کی اس تحریر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔بقول حامدی کاشمیری ’’اس میں میری منتخب نظمیں اور غزلیں شامل ہیں جو میں نے گذشتہ گیارہ برسوں میں کہی ہیں ‘‘۔’’عروسِ تمنا‘‘۱۹۶۱ء میںشائع ہوا ہے۔جبکہ مصرہ مریم کے مطابق یہ مجموعہ کلام حامدی کاشمیری کی ۱۹۴۱ء سے ۱۹۵۰ء تک کی لکھی گئی شاعری کا انتخاب ہے۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ مصرہ مریم تاریخ کا صحیح اندازہ نہیں کرپائی ہیں ورنہ ۱۹۶۱ء سے قبل کے گیارہ برس کا شمار ۱۹۴۹ء یا ۱۹۵۰ء سے لے کر مجموعے کی اشاعت تک قراردیے جا سکتے ہیں۔بہر حال ان سات دہائیوں میں حامدی کاشمیری کے کل سات شعری مجموعے شائع ہوکر حلقۂ ادب میں دادِ تحسین پاچکے ہیں۔جن میں ’’عروسِ تمنا‘‘، ’’نایافت‘‘،’’لاحرف‘‘شاخ زعفران‘‘وادیٔ امکاں‘‘خواب رواں(۲۰۰۳ء)‘‘اور’’شہر گماں(۲۰۰۵ء)‘‘ قابل ذکر ہیں۔ ان میں دو آخرالذکر شعری مجموعے ایسے ہیں جو اکیسویں صدی میںشائع ہوئے ہیں۔ان تمام شعری مجموعوں کو ایک خاص وصف اور امتیاز یہ حاصل ہے کہ ان سبھی میں غزلوں کی اچھی خاصی تعداد ہے۔اس میں بھی تین شعری مجموعے ایسے ہیں جو صرف ان کی غزلیہ شاعری پر مبنی ہے۔
حامدی کاشمیری کے تعلق سے بنا کسی مبالغہ آرائی کے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اکیسویں صدیں میں ملک و بیرون ملک کے مختلف نوعیت کے ادبی رسائل و جرائدمیںجموں و کشمیر کے جس شاعر کاکلام بہ کثرت اور متواتر شائع ہوتا رہا ہے اس میں حامدی کاشمیری کانام سرفہرست ہے۔حامدی کاشمیری ریاست کے واحد ایسے شاعر ہیں جن کا غزلیہ کلام دنیا کے معروف اور مقبول ترین رسالوں میں شائع ہوا ہے اور شاید ہی کوئی ایسا رسالہ ہو جس میں ان کے کلام کی شاعت نہ ہوئی ہو۔نئی صدی میں ان سے متعلق ایک دلچسپ واقع یہ ہے کہ انھوں نے اس صدی میں اپنے آپ کو صرف غزلیہ شاعری تک محدود رکھا ۔یہ بھی ایک اہم وجہ ہے کہ ان کے پاس غزلوں کا بہت بڑا ذخیرہ جمع ہوگیا ہے ۔ نئی صدی کے وہ تمام رسالے اس بات کے گواہ ہیں جن میں ان کے غزلیہ کلام کی اشاعت عمل میں آئی۔اگر گذشتہ برسوں میں چھپے ان کے پورے غزلیہ کلام کو ترتیب دیا جائے تو ان کے اور کئی شعری مجموعے وجود میں آسکتے ہیں۔یوں توحامدی کاشمیری نے اردو کی ہر صنف میں اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا ہے اور ہر صنف میں اپنے تخلیقی و تنقیدی اور تحقیقی نقوش چھوڑے ہیں۔لیکن شاعری ان کا پسندیدہ میدان رہا ہے اور اس صنف میں انھوںنے کئی کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔انھوں نے افسانے بھی تخلیق کیے،ناول بھی لکھے،سفرنامہ بھی تحریر کیا،تحقیقی نمونے بھی یادگار چھوڑے اور تنقید میں بھی اچھی شہرت پائی۔مگر شاعری ان کا ایسا وسیلۂ اظہار پایا جس سے انھوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز کیا اور تاحال اس کا دامن نہیں چھوڑا۔جبکہ باقی اصناف کے ساتھ ان کا رشتہ اس کے برعکس رہا۔مظہر امام کے بقول’’خود ان کا خیال ہے کہ وہ پہلے شاعر ہیں ،پھر تنقید نگار‘‘۔ظاہر ہے شاعری میں انہیں اوّلیت حاصل ہے اور اس میں بھی غزل اور نظم میں انھیں خاص استعداد حاصل ہے۔
حامدی کاشمیری نے اپنی شاعری کا آغاز اُس وقت کیا جب ترقی پسند تحریک دم توڑ رہی تھی اور جدیدت کا آغاز ہونے والا تھا۔آتے آتے جدیدیت کا سامنا ہوا اورپھر مابعد جدیدرجحان سے سابقہ پڑا۔اس طرح مختلف النوع قسم کے تجربات،تحریکات اوررجحانات و میلان سے حامدی کاشمیری کا سروکار رہا۔جس طرح انھوںنے ادب کی وقتی تبدیلیوں کو دیکھا ۔اسی طرح ان کی سسکتی اور دم توڑتی زندگی بھی دیکھی۔ اس دوران حامدی کاشمیری نے اپنا تخلیقی سفر جاری و ساری رکھا اور نئی صدی میں داخل ہوتے ہوتے ان کی غزل گوئی میں جدت کے عناصر دیکھنے کو ملے۔شاعر میں ایسی انفرادیت ہونی چاہیے کہ اس کواپنے وقت یا دور کی آواز سمجھا جائے۔کیونکہ وقت کے تقاضے بدلتے رہتے ہیں،رسوم و رواج،تہذیب و ثقافت اورکلچر کی سطح پر بھی تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں۔اس لیے ایک شاعرکی شاعری میں اُس وقت کے حالات ،معاشرت ،سماج ، تہذیب اور افکار و خیالات کی تصویر نظر آنی چاہیے۔چنانچہ حامدی کاشمیری میں ایسا تخلیقی شعور کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔
حامدی کاشمیری کی غزل گوئی کا دامن کافی وسیع ہے۔انھوں نے ہر دور کے طبقۂ فکر کو اپنی شاعری سے متاثر کیا۔یہاں تک کہ ملک و بیرون ملک میں ان کے معاصر غزل گو شعرا نے بھی ان کی شعری انفرادیت وعظمت کو تسلیم کیا ہے۔وہ اپنی شعری زندگی کے کئی مرحلوں سے گزرے اور اس کے نت نئے دور دیکھے اور ہر دور میں کئی بڑے بڑے نام ان کے معاصرین کہلائے جن کے دوش بہ دوش ان کا غزلیہ کلام چھپتا رہا۔اس لیے یہاں پر ان کے معاصرین کے نام گنوانا مقصود نہیں۔جس شاعر کی شاعری کا دامن جتنا وسیع و عمیق ہوتا ہے اس کی شاعری کو کم لفظوں میں سمیٹنا اتنا ہی مشکل ہوجاتا ہے۔حامدی کاشمیری کی شاعری اس کی جیتی جاگتی مثال کہی جا سکتی ہے۔ نئی صدی یعنی حالیہ سترہ برسوںمیں کہی گئی اور شائع ہوئی ان کی مقبول غزلوں کے چند اشعار نمونے کے طور پر پیش کیے جا رہے ہیں۔جو اگرچہ ان کی شاعری کا مکمل احاطہ نہیں کرسکتے البتہ ان کے تخلیقی فن کی نمائندگی ضرور کر سکتے ہیں۔کچھ شعر ملاحظہ فرمائیں:
چہرے کو بے نقاب کرنا تھا
ہر حقیقت کو خواب کرنا تھا
ہوگئے محرومِ بینائی تو کیا
نور کو ظلمت میں ضم ہونا ہی تھا
ہجوم غمگساراں ہے، نہیں ہے
الٰہی ‘ہست کیا ہے‘ بود کیا ہے
الٰہی خواب ہے یا جاگتا ہوں
وہی ہیں سب کے سب‘ کوئی نہیں ہے
خود بھی کیا رنج پال رکھتا ہے
کون کس کا خیال رکھتا ہے
تمام اہل گلستان سربہ زانو ہیں
نسیم کہتی ہے منظر بدلنے والا ہے
سیہ ملبے کے ٹیلے دیدنی ہیں
وہ بستی کب کی غارت ہوگئی ہے
پرندے صبح تک رکنے نہ پائے
گلوں کی اشک باری رہ گئی ہے
موجود ہیں دیوار و در دیکھا نہ تھا
میں نے شاید اپنا گھر دیکھا نہ تھا
٭٭٭
حامدی کاشمیری کے مذکورہ اشعار کا انتخاب ان کی حالیہ صدی میں کہی گئی بعض اہم غزلوں سے کیا گیا ہے۔جو ان کی تخلیقی حسیت اور شعوری وجدان کا پتہ دیتی ہے۔اگر موضوعاتی اور فنی لحاظ سے ان کی شاعری کا جائزہ لیا جائے تو اس کے لیے صفحات کم پڑ جائیں گے۔اس لیے بالاختصار کے ساتھ ان کی عصری غزل گوئی کے چند امتیازی پہلوؤں کی نشاندہی کی جاتی ہے۔حامدی کاشمیری کی شاعری ان کی شخصیت کی آئینہ دار ہیں جس میں انفرادیت اور زندگی کے تمام نشیب و فراز کسی نہ کسی زاویے سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس میں سنجیدگی وپاکیزگی بھی ہے اور وزن ووقار بھی، اس میں زندگی کا عرفان، اس کو بسر کرنے کاایک لائحۂ عمل اور برتنے کاایک نظام بھی ہے ۔ حامدی کاشمیری کی غزلیں بالغ نظری ، وسعت فکر اور قادرالکلامی کی غمازہیں ۔
حامدی کاشمیری یوں تو روایتی غزل گوئی سے بھی فیض یاب ہوئے لیکن انھوں نے اس سے بغاوت بھی کی۔ انھوں نے نئی شاعری کے سلسلے میں پیش رفت کی اور روایتی اور رومانی شاعری سے کنارہ کش ہوکر موضوع اور اسلوب کو بے جاجکڑ بندیوں سے آزاد کراکے اسے نئے شعری تقاضوںکے مطابق کردیا۔ان کی شاعری نہ صرف اسلوب اور آہنگ کے لحاظ سے ایک نئی سمت اختیار کرگئی بلکہ ان کے موضوعات عصری تقاضوںکے پیش نظر زیادہ پیچیدہ اور تہہ در تہہ ہوگئے ۔ زبان و بیان کی چستی اور لفظوں کی گہرائی ان کی غزلیہ شاعری کو معنویت عطا کرتی ہے۔شمس الرحمن فاروقی ‘ فراق گورکھپوری اور حامدی کاشمیری کے بیچ امتیاز و تقابل کرتے ہوئے رقمطراز ہوتے ہیں کہ’’فراق ؔصاحب اور حامدی کاشمیری میں فرق ہے تو صرف یہ کہ فراق صاحب کی زبان میں وہ کچاپن اور انداز میں وہ خود اعتمادی ہے جو ہمارے زمانے کے پی۔ایچ۔ڈی اور فراق صاحب کے زمانے میںبی۔اے کے طالب علم صفت تھااور حامدی صاحب نے اتنے بڑے بڑے الفاظ استعمال کیے ہیں کہ جن کو دیکھ کر بوعلی سینا کو بھی جھر جھری آجائے۔‘‘شمس الرحمٰن فاروقی نے یہ الفاظ حامدی کاشمیری کی نقد میر کے تعلق سے استعمال کیے تھے اور اگر دیکھا جائے اس کا عکس تھوڑا تھوڑا شاعری میں بھی نظر آتا ہے۔
موصوف ایک صاحب اسلوب شاعر ہیں۔ ان کا منفرد اسلوب انھیں معاصر شعرا میں ممتاز مقام عطا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کا شعری اسلوب نئے آہنگ اور نئے مزاج سے پوری طرح آشنا کراتاہے۔ان کی غزلیات میں تنوع اور رنگارنگی ہے ۔یہ تنوع صرف مضامین اور موضوعات کے انتخاب اور اظہار تک محدودنہیں رہ جاتابلکہ اس کادامن شاعر کے اسلوب تک پھیلاہواہے۔ ان کے تخلیقی ذہن کاایک اہم جزاِن کاعصری شعور ہے جومادّیت پرستی،سائنس اور ٹیکنالوجی کی بے پناہ ترقی کے انسانیت سوزنتائج سے لبریز ہے ۔ دراصل عصری حسّیت کی شدّت نے حامدی کاشمیری کی شاعری کواذیت ناک اور دہشت خیز احساسات کی شاعری بنادیاہے ۔ یہ اشعار حامدی کاشمیری کے اس احساس کی خوب ترجمانی کرتے ہیں:
گھر میں بیٹھے رہو، کہرام ہے گلشن گلشن
شاخ سے ٹوٹنے کو برگِ خزاں ہے کوئی
چھپ گئے چھوڑ کے ہم کو لق و دق صحرا میں
راستہ کوئی نہ قدموں کا نشاں ہے کوئی
ہوگئیں غرقاب کتنی بستیاں
کتنے طوفاں جوئباروں میں رہے
کریں کس سے توقع منصفی کی
کوئی ایسا ہے جو قاتل نہیں ہے
بہرکیف یہ بات بالکل واضح ہے کہ حامدی کاشمیری کی شاعری اپنے اندرعمیق تجربات سمیٹے ہوئی ہے۔ دوسرے معنوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حامدی کاشمیری کی شاعری ان کی ذات تک محدودنہیں رہتی بلکہ سماج اور کائنات کے متعدداور متنوع موضوعات کا احاطہ کرتی ہے۔ ان کی شاعری میں عصری حسیّت ،سیاسی وسماجی مسائل اور فکرو فلسفہ وغیرہ کے عناصر موجودہے ۔چونکہ وہ ایک لمبے عرصے سے لکھ رہے ہیں لہٰذا ان کے شاعرانہ لہجے، آہنگ اور ڈکشن میںوقتاً فوقتاًکافی تبدیلیاں رونماہوئی ہیں۔ ان کے یہاں ایک نئی شعری کائنات، آسیب زدگی، غیر یقینیت، نارسائی اور نادیدہ طلسمی دنیاؤںکااحساس ہوتاہے ۔ ان کی شاعری میں شدت اور نفاست کارویہ اس طرح چھایاہواہے کہ یہ ان کے تخلیقی عمل کارویہ معلوم ہوتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کاتجربہ روشن اور اس کی تمام لکیریں رنگارنگ نظر آتی ہیں۔ انھوں نے شاعری میں شدت کااہتمام برقرار رکھنے کے لیے آہستہ روی کے توازن کوبگڑنے نہیں دیا۔ اس توازن کی وجہ سے ان کی شاعری سستی لفظ بازی کاشکار نہیں ہونے پائی۔ بہرحال، ان کی شاعری میں فکری وفنّی لحاظ سے کئی زاویے نکلتے ہیںاور کئی پر تیں کھلتی ہیں ۔
حامدی کاشمیری نے علامتوں ،استعاروں اور ترکیبات کے استعمال سے اپنی غزلیہ شاعری میںحسن پیدا کیا ہے۔یہ خصوصیاتِ کلام ان کے خلاقانہ ذہنیت اور فکری و فنی شعور کا بہترین مظہر ہیں۔ان کی غزلوں میں منفرد ڈکشن،لب و لہجہ ،موضوع و ہیئت،اسلوب کی تہہ داری،زبان و بیان کی سادگی،چھوٹی بحر کا ستعمال اور عصری حالات کی عکاسی وغیرہ کا گہرا امتزاج ملتا ہے۔مجموعی طور پر اگرحامدی کاشمیری کی شاعری میں جن جن خصوصیات کا ذکر کیا جا سکتا ہے اس میں حسن و عشق،طنزیہ انداز،فلسفیانہ اور عارفانہ خیالات،کشمیر کے حالات و کوائف،ذاتی دردوغم کے مضامین،زندگی کی بے ثباتی،روایتی رنگ،رنگِ تغزل اور بے ساختگی،موسیقیت اور غنائیت،جذباتیت،رجائیت،زبان و بیان،دلنشین اسلوب،استعارہ سازی،لسانی تشکیل، رومانیت،جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے اثرات،مقامیت یا کشمیریت وغیرہ شامل ہیں۔حامدی کاشمیری ایک ذود گو شاعر ہیں ۔انھوں نے ایک دن میںتیس غزلیں کہنے کا اعتراف تک کیا ہے۔اس کے علاوہ حامدی کاشمیری ایک جدیدغزل گو شاعر ہیں۔ان کی عصری غزل گوئی میں تمام شعری محاسن سمٹ آئے ہیں۔وہ آخر وقت تک جموں و کشمیر میںاردو غزل کی آبیاری کرتے رہے اور اس کی صحت مند علامت بن کراُبھر ے ہیں۔