(Last Updated On: )
حمیدہ بانو ہندوستانی خاتون کشتی کا ایک ایسا گمشدہ نام ہے جو اس سال کی شروعات میں یک بیک لوگوں کے سامنے آیا۔وہ ہندوستان کی پہلی مسلم اور بے خوف کشتی باز ر ہیں۔ان کی شہرت کا زمانہ ۱۹۵۰ء کے آس پاس کا ہے۔انھوں نے ۱۹۳۷ء میں اپنے رسلنگ کیریر کی شروعات کی۔ اس وقت رسلنگ کی رنگ میں عورت لفظ کے تصور کا نگینہ جڑا ہی نہیں گیا تھا۔عورت تو دور کی بات مردوں کے لئے بھی یہ با وقار اسپورٹ شمار نہیں کیا جاتا تھا۔اس وقت کشتی بازوں کو پہلوان کہتے تھے اور ان کا مقابلہ دنگل کہلاتا تھا۔پہلوان کا خیال آتے ہی آج بھی ذہن میں ایک غصے والی خونخوار شخصیت ابھرتی ہے اور پہلوانوں کے مقابلے دنگل سے کوئی مثبت شبیہ تشکیل نہیں پاتی۔رفتہ رفتہ ہندوستان میں مردوں کی کشتی یعنی رسلنگ نے ا پناایک مقام بنالیامگر خواتین کے لئے یہ سفرتاہنوز دشوار گذار ہی ہے۔تاہم جس پروفیشنل خواتین کشتی کی داغ بیل بیسویں صدی میںحمیدہ بانو نے ڈالی تھی ، ۲۰۰۴ء میں اس اسپورٹ کو باضابطہ طور پر اولمپک گیمس میں شامل کر لیا گیا۔ایسے شاندار موقعے پر بانو کو یاد کیا جانالازمی تھا مگر ایسا نہ ہوا، اشاید اس وقت ان کے اس عظیم کارنامے سے کوئی واقف ہی نہ رہا ہو۔اس کی بڑی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ یہ اسپورٹ تو مردوں کے لئے مختص تھا،عورتیں تو اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔ایسی صورت میں ایک مسلم خاتون کا اس میدان میں اتر پڑنا ایک غیر معمولی کارنامہ ہے۔اس لئے خواتین اسپورٹس میں جب بھی کشتی اورہندوستانی خواتین کشتی بازوں کا ذکر ہو توحمیدہ بانو کا نام سر فہرست ہونا چاہئے۔یہ وہ خاتون ہیں جنھوں نے اس سپورٹ کے ذریعہ نسوانی طاقت کو عروج بخشا۔انھیں کے نقش قدم پر چل کر آج کی کشتی باز خواتین عزت ، شہرت اور دولت حاصل کر رہی ہیں۔افسوس اس بات کا ہے کہ حمیدہ بانو کی زندگی کے حالات دستیاب نہیں ہیں۔اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انھیں سماجی رسم و رواج و روایات سے بغاوت کرنے میں کتنی جد وجہد کرنی پڑی ہوگی۔ان سب مشکلات کو عبور کر نہ صرف کشتی لڑنا بلکہ خود دنگل کا انعقاد کرنا بہت بڑی بات ہے اس کے باوجود تاریخ میں جگہ نہ پاناجنسی نا مساوات کی دلیل ہے۔جب کہ آج کی رسلر گیتا پھوگاٹ جواولمپک کی پہلی ہندوستانی خاتون کشتی کوالیفایر ہیں ان کو لے کر عامر خان نے دنگل فلم ہی بنا دی ۔گیتا پھوگاٹ کا کہنا ہے کہ کشتی کے ذریعہ وہ اپنے سماج بالخصوص مردوں کی سوچ میں کچھ حد تک بدلائو لانے میں کامیاب رہی ہیں۔
۲۰۲۳ء کی شروعات ہوئی تو ہندوستانی ویمن رسلنگ اچانک جنسی استحصال کے خلاف احتجاج کو لے کرسرخیوں میں آ گئی۔اس سے قبل دسمبر ۲۰۲۲ء میں ہریانہ کے ماڈوٹھی گائوں کے تیج پال دلال نامی شخص کی کشتی سے متعلق گفتگو ہسار کے ایک اخبار میں نشر ہوئی حالانکہ تیج پال تاریخ کے استاد ہیں مگر کشتی سے خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ان کے خاندان اور گائوں کے لوگوں کا نام کشتی بازوں کی فہرست میں درج ہے۔انھوں نے خواتین رسلر پر ایک کتاب لکھی جس کا عنوان ہے۔۔’ہریانہ میں مہیلا پہلوانی کا اودے‘۔یہ کتاب انھوں نے انتہائی جانفشانی سے تکمیل کی حد کو پہنچائی۔مہیلاکشتی سے متعلق تحقیق کے دوران انھیں معلوم ہوا کہ بیسویں صدی کے وسط میں حمیدہ بانو نام کی خاتون پہلوان ہوتی تھیں اور انھوں نے کشتی کے میدان میں شہرت حاصل کی تھی ۔پھر کیا تھا ۔مسٹر دلال نے ہر ممکن کوشش کی کہ ان کی زندگی کے کوائف دریافت کریں۔ان کی اطلاع کے مطابق حمیدہ بانو ۱۹۰۰ء کے آس پاس پیدا ہوئیں۔ان کا گھرانہ پہلوانوں کا تھا لہٰذا انھوں نے بچپن سے ہی اپنے گھر میں کشتی کا ماحول پایااور اسی میں پلی بڑھیں ۔بانو نے ۱۹۳۷ء سے باقاعدہ پروفیشنل کشتی کی شروعات کی اور سخت محنت لگن اور مضبوط قوت ارادی کی بدولت اس گیم میں اپنی شناخت قائم کی۔یہاں ان کے گھر والوں کا کردار بہت اہم نظر آتا ہے جنھوں نے اپنے گھر کی لڑکی کو کشتی کے میدان میں اتار دیا۔اس وقت ان لوگوں کا لڑکی لڑکا جیسی جنسی تفریق نہ کرنا بہت معنی رکھتاہے۔اس زمانے میں کشتی تو صرف مردوں کا کھیل تھا جس کے لئے مرد کا مضبوط جسم، زیادہ طاقت، مقابلہ کا جذبہ، جنون ، غصہ ،انانیت وغیرہ درکار تھے۔عورت تو صنف نازک، کمتر جنس، کمزور ارادہ، مردانہ برتری کی قائل، شادی بیاہ، گھر بار بچے تک محدود، اسے دل دماغ ، ذہانت، فکر ی ارتقااور نام نمود کی کیا ضرورت ہو سکتی تھی۔ایسے میں حمیدہ بانو کا رنگ میں اترنا حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ایک سچ یہ بھی ہے کہ ان کے ہمعصروں نے کبھی انھیں فیلو ایتھلیٹ نہیں گردانا۔ وہ تو بس ایک عورت کی ہی حیثیت سے دیکھی گئیں۔ایک عورت مردوں کے برابر یا بہتر کیسے ہو سکتی ہے ۔ان سب کے باوجود ان کی فیملی کا سپورٹ ان کے ساتھ رہاجب کہ سماج ان کی عزت و ناموس، پہن اوڑھ اور کھان پان کا ٹھیکیدار بن گیا۔افسوس کہ آج بھی یہ قصے کم نہیں ہوئے ہیں۔
مسٹرتیج پال دلال نے اپنی تحقیق کی بنا پر حمیدہ بانو کو ہندوستان کی پہلی کشتی باز خاتون قرار دیا ہے۔ان کے مطابق حمیدہ بانو نے ۱۹۵۰ء کے آس پاس کئی نامی گرامی پہلوانوں کو شکست دی تھی۔دلال نے متعدد پرانے کشتی بازوں سے ملاقات کی اور حمیدہ بانو کے بارے میں ان سے دریافت کرتے رہے۔کئی کشتی بازوں نے بتایا کہ حمیدہ نہ فقط کشتی کے کھیل میں حصہ لیتی تھیں بلکہ کشتی سے سبکدوشی کے بعد خود دنگل کا انعقاد بھی کرتی تھیں۔۱۹۷۰ء میں وہ مشہور پہلوان دارا سنگھ کے چھوٹے بھائی رندھاوا اور مانڈوٹھی گائوں کے کپور سنگھ کے درمیان ہونے والے مقابلے کو دیکھنے جھجھر تشریف لائی تھیں۔دلال نے بتایا کہ ۱۹۶۰ء اور ۱۹۷۰ء کے دوران راجستھان کے بھرت پور ضلع کے ویر پور قصبے میں رہنے والے ننھے پہلوان کی بیٹی نے بھی دنگل میں نام کمایا تھا۔تیج پال دلال کا یہ لائق تحسین کارنامہ ہے۔انھوں نے ۳۱؍ دسمبر ۲۰۲۲ء کو ٹریبیون سماچار سیوا ، ہسار، ہریانہ کے نمایندے دیپیندر دسوال کو ایک گفتگو کے دوران بتایا کہ وہ اپنے گائوں مانڈوٹھی میں کشتی سے متعلق ایک میوزیم کی شروعات کر چکے ہیںاور اب تک اس میوزیم میں کئی پرانے کشتی بازوں کے کپڑے اور دیگر چیزیں اکٹھا کی ہیں۔ تیج پال دلال کشتی کے قلم ویر جانے جاتے ہیں۔رویندر راٹھی سے پچھلے سال نیاری بات عنوان سے کی گئی ان کی طویل گفتگو یو ٹیوب پر موجود ہے۔جس میں انھوںنے بتایا کہ ان کا تعلق بہادر گڑھ کے مانڈوٹھی گائوں سے ہے۔ان کے خاندان میں کئی پشتوں سے کشتی، مکے بازی اور کبڈی میں دلچسپی لی جاتی رہی ۔ان کے دادا جو خود ایک اچھے پہلوان تھے ،بچپن سے ہی انھیں پہلوانوں کے قصے سناتے تھے۔داراسنگھ گونگا پہلوان وغیرہ کے نام سے وہ آشنا تھے۔ان کے تایا مختیار سنگھ کا شمار بڑے پہلوانوں میں ہوتا تھا۔تیج پال کو خود بھی کشتی میں دلچسپی تھی مگر ان کے والد کا خیال تھا کہ ان کا ایک بیٹا کشتی سے الگ تعلیمی میدان میں آگے بڑھے۔لہٰذا تیج پال نے اپنی تعلیم پر توجہ دی اور آج وہ ہسٹری کے پروفیسر ہیں۔انھوں نے اپنی تحقیق کو کشتی پر مرکوز کر دیا۔ان کی زیر نگرانی ۲۴؍ طلبا نے پی ایچ ڈی کی ہے جن میں سے گیارہ نے کشتی کے موضوع پر کام کیا ہے۔تیج پال ۱۹۹۵ء سے کشتی پر مسلسل کام کر رہے ہیں۔۲۰۰۷ء میں کشتی پر ان کی پہلی کتاب ’ بھارت میں کشتی کلا کا ادبھو ایوم وکاس‘ عنوان سے شائع ہوئی ۔اس کتاب میں ریلوے سے وابستہ پہلوانوں کا ذکر ہے اور اس کی رسم اجرااس وقت کے ریلوے منسٹر جناب لالو پرساد یادو کے ہاتھوں ۳۰؍ اگست ۲۰۰۷ء کو ہوئی۔۲۰۱۶ء میں آپ کی دوسری کتاب’ سوادھین بھارت کا کشتی گورو ‘شائع ہوئی۔ان کتابوں پر آپ کو نیشنل اوارڈ بھی مل چکے ہیں۔عامر خان نے جب فلم دنگل بنائی تھی تو تیج پال سے طویل ملاقاتیں کیں اور ان سے مشورے کئے تھے۔ یہی وہ تیج پال دلال ہیں جنھوں نے کشتی باز حمیدہ بانو کو نو زائیدگی بخشی۔انھیں کی بدولت پچھلے دو تین ماہ میں حمیدہ بانو پر کئی لوگوں نے قلم اٹھایا۔۲۵؍مئی ۲۰۲۳ء کو بی بی سی نے Hamida Bano:The Incredible Life of India’s First Woman Wrestlerعنوان سے ایک اسٹوری نشر کی۔بی بی سی اردو کے جناب نیاز فاروقی نے اس اسٹوری پر کام کیا۔انھوں نے ان لوگوں کو تلاشا جن کا تعلق حمیدہ بانو سے تھا یا جو کسی بھی صورت ان سے وابستہ تھے۔ان کے قریبی فیروز شیخ کی اطلاع کے مطابق ان کی پیدائش مرزاپور اترّ پردیش کے ایک روایتی خاندان میں ہوئی تھی۔وہاں کے ماحول میں کشتی کو آگے بڑھانا مشکل ہو رہا تھا لہٰذا وہ علی گڑھ آ گئیں۔یہاں انھوں نے سلامت پہلوان سے کشتی کی ٹریننگ لی۔فاروقی لکھتے ہیں کہ فروری۱۹۵۴ء میں اخباروں میں ایک خبراس شرط کے ساتھ شائع ہوئی ’تم دنگل میں مجھے ہرائو میں تم سے شادی کر لوں گی‘۔ اس وقت حمیدہ بانو کی عمر تقریباً ۳۰؍ برس تھی۔ اس خبر کے شائع ہونے کے بعد بانو نے دو پہلوانوں کو شکست دی جو رسلنگ چیمپین رہ چکے تھے۔ایک کا تعلق پٹیالہ پنجاب سے تھا اور دوسرے کلکتہ کے۔ مئی میں وہ تیسرے مقابلے کے لئے بڑودہ پہنچیں۔فاروقی نے بڑودہ کے عمر رسیدہ سندر پرب سے ملاقات کی جو ۱۹۵۴ء میں بچے ہی تھے۔انھوں نے اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس مقابلے کی تشہیر کے پوسٹر لاریوں اور دوسری گاڑیوں پر لگائے گئے تھے۔بانو کا مقابلہ چھوٹے گاما پہلوان سے ہونا تھا جو اس وقت مہاراجہ بڑودہ کی سرپرستی میں تھے مگر انھوں نے حقارتاً آخری لمحوں میں یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ ایک عورت سے مقابلہ نہیں کریں گے۔اس لئے بانو کو ان کے بعد والے چیلنجر بابا پہلوان سے مقابلہ کرنا پڑا۔بانو نے فقط ایک منٹ ۳۴؍ سکنڈ میں مقابل کو شکست دے دی۔اسوسئیٹڈ پریس نے ۳؍ مئی کو رپورٹ کیا۔۔and the referee declared Pahalwan out of her wedding range.ایک دوسرا اخبار بابا پہلوان کے لئے رپورٹ کرتا ہے۔۔down he goes – and one more suitor hits the dust۔فاروقی نے ۱۹۴۴ء کی بامبے کرانکل کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ بمبئی میں بانو کا مقابلہ گونگا پہلوان سے ہونا تھا۔اس مقابلے کی تیاری میں زیادہ وقت اور پیسہ صرف ہوا۔آخر وقت میں یہ میچ کینسل ہو گیا ۔اس میچ کو دیکھنے کے لئے اسٹیڈیم میں بیس ہزار لوگوں کا مجمع تھا ۔میچ نہ ہونے کی خبر پھیلتے ہی ہجوم نے طیش میں آکر پورا اسٹیڈیم ہی تہس نہس کر ڈالا۔کئی اخباروں نے بانو کوآمیزان آف علیگڑھ لکھا۔ایک کالمنسٹ نے لکھا کہ بانو کی ایک جھلک ہی دیکھنے والے کا ہوش اڑا دیتی تھی۔فاروقی نے مہیشور دیال کی ۱۹۸۷ء میں لکھی ایک کتاب کے حوالے سے لکھا ہے کہ بانو نے اترّ پردیش اور پنجاب میں بہت سے مقابلے کئے جنھیں دیکھنے دور دراز سے لوگ آتے تھے۔وہ مرد پہلوانوں کی مانند ہی لڑتی تھیں مگر کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ حمیدہ پہلوان اور ان کے مقابل میں سمجھوتا ہو جاتا تھا اور سامنے والا خود ہی ہار جاتا تھا۔ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق پونہ میں بانو کا مقابلہ رام چندر سالنکے سے ہونا تھا مگر مقامی رسلنگ فڈریشن نے اسے نہیں ہونے دیا ۔Ronojoy Sen نے اپنی کتاب Nation at Play: AHistory of Sports in Indiaمیں لکھا ہے کہ بانو نے اس وقت کے مہاراشٹرا کے چیف منسٹر مرار جی دیسائی سے اپنے میچ پر پابندی لگائے جانے کی شکایت کی تو وہاںسے جواب آیا کہ مقابلے بانو کے عورت ہونے کی وجہ سے کینسل نہیں کئے گئے بلکہ ان کے خلاف کمزور امیدوار میدان میں اتارے جانے کی وجہ سے پابندی لگائی گئی ہے اور اس کی شکایت رسلنگ پروموٹرس کی جانب سے مستقل موصول ہو رہی تھی۔دوسری طرف قرۃ العین حیدر اپنے افسانے دالا ن والا میں لکھتی ہیں کہ ان کا ملازم فقیرہ بانو کا میچ دیکھنے بمبئی گیا اور لوٹنے پر اس نے بتایا کہ اس شیرنی کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔۱۹۵۴ءمیں ہی بانو نے روس کی female bear کہی جانے والی Vera Chistilinکوبمبئی کے ایک مقابلے میں ایک منٹ سے کم وقت میں شکست دے کر اعلان کیا کہ وہ یوروپ کے رسلرز سے مقابلہ کریں گی۔مگر اچانک حمیدہ بانو رسلنگ رنگ سے بالکل غائب ہو گئیں۔اس سلسلے میں نیاز فاروقی نے حمیدہ کے قریبی فیروز شیخ سے بات چیت کی۔فیروز حمیدہ کے پوتے ہیں۔ان کے والد کو بانو نے گود لیا تھا۔ ان کے بیان کے مطابق حمیدہ بانو اور ان کے کوچ سلامت پہلوان علی گڑھ بمبئی اور کلیان کا سفر کرتے رہتے تھے۔کلیان میں ان کی دودھ کی ایک ڈیری چلاکرتی تھی۔سلام پہلوان کو حمیدہ کا یوروپ کا پلان پسند نہیں آیا۔سلام پہلوان کی بیٹی سہارا کے مطابق حمیدہ بانو ان کی سوتیلی ماں تھیں مگر فیروز شیخ جو حمیدہ بانو کے ساتھ ان کی وفات یعنی ۱۹۸۶ء تک رہے ، ان کا کہنا ہے کہ حمیدہ بانو نے شادی نہیں کی۔ہاں ان کے کوچ سلامت پہلوان نے انھیں یوروپ جانے سے روکنے کے لئے ڈنڈے سے ان کو پیٹا اور ان کا ہاتھ توڑ ڈالا۔حمیدہ بانو کے ایک پڑوسی راحیل خان نے اس بیان کی تائید کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے پائوں بھی ٹوٹ گئے تھے اور مجھے یاد ہے کہ وہ لاٹھی کے سہارے چلتی تھیں۔سلام پہلوان علی گڑھ لوٹ آئے جب کہ حمیدہ بانو کلیان میں ہی رہ گئیں۔سلام پہلوان کی بیٹی مس سہارا کے مطابق وہ ان کے والد کی موت سے کچھ دنوں قبل ان کی عیادت کو آئی تھیں۔ فیروز شیخ کہتے ہیں کہ ان کے آخری دن بہت پریشانی میں گذرے۔وہ سڑک کے کنارے کچھ کھانے پینے کا سامان بیچ لیتی تھیں اورگھر کا کچھ حصہ کرائے پر دے دیا تھا۔ اسی سے ان کا گذارہ ہوتا تھا۔بی بی سی کی اس رپورٹ پر لوگوں کا رد عمل بھی آ رہا ہے اور بانو کی زندگی پر فلم بنائے جانے کی مانگ ہو رہی ہے۔محمد عظیم نامی ایک صاحب نے لکھا ہے کہ ہم نے اپنے بچپن میں ان کو دیکھا ہے اور ان کی فیملی کو جانتے ہیں۔وہ ایک چارپائی پر بیٹھی کچھ کھانے پینے کی چیزیں بیچتی تھیں۔میں نے ان کے چہرے پر کبھی خوشی نہیں دیکھی۔وہ ہمیشہ بچوں پر چیختی چلاتی رہتی تھیں ۔ ہمیں ان کے موڈ سے ڈر لگتا تھا حالانکہ ہم انھیں ایک اہم شخصیت مانتے تھے۔ان کی آواز آج بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔ محترمہ رخشندہ جلیل نے بی بی سی کی اس اسٹوری پر اپنا رد عمل دیتے ہوئے خواہش ظاہر کی ہے کہ حمیدہ بانو کی زندگی پر مبنی ایک فلم بنے۔اپریل ماہ میں مس رادھیکا گپتا کا ایک مضمون حمیدہ بانو پر شائع ہوا جس میں انھوں نے کھیل کے میدان میںجنسی نا مساوات پر گفتگو کی ہے۔اسی ضمن میں ایک مضمون کا ذکر کرنا لازمی ہے ۔۹؍جولائی ۱۹۳۹ء کو The Bombay Chroniclesمیں ایک مسٹر مجومدار کا مضمون Should A Woman Wrestle?عنوان سے شائع ہوا۔وہیں دوسری جانب اس طرح کی سرخیاں بھی بنتی تھیں۔۔Lady wrestler Tosses Cupid out of ring for the third Timeیا اس طرح۔۔Woman Wrestler stays single by defeating Male۔ ۹؍ مئی ۱۹۵۴ء کا The Washington Post لکھتا ہے ۔۔Grappler To Challenge Europe’s Best Wrestlersوہ اپنے وقت میں اتنی خاص تھیں کہ اخباروں نے ان کے کھانے پینے اور زندگی گذارنے کے طریقے پر بھی خبریں چھاپیں۔مثلاً لندن میں ایک خبر چھپتی ہے۔۔She Eats and Winsاور اس عنوان کے تحت ان کی خوراک کی تفصیل کچھ اس طرح نظر آتی ہے۔۔قد پانچ فٹ تین انچ۔وزن ۱۰۸؍کلوگرام اور خوراک روزانہ۔۔دودھ 5.6لیٹر، سوپ2.8لیٹر، فروٹ جوس, ایک کلو گوشت، ایک مرغ، ایک کلو بادام، آدھا کلو مکھن، ۶؍انڈے، دو بڑی روٹیاں، دو پلیٹ بریانی، اور بھی بہت کچھ۔Reutersنے لکھا وہ ۹؍گھنٹہ سوتی ہیں اور ۶؍گھنٹہ پریکٹس کرتی ہیں۔
حمیدہ نے یہ سرخیاں یوں ہی نہیں بٹوریں۔ہم نے رستم سہراب کے قصے بہت سنے اور پڑھے ہیں۔فردوسی نے تو پورا شاہنامہ ہی رستم کو ہیرو بنا کر لکھ ڈالا اور رستم ایک پہلوان تھااورشاہنامہ کی پوری داستان اسی پہلوان پر مبنی ہے۔ایران میں شاہنامہ کے توسط سے شاندار ماضی کو یاد کیا جاتا ہے مگر ہندوستان میںآزادی سے قبل تک کشتی کو ایک غیر شائستہ کھیل جانا جاتا رہا۔مردوں کے لئے بھی یہ مقبول عام کھیل نہیں بن سکا تو عورتوں کا کیا ذکر۔ایسے میں ایک مسلم خاتون پردے سے باہر آتی ہے اور اس کھیل کو پورے تن من سے اپنا بیٹھتی ہے۔یقیناً حمیدہ بانو ایک غیر معمولی شخصیت کی مالک رہی ہوں گی۔انھوں نے بڑی بے رحمی سے اپنی جان کو کشتی کی ٹریننگ میں جھونک دیااور بھرپور تپنے کے بعد کندن بن کر ابھریں۔شروع کے دنوں میں وہ امرتسر بھی ٹریننگ کے لئے گئیں۔وہاں جب وہ اسپورٹ ڈریس پہن کر نکلیں تو مرد سماج نے فقرے کسے۔یہاں تک کہ ان کے لباس کے خلاف باقاعدہ احتجاج ہوا۔ان پر پتھر پھینکے گئے اور دنگے ہو گئے۔ظاہر ہے مرد سماج انھیں کسی صورت برداشت نہیں کر سکتا تھا۔موقعے کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے حمیدہ نے پنجاب چھوڑ دیا مگر ان کا جذبہ نہیں مرا ، ان کی ضد برقرار رہی۔وہ تمام رکاوٹوں کو روندتی اور روایتوں کو توڑتی رسلنگ کے میدان میں آگے ہی بڑھتی گئیںاور اپنے عزم محکم کی بدولت ایک دہائی کی اخبار کی سرخیاں اپنے نام کر لیں۔خواتین کی اسپورٹ ڈریس کو لے کر آج بھی پوری دنیا میں وقتاً فوقتاً تنازعہ پیدا ہوتا رہتا ہے۔گزشتہ دنوں ملیشیا کی نور دیانا کے لئے خبریں چھپیں۔۔World’s First Hijab Wearing pro Wrestler۔۔ہمارے یہاں بھی اڑیسہ کی طاہرہ خاتون برقعے کے ساتھ کشتی کی رنگ میں اترنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ۲۸؍ سالہ طاہرہ کے پاس وسائل کی بے انتہا کمی ہے اور وہ صرف سبزی چاول کھا کر اپنے مشن میں لگی ہوئی ہیں۔مدھیہ پردیش کی فاطمہ بانو کا نام بھی یہاں لیا جانا ضروری ہے۔یوں تو انھوں نے کبڈی میں تین نیشنل میڈل جیتے ہیں مگر یہ ہندوستان کی پہلی مسلم خاتون رسلنگ کوچ ہیں۔انھوں نے اب تک بیس لڑکیوں کو اپنے خرچ پر رسلنگ کی تربیت دے کر نیشنل لیول گیم تک پہنچایا ہے۔فاطمہ بانو نے گیتا پھوگاٹ، ببیتا پھوگاٹ اور ساکشی ملک کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔فی الوقت وہ ۲۷؍ بچوں کو ٹریننگ دے رہی ہیںجن میں ۱۲؍ لڑکیاں اور ۱۵؍ لڑکے ہیں۔انھیں وہ اولمپک گیمس کے لئے تیار کر رہی ہیں۔انھوں نے امریکہ، قزاکستان اور کرغستان کے بچوں کو بھی رسلنگ کی ٹریننگ دی ہے۔فاطمہ بانو پہلی رسلر ہیں جنھیں مدھیہ پردیش سرکار نے وکرم اوارڈ دیا۔حال ہی میں ہندوستان میں نکہت زرین کا نام ابھر کر سامنے آیا۔نکہت زرین ایک باکسر یعنی مکے باز ہیں۔انھوں نے ۲۰۲۲ء میں استامبول اور ۲۰۲۳ء میں دہلی میں منعقد ہونے والی IBA Women’s World Boxing Championship میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ انھوں نے ۲۰۲۲ء میں برمنگھم میں ہونے والے کامن ولتھ گیمز میں باکسنگ کا گولڈ میڈل اپنے نام کیا۔یہی نہیں نکہت نے ۲۰۱۱ء میں AIBA Women’s Youth & Junior World Boxing Championshipجو اناطولیہ میں ہوئی تھی اس میں بھی گولڈ میڈل جیتا تھا۔نکہت کا تعلق تلنگانہ سے ہے جب کہ باکسنگ میں زیادہ تر لڑکیاں ہریانہ اور نارتھ ایسٹ کی ہوا کرتی ہیں۔ٹریننگ کیمپ میں اکثر نکہت کو آئوٹ سائیڈر کہا گیا۔انھوں نے ۲۰۱۹ء میں کشتی ٹریننگ کیمپ میں کشتی فڈریشن سے fair trial کی مانگ کر دی تھی۔دیر سے ہی سہی مگر نکہت کی بات فڈریشن کو ماننی پڑی تھی۔آپ کو گرنمنٹ آف انڈیا کی جانب سے۲۰۲۲ءمیںارجن اوارڈ دیا جا چکا ہے۔آپ Adidas Athleteہیں۔ نکہت زرین کا بھی یہاں تک کا سفر بہت آسان نہیں رہا۔حمیدہ بانو کا زمانہ بیسویں صدی کا نصف اول ہے اور آج ہم اکیسویں صدی کی پہلی چوتھائی کو پار کرنے والے ہیں، مگرآج بھی خواتین ، مسلم خواتین، خواتین اسپورٹس، جنسی مساوات، عزت و ناموس کی حفاظت جیسے پہلوئوں پر کتنا غور و خوض درکار ہے ، اس پر جنوری ۲۰۲۳ء سے شروع خواتین رسلرز کے تنازعہ اور احتجاج سے بھر پور روشنی پڑتی ہے۔