صحت اور تعلیم دو ایسے شعبے ہیں جن کے ساتھ ہر حکومت نے ’’مناسب‘‘ سلوک روا رکھا! وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کے محلات پر اٹھنے والے اخراجات کہیں زیادہ ہیں۔ اس ’’ترجیحی‘‘ برتائو کا نتیجہ یہ ہے کہ آج وطن عزیز میں جہالت اور بیماری دونوں زوروں پر ہیں۔ ٹی بی جس کا ماضی میں انسداد ہو گیا تھا۔ شدومد کے ساتھ دوبارہ زندہ ہو گئی ے۔ ہیپا ٹائٹس بی اور سی آبادی کے بہت بڑے حصے پر حملہ آور ہو چکے ہیں۔ یاد نہیں یہ اعداد و شمار کس حد تک درست ہیں لیکن ایک اندازے کیمطابق جنوبی پنجاب کی آبادی کا ساٹھ فیصد حصہ ان مہلک بیماریوں کے نرغے میں ہے۔ غربت اور جہالت، بیماری کی چچازاد بہنیں ہیں‘ چنانچہ وہ خاندان جو غریب ہیں اور غیر تعلیم یافتہ بھی ہیں، پورے کے پورے، ہیپا ٹائٹس بی اور سی کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔
نیم حکیم، عطائی، نام نہاد ہومیو پیتھ، بسوں، اڈوں اور فٹ پاتھوں پر دوائیاں بیچنے والے ٹھگ ، تعویز فروش، ’’روحانی علاج کرنیوالے اٹھائی گیرے، ’’نقش‘‘ فروخت کرنیوالے، نجومی، اور ’’ہر بیماری‘‘ کا علاج کرنیوالے زبدۃ الحکما قسم کے انسانی جانوں کے تاجر۔ یہ سب خلق خدا کو ’’علاج‘‘ کے راستے سے قبرستانوں میں بھیجنے کا کام کر رہے ہیں۔ ان دونوں بیماریوں کے ٹیسٹ اتنے مہنگے ہیں کہ عام آدمی کی دسترس سے باہر ہیں۔ علاج پر ایک سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ انجکشن مہنگے ہیں۔ پرہیز سخت ہے، چنانچہ غربت کے ہاتھوں مجبور بیمار آسانی سے عطائیوں اور ٹھگوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔
وفاقی وزارت صحت نے چند دن پہلے اسلام آباد میں ایک سرکاری ہسپتال میں وزیر اعظم کو بلایا اور ہیپا ٹائٹس کے مرض کے سلسلے میں ایک منصوبے کا افتتاح کروایا۔ اس منصوبے کی سنجیدگی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ سٹیج کے پیچھے والی دیوار پر وزیر اعظم کی بہت بڑی تصویر لگائی گئی اور تصویر کے ساتھ یہ عبارت لکھی گئی: ’’ٹیکہ لگواتے وقت ہمیشہ نئی سرنج پر اصرار کریں‘‘ ہیپا ٹائٹس کا خاتمہ، خوشیوں بھری زندگی‘‘
وزارت صحت کے بابوئوں سے وزیر اعظم کو پوچھنا چاہئے تھا کہ ’’میاں! اس سارے مسئلے میں میری تصویر لگانے کا کیا جواز ہے؟‘‘ یا تو ٹیکے اور سرنج کی تصویر ہونی چاہئے تھی یا کسی مریض کی، یا ہسپتال کی، لیکن متعلقہ وزیر نے اپنی وزارت پکی کرنے کیلئے یا بابوئوں نے نوکری کی رسّی اپنے گلے میں تنگ کرنے کی خاطر یہ خوشامد بھرا کام کیا۔ جہاں سسٹم نہ ہو، ضابطہ اور نظام ناپید ہو فیصلے فرد واحد کی مرضی سے ہوتے ہوں، وہاں خوشامد ایک فن بلکہ سائنس بنا دی جاتی ہے
رہا یہ مشورہ کہ ٹیکہ لگواتے وقت ہمیشہ نئی سرنج پر اصرار کریں تو اہل پاکستان تو باسٹھ سال سے اس نصیحت پر عمل پیرا ہیں۔ سب سے پہلی نئی سرنج جس سے قوم کو ٹیکہ لگایا گیا، ایوب خان تھی، ایوب خان ایک ایسی سرنج تھی جس نے ٹیکہ لگایا تو قوم کا بازو سن ہو گیا اور دس سال سن رہا۔ یہ آمرانہ سرنج الطاف گوہر اور قدرت اللہ شہاب جیسے عطائیوں کے ہاتھ میں تھی۔ ایوب خان کے بیٹوں نے فوج جیسے مقدس پیشے سے ’’توبہ‘‘ کی اور کروڑ پتی ہو گئے۔ دوسری طرف لال بہادر شاستری، وزیر اعظم بھارت مرا تو اس کا بیٹا بمبئی کے ایک بنک میں چھ سو روپے ماہانہ تنخواہ پر ملازمت کر رہا تھا۔
اس ٹیکے کی بدولت مادر ملت محترم فاطمہ جناح بھی انتخابات میں ’’شکست‘‘ سے دو چار ہوئیں۔ ایوب خان کے بعد قوم نے نئی سرنج پر اصرار کیا اور اب کے جو سرنج ڈبے سے نکلی تو اس کا نام یحییٰ خان تھا۔ اس سرنج سے جو ٹیکہ لگا، اسکے نتیجے میں ہم نے پاکستان کا نصف سے بڑا حصہ کھو دیا۔ میانوالی کے ٹائیگر جرنیل نے اپنا ریوالور بھارت کو پیش کیا اور ساتھ ہی جہیز میں نوّے ہزار قیدی دیئے۔ پھر ایک اور سرنج آئی۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو تھے، انہوں نے میٹرک پاس وفاداروں کو بڑے بڑے عہدے دیئے دلائی کیمپ بنوایا، کارخانے، سکول، کالج سب کچھ قومیا دیا گیا، نیچے کی مٹی اوپر اور اوپر کی مٹی نیچے کی گئی، ایئر مارشل، اصغر خان کو کہا گیا کہ ہمارے ساتھ مل جائو، اس ٹیکے لگوانے والی قوم کو بیس سال تک بے وقوف بنائیں گے، لیکن قوم کو اصغر خان جیسے دیانت دار سیاست دان کی ضرورت ہی نہ تھی۔
اگلی سرنج جو ٹیکے کیلئے استعمال ہوئی، ضیاء الحق کی اسلامی سرنج تھی! اس سے اوجڑی کیمپ کا ٹیکہ لگا جس سے ’’خاندانی صنعت کار‘‘ وجود میں آئے۔ ایران نے ایک افغان مہاجر بھی کیمپ کی تاروں سے باہر نہ نکلنے دیا لیکن یہاں افغان مہاجر ملک کے طو ل و عرض میں پھیل گئے۔ خیبر پی کے کی معیشت پر کاری ضرب لگی۔ مقامی لوگ مزدوری سے محروم ہو گئے، ہزاروں لاکھوں شناختی کارڈ جعلی بنائے گئے، کلاشنکوف اور ہیروئن نے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی ۔ادارے تباہ و برباد ہو گئے۔ ضیاء الحق کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون تھا۔ کبھی اس نے قوم کو یہ خوش خبری دی کہ آئین کیا ہے؟ کاغذ کاایک پرزہ، جسے میں جب چاہوں، پھاڑ سکتا ہوں، کبھی اس نے یہ کہہ کر اپنے ہم وطنوں کو تسلی دی کہ سیاچین پر تو گھاس کا تنکہ تک نہیں اگتا‘ پلاٹ یوں بانٹے گئے جیسے ریوڑیاں، ہر ستائیسواں رمضان شہنشاہ معظم حرم کعبہ میں گزارتے ، جہاز بھر کر لے جایا جاتا، سارا خرچ غریب عوام اپنے ٹیکسوںسے برداشت کرتے، اس اسلامی دور میں بھارتی گویے اور اداکار صدارتی محل میں قیام کیا کرتے، لسانی اور فرقہ وارانہ تنظیمیں اسی ٹیکے کے اثرات ہیں۔ یہی وہ زمانہ تھا جب مشائخ کانفرنس کا رواج پڑا اور اہل مذہب کو دستر خوان پر بٹھایا گیا جہاں سے اب وہ اٹھ ہی نہیں رہے!
اگلی نئی سرنج جس پر قوم نے اصرار کیا، پرویز مشرف تھی، سچی بات یہ ہے کہ قوم کو تو اس سرنج کا معلوم ہی نہ تھا۔ یہ سرنج میاں محمد نواز شریف کی دریافت تھی اور اس سرنج سے قوم کو ٹیکہ بھی میاں صاحب ہی نے لگایا‘ شراب و کباب اور لہو و لعب میں مست جرنیل کو میاں صاحب نے منگلا سے اٹھایا اور سینسیر کو محروم کرکے اسے چیف آف آرمی سٹاف بنا دیا۔
اس ٹیکے نے وہ کچھ کیا جو وہم و گمان میں نہیں تھا۔ پرویز مشرف کی حیثیت عملاً ایک امریکی گورنر کی تھی۔ پاکستانی شہری باقاعدہ فروخت کئے گئے، ایسے ایسے خفیہ معاہدے ہوئے جن کا آج تک قوم کو پتہ نہیں چلا، ہوائے اڈے، شاہراہیں، سب کچھ امریکہ کی نذر کر دیا گیا، پاسپورٹ اور ویزے تک معاف کر دیئے گئے، خود مختاری، عزت ، ناموس سب کچھ ڈالروں کی نذر ہو گیا۔ یہ وہی ڈالر ہیں جن کی بدولت آج پرویز مشرف دنیا کے بہترین ملکوں میں شاہانہ ٹھاٹھ کے ساتھ رہ رہے ہیں۔
سو، وزیر اعظم کی تصویر کے ساتھ یہ لکھنا مکمل غیر ضروری تھا کہ ٹیکہ لگواتے وقت ہمیشہ نئی سرنج پر اصرار کریں۔ قوم نئی سرنج کیلئے تیار رہے۔ اس نے قمیض کی آستین اوپر کرکے بازو کا وہ حصہ سامنے کیا ہوا ہے جہاں نئی سرنج سے پرانا ٹیکہ لگنا ہے، پیر پگاڑا کے کلینک میں بھی کچھ سرنجیں تیار ہو رہی ہیں …ع
دیکھیئے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض!