آج کینیڈا میں رہنے والےپاکستانی شاعر حامد یزدانی کا یومِ پیدائش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حامد یزدانی 12 اکتوبر 1962ء کو فیصل آباد میں پیدا ہوۓ۔حامد کے والد محترم یزدانی جالندھری اپنی بزرگی کے اعتبار سے بھی اور مستند شاعر ہونے کی حیثیت سے بھی بہت بڑا مقام رکھتے تھے۔ معروف غزل گو شاعر، صحافی، مترجم اور خاص طور پر علم عروض پر انہیں جس قدر دسرس تھی وہ ہمارے دور میں بہت کم دیکھنے میں آئی ہے وہ ادب کے ان اساتذہ میں سے تھے جنہوں نے شہرت و ناموری سے بے نیاز ہو کر اہل ادب کی رہنمائی فرمائی۔
حامد یزدانی نے کم عمری میں ہی زندگی کی سچائیوں سے آگاہی حاصل کرنا شروع کر دی تھی اور وہ جذبات سے زیادہ حقیقتوں کو پرکھنے کے عمل سے گزرنے لگے تھے۔ ان کی ادبی رفتار بڑی مستحکم اور پائیدار تھی ۔ تنگی حالات و معاش اس کے حصول تعلیم کی راہ میں آڑے نہ آ سکی اس سے نبرد آزما رہنے اور اپنے ادبی ذوق کی پروش کے لۓ انہوں نے چھوٹی عمر ہی میں ریڈیو پاکستان سے وابستگی اختیار کر لی تھی ۔ وہ ریڈیو کے مشاعروں اور دیگر ادبی پروگراموں میں باقاعدگی سے حصہ لیتے رہے جس سے کچھ نہ کچھ اپنی تعلیمی ضروریات کے لۓ مدد مل جاتی تھی۔ یہ ان کے میٹرک کا زمانہ تھا بعد میں جب وہ گورنمنٹ کالج میں آ گۓ تو انہوں نے ریڈیو کمپئیر اور اسکرپٹ رائٹر کے طور پر بھی بہت کام کیا ۔ یہ تجربہ آگے چل کر وائس آف جرمنی میں بھی ان کا بہت کام آیا وہ بچوں کی تدریس سے بھی اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرتے رہے۔مگر اپنے والدین پر کبھی بوجھ نہیں بنے۔ان تمام مصروفیات ے باوجود وہ دوستوں اور ادبی محفلوں کے لۓ وقت نکال لیا کرتے تھے۔ حامد یزدانی نے ابتدائی دور میں " انجمن فکر ادب" بنائی تھی بعد ازاں " دبستان اہل قلم" کے نام سے ایک تنظیم تشکیل دی۔ ان دنوں کیئ سرکاری پرچے ایسے تھے جو تحقیقات پر معاوضہ دیا کرتے تھے ۔ حامد کی کم و بیش تخلیقات ان پرچوں میں محض اس لۓ چھپتی رہیں کہ ان سے بھی ان کے تعلیمی اخراجات کے لے مدد مل جاتی تھی اس کے علاوہ ان کی غزلیں اور نظمیں باقاعدگی سے اوراق ، افکار، ماہ نو ، فنون ، شام و سحر، سپارہ اور دیگر کئی رسائل میں شائع ہوتی رہیں۔گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلے کے بعد وہ کالج کے معروف مجلہ " راوی" کے معاون مدیر بھی رہے اور کالج کے ادبی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔
حامد یزدانی نے بی اے فرسٹ ڈویژن میں پاس کر کے سوشیالوجی میں ماسٹر کیا اور اس کے بعد انہوں نے گورنمنٹ کالج میں لیکچر شپ اختیار کی۔
پھر انہوں نے ایک راستے کی طرف قدم موڑ لیا جو انہیں وطن سے دور جرمنی کی فضاؤں میں لے گیا اور " ڈوئچے ویلے" وائس آف جرمنی کی فضاؤں میں ان کی آواز ہوا کی لہروں کا سفر کرنے لگی۔پھر اضطراب انہیں جرمنی سے بھی واپس کھینچ لایا مگر چین انہیں پھر بھی نہ ملا۔ اب وہ گزشتہ کئی برسوں سے کینیڈا میں مقیم ہیں اور فیملی اینڈ چلدڑن سروسز میں خدمات انجام دے رہے ہیں ۔
1992ء میں ان کا پہلا شعری مجموعہ " ابھی اک خواب رہتا ہے" منظر عام پر آیا جسے ادبی حلقوں کی پذیرائی ملی، 2007ء میں اسی کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا ۔ 2002ء میں ان کی پنجابی شاعری کا مجموعہ "نیلی رات دی چپ" شائع ہوا اور اپریل 2007ء میں پہلی کتاب کے دوسرے ایڈیشن کے ساتھ ہی ان کی اردو شاعری کا تیسرا مجموعہ " گہری شام کی بیلیں " شائع ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گردشِ وقت کی زد میں یہ جہاں ہے کہ جو تھا
یہ ترا غم مرے سینے میں جواں ہے کہ جو تھا
شبِ تنہایئ کی بجھتی ہوئی خاموشی میں !
گنگناتا ہوا اک رنگ بیاں ہے کہ جو تھا
مجھ کو دھڑکن، تری آمد کا پتا دیتی ہے
دل میں اب تک تری آہٹ کا گماں ہے کہ جو تھا
میرے ہونٹ اب بھی ، ترے ضبط کی تحویل میں ہیں
دل میں اب بھی تری آہوں کا دھواں ہے کہ جو تھا
مجھ کو لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہوں ، جیسے
کربِ فرقت مری سانسوں میں رواں ہے کہ جو تھا
زرد پتوں کی وہ بارش ہے کہ تھمتی ہی نہیں
کان میں اب بھی وہی شور خزاں ہے کہ جو تھا
اب زمیں پاؤں کے نیچے نہیں ٹکتی حامدؔ
وہ توازن مرے قدموں میں کہاں ہے کہ جو تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھڑک اٹھنے کی دھن میں دن رات بے تاب رہتا ہے
چراغِ شامِ تنہائی سحر آداب رہتا ہے
جہانِ شب گزیدہ کے مکیں ، اے صبح کے طائر
میں کیسے کھول دوں آنکھیں ، ابھی اک خواب رہتا ہے
گزرنے کو تو میں اک قلزم خوں سے گزر آؤں
مگر پیش قدم اک خطہء پایاب رہتا ہے
سر بحر یقیں ، ریگ گماں کی سرسراہٹ تھی
وہ صحراۓ امکاں بھی کویئ گرداب رہتا ہے
یہ کیسے رت جگوں میں ہو گئیں بوجھل مری آنکھیں
یہ کس کے خواب میں گم دیدہء بے خواب رہتا ہے
نۓ امکاں کے برگ و بار دیتا ہے ہر اک موسم
کوئی رُت ہو ، مر نخم سخن شاداب رہتا ہے
ابھی توڑیں نہ چپ کو لفظ کی حرمت کو پہچانیں
کتاب خامشی کا آخری اک باب رہتا ہے
اسے چبھنے لگیں کیوں دھوپ کی جلتی ہوئی کرنیں
ترا حامد تو زیرِ چادر مہتاب رہتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھوم رہے ہیں آنگن آنگن چاند ہوا اور میں
ڈھونڈ رہے ہین بچھڑا بچپن چاند ہوا اور میں
بھولا بسرا افسانہ ہیں آج اس کے نزدیک
کل تک تھے جس دل کی دھڑکن چاند ہوا اور میں
خوابوں سے بے نام جزیروں میں گھومے سو بار
یادوں کا تھامے ہوۓ دامن چاند ہوا اور میں
اپنے ہی گھر میں ہیں یا صحرا میں گرم سفر
کیوں کر سلجھائیں یہ الجھن چاند ہوا اور میں
آج کے دور میں اپنی ہی پہچان ہوئی دشوار
دیکھ رہے ہیں وقت کا درپن چاند ہوا اور میں
رن کا ہالہ خوشبوں کا اک جھونکا کچھ تو ملے
کب سے ہیں آوارۃء گلشن چاند ہوا اور میں
پرچھائیں کے پیچھے بھاگے کھوۓ خلاوں میں
نکلے آپ ہی اپنے دشمن چاند ہوا اور میں
جانے کس کی کون ہے منزل پھر بھی ہیں اک ساتھ
گھوم رہے ہیں تینوں بن بن چاند ہوا اور میں
عریانی کا دوش کسے دیں اپنی ہے تقدیر
خود ہی جلا بیٹھے پیراہن چاند ہوا اور میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود