اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
آج میں جس شخصیت کے خد وخال اور تحرکِ زندگی کو آپ کے سامنے پیش کر وں گا اس شخصیت کا قد وکاٹھ اتنا بڑاہے کہ مجھے خیالات وتصورات اور جذبات و احساسات کے اظہارکے لیے مشکل کا سامنا ہے۔جب میں یہ مضمون لکھنے بیٹھا تو قرطاسِ ابیض بھی سامنے تھا اور شخصیت کا تعارف و حوالہ بھی سامنے تھا باوجود اس کے میرا قلم انتقال ِ الفاظ میں پس و پیش کا مظاہرہ کر رہا تھاکیونکہ مجھے جس کے بارے میں لکھنا تھا وہ ایک ایسی شخصیت ہے جس کا ذکر آتے ہی تحریک و تاریخ ِ پاکستان کے ابتدائی نقوش ہمارے سامنے ابھرنے لگتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ میری اس سوچ سے سبھی کو اتفاق ہوگا۔ دورِ جدید کا ہر صحافی اور قلم کار اس شخصیت کے جاندار کردار سے واقف ہے۔ایک ایسی شخصیت جس کی جسمانی زندگی اگرچہ طویل نہ تھی باوجود اس کے فکری تحرکات ونظریات چار عشرے گزرنے کے بعدبھی اسی طرح زندہ وجاوید ہیں جیساکہ اس کی زندگی میں تھے، ایک ایسی شخصیت جس کی زندگی کا نصب العین برے کو برا کہنا اور سچ اور حق کا بے باکی کے ساتھ اعلان کرنا اور اپنے پرائے کی تمیز کیے بغیر عدل و صداقت کی با ت کرناہو،ایک ایسی شخصیت جس کا تصور آتے ہی قیامِ پاکستان کے مناظر وا ہونا شروع ہو جائیں، وہ حمید نظامی مرحوم و مغفور ہی کی ہو سکتی ہے۔ حمید نظامی مرحوم کا نام آتے میرا اشہب ِ فکر مجھے ماضی کے گلی کوچوں میں لے بھاگا ہے اور میں چشمِ تصور سے دیکھ رہا ہوں کہ ایک نوجوان افکارِ قائد اعظم کے پرچار کے لیے، فکر ِ اقبال کی اشاعت کے لیے اور محمد رسول اللہﷺ کے دین کی ناموس کے لیے شبانہ روز اپنے ہم عمروں میں ممتاز ہندو بنیے کی فکر وسوچ اور منصوبوں کو خاک کرنے کے لیے برسرِ پے کار ہے۔میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ نوجوان کبھی لاہور میں تو کبھی شملے میں مسلمان نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم پر منظبط کرنے کے لیے میدانِ عمل میں مصروفِ کار ہے۔اوراقِ تاریخ ہمیں بتاتے ہیں کہ پھر ایک دن ایسا آیا کہ برِ صغیر کے مسلمانوں کے عظیم رہبر اور بانی ئ پاکستان حضرت قائد اعظم ؒ نے خود اس نوجوان کو ملاقات کے لیے بلایا۔
تحریکِ پاکستان میں نمایاں کردار ادا کرنے والی یہ شخصیت جسے لوگ حمید نظامی کے نام سے جانتے ہیں صوبہ پنجاب کے ایک ضلع شییخوپورہ کے معروف قصبے سانگلہ ہل میں 3 جنوری 1915یا 1918 کو پیدا ہوئے۔ 1920 کو جماعت اول میں داخل ہوئے۔ 1934 میں مقامی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد لاہور چلے آئے اور اسلامیہ کالج سے 1938 میں بی۔ اے کیا یہاں دورانِ تدریس کالج کے علمی وادبی مجلے کریسینٹ کے نائب مدیر رہے اور مزاحیہ اور سنجیدہ موضوعات پر مضامین لکھتے رہے بعد میں اسی مجلے کے مدیر بھی بنے۔ 1940میں جامعہ پنجاب سے انگریزی میں ایم۔ اے کی ڈگری لی۔
ان کی سیاسی زندگی کا آغاز زمانہ طالب علمی ہی سے ہوا تھا۔ چنانچہ جب قائد اعظم کی ہدایت پر مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن معرض ِ وجود میں آئی تو اس میں جناب حمید نظامی کا کردار کلیدی تھا۔ اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت کچھ عرصہ فیڈریشن کے صدر بھی رہے علاوہ ازیں وہ اسلامیہ کالج لاہور کی طلبہ انجمن کے منتخب صدر بھی رہے۔ انہوں نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز سیاسی ماہنامے ساربان سے کیا لیکن جلد ہی اس سے کنارہ کش ہو گئے اور ڈاکٹر سیتا پال کے اخبار نیشنل کانگرس سے وابستگی اختیار کر لی، مگر سیاسی اختلافات کی بنا پر یہاں سے بھی استعفیٰ دے دیا۔ ان کی طبیعیت میں یہ بات تو رچ بس گئی تھی کہ صحافت ہی کو پیشے کے طور پر اپنانا ہے مگر حالات ان کے لیے ساز گار نہ تھے بلکہ یہ دور مسلمانانِ ہند کے لیے نہایت کٹھن تھا۔ ایک طرف تو مسلمان انگریز سے برسرِ پیکار تھے تو دوسری طرف ہند و بنیے کی سازشوں کا بھی مقابلہ کر رہے تھے۔مسلمان علما بھی افتراق و انتشار کا شکارتھے،کچھ کانگرس کی حمایت کررہے تھے تو کچھ مجلس احرار کے پلیٹ فارم سے تحریکِ پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔صحافت بھی اسی ابتری سے دوچار تھی۔ مولانا ظفر علی خان کا زمیندار، مولانا غلام رسول مہر اور مولانا عبدالمجید سالک کا انقلاب اپنی علمی اور ادبی کاوشوں کو جاری رکھے ہوئے تھے لیکن کو ئی اخبار ایسا نہ تھا جو بالخصوص تحریکِ پاکستان کی حمایت اور تبلیغ و ترویج کے لیے کام کرر ہا ہو، اورجو ہندو اخبارات کی مو شگافیوں اورالزامات کا دندان شکن جواب دے سکتا ہو۔اس دور میں ہندو اخبارات کا کام صرف اورصرف حضرت قائد اعظم کے کردار پر کیچڑ اچھالنا اور مسلم لیگ کی مخالفت کرنا تھا۔یہ وہ حالات تھے جنہیں دیکھ کر حمید نظامی کا دل کڑھتا تھا، ان کی روح تڑپ تڑپ جاتی تھی اور انکے بازوؤں کی مچھلیاں کچھ کرنے کو بے تاب ہو جاتی تھیں اور پھرتاریخ ِ عالم نے دیکھا کہ اس حریت پسند اور حمیت و غیرت کے پتلے کی یہ دیرینہ خواہش جلد ہی بارآور ہوگئی اور 29 مارچ 1940کو ”نوائے وقت“ پندرہ روزہ کے اجرا کے ساتھ ہی وہ میدانِ صحافت میں بنیے کے مقابل آ کھڑے ہو ئے جو جلد ہی منازلِ ترقی طے کرکے 15 نو مبر 1942 کو ہفت روزہ بن گیا اور پھر دوسال کے قلیل عرصے میں حمید نظامی کی شبانہ روز محنت کے سبب 22 جولائی 1944میں نوائے وقت روز نامہ بن گیا۔ آغا شورش کاشمیری اس دور کے بارے رقم طراز ہیں:
”حمید نظامی نے اس وقت صحافت کی دنیا میں قدم رکھا جب ملت کی امیدوں اور آرزوؤں کے راستے میں ابنائے وقت اور فرزندانِ مصلحت کے اغراض کے خاربکھرے پڑے تھے۔ان کی زندگی کا مقصد ان کا نٹوں سے و طن کے چمن کو صاف کرنا اور ایسے گل کھلانا تھا جن میں حریت اور جمہورہت کی خوشبو آتی ہے اور وہ اپنے اس مقصد ِ اولیٰ میں کامیاب و کامران رہے۔“
( ہفت روزہ قندیل مطبوعہ 27 فروری 1966 )
اور ڈاکٹر عبدالسلام خورشید لکھتے ہیں:
” روز نامہ کے اجرا کے وقت اخبار کی ملکیت دو افراد کے ہاتھ آئی۔ اول حمید نظامی، دوم مسٹر حامد محمود۔ا ول الذکر نے ادارت کی ذمہ داریاں سنبھالیں، موخر الذ کر نے کاروباری فرائض اپنے ہاتھ میں لیے اور دونوں کی مشترکہ محنت اور رفاقت اور دوستوں کے تعاون سے نوائے وقت عروج سے ہمکنار ہوا“َ(صحافت پاکستان و ہند، 194)
اس میں کو ئی شک نہیں کہ حمیدنظامی ایک عہد ساز شخصیت تھے۔ انہوں نے صحافت کو ایک نیا اندازاور اسلوب عطا کیا۔وہ بلند پایہ منتظم اور ادیب و شاعر بھی تھے۔میدانِ سیاست کو صحافت کی وجہ سے خیر با د کہا حالانکہ ایک موقع پر خود قائد اعظم ؒ نے انہیں مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی میں لینے کی خواہش کا اظہار کیا تھا لیکن انہوں نے نہایت ادب سے معذرت کر لی تھی۔ حمید نظامی ایک شعلہ بیان مقرر بھی تھے۔ 1942 کا ذکر ہےکہ مشرقی پنجاب کے شہر جالندھر میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا سالانہ جلسہ منعقد ہواجس کی صدارت قائد اعظم ؒ نے فرمائی۔اس جلسہ میں حمید نظامی نے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن لاہور کے صدر کی حیثیت سے شرکت کی۔ اس موقع پر انہوں نے قائداعظم پر اعتماد کی قرارداد پیش کی اور زبردست تقریر کی۔ اس واقعے پر روشنی ڈالتے ہوئے سید سلامت جالندھری لکھتے ہیں:
”آپ کی پر جوش تقریر علم و فضل، دلائل و براہین اور جذباتِ ملی کا ایک حسین درس تھا۔چنانچہ آپ کی تقریر نے حاضرینِ جلسہ کے دل لوٹ لیے اور ہر شخص نے آپ کی دلآویز خطابت سے اثر قبول کیابلکہ خود قائد اعظم ؒ بھی اس تقریر سے بے حد متاثر ہوئے اور صاحب موصوف نے جلسہ عام میں میری حاضری میں جناب حمید نظامی صاحب کو بار بار داد دی اور فرمایا: میری قوم کو حمید نظامی جیسے ہوش مند نوجوان میسر ہوں تواس قوم کا مستقبل روشن ہے۔“
حمید نظامی کو کم سے کم اور آسان سے آسان الفاظ میں اپنی بات کہنے کا ملکہ حاصل تھا۔ تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان کے بعد ان کے اخبار کی بے حد مقبولیت کی وجہ ان کی وسیع النظری تھی۔پھر ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ صحافت کا مقصد ادبی ذوق کی تسکین نہیں ہے، یہ تو قارئین کو حالات و واقعات سے با خبر رکھنے کا ذریعہ ہے۔قارئین میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کے علاوہ کم پڑھے لکھے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں اس لیے صحافتی زبان ایسی ہونی چاہیے جسے ہر خاص وعام سمجھ سکے۔ یہ خوبی ان کے اداریوں میں بدرجہ اتم موجود ہے۔اور اب میں ان کی اسی صلاحیت کی طرف آتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا کررکھی تھی کہ وہ جو بھی اداریہ لکھتے تو قارئین پڑھ کر انگشت بدنداں رہ جاتے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد حکومت کی غلط پالیسیوں پر تنقید کی پاداش میں اپریل 1951 میں دولتانہ وزارت کے عہد میں نوائے وقت کا ڈکلر یشن منسوخ کردیا گیالیکن ان کے پایہ استقلال میں لغزش نہ آنے پائی اور اپنے مشن کو ”جہاد“ اور بعد ازاں ”نوائے پاکستان“ کے پلیٹ فارم سے جاری رکھا یہاں تک کہ حکومت کو مجبوراً ایک سال بعد ڈکلریشن بحال کرنا پڑا۔حمید نظامی ابتدا میں لیل ونہار کے عنوان سے ایک کالم لکھا کرتے تھے اس کالم میں اتنی جان ہوتی کہ اسے انگریزی اخباروں والے ترجمہ کرکے شائع کرتے تھے۔ ان کی کالم نگاری کو موضوع بناتے ہوئے ڈاکٹر باقر رضوی لکھتے ہیں:
”مرحوم حمید نظامی کے قلم کی گیرائی کا یہ عالم تھاکہ کم از کم دو مرتبہ کلکتے کے مشہور اخبار سٹیٹسمین نے اس کالم کا انگریزی میں ترجمہ کرکے شائع کیا۔“ (مضمون مطبوعہ نوائے وقت 22جولائی1969ء)
اب میں آپ کے سامنے ادریہ نویس حمید نظامی کو پیش کرتا ہوں جس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اور لحظہ پیارے وطن کی آبیاری اور اس کی ترقی کے خواب دیکھنے میں صرف ہوا۔ اس نے جب بھی دیکھا کہ حکومت کی پالیسیاں وطنِ عزیز کے لیے زہر قاتل ہیں تو وہ اس کے خلاف عوام کی آواز بن کر اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے اداریوں میں ایسی ایسی گل کاریاں کی کہ مخالفین کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی اور انہیں راستہ نظر نہ آتاتھا کہ اس مردِ درویش کے اٹھا ئے ہوئے سوالات کے جوابات کہاں سے لائیں۔ وہ اداریہ لکھتے وقت اس بات کو ہمیشہ پیش ِ نظر رکھتے تھے کہ وہ کیا لکھنے والے ہیں اور کس کے بارے میں لکھ رہے ہیں لیکن وہ جو لکھتے سچ اور حق ہوتاتھا جسے وہ ببانگ دہل کہنے کی قوت رکھتے تھے۔ان کی اس خوبی کے بارے ان کی زوجہ محترمہ بیگم محمودہ نظامی لکھتی ہیں:
”حمید نظامی مرحوم ایڈیٹر، اداریہ نویس اور صحافی کے فرائض اور اوصاف کے بارے میں واضح نقطہئ نظر رکھتے تھے۔ ان کے نزدیک اچھے صحافی کے پاس، ’علم ہونا چاہیے،ایمان داری ہونی چاہیے۔ مطلب یہ کہ جس چیز پر لکھنا ہو اس کے متعلق علم اور معلومات ہوں اور پھر ایمانداری سے وہ ان چیزوں پر لکھے۔“ (نشانِ منزل ۸۲۱)
حکومت پر تنقید کے ضمن میں ان کا نظریہ تھا کہ:
”حکومت پر تنقیدضرور ہونی چاہیے لیکن وہ دیانت پر مبنی ہونی چاہیے اور یہ چیز ہمیشہ مدِ نظر ہونی چاہیے کہ تنقید سے قوم میں بد دلی اور منفی رجحان پیدا نہ ہو۔ لوگ تنقید پڑھ کر مایوس نہ ہوجائیں کہ اس ملک کا تو کچھ بن ہی نہیں سکتا۔یہ تاثر مرتب نہ ہو نا چاہیے۔ دوسرا یہ کہ تنقید برائے تنقید نہ ہونی چاہیے۔“
اب میں ان کے ایک اداریے سے اقتباس پیش کرتا ہوں جس سے ان نظریہئ صحافت کی بھی وضاحت ہو جائے گی اور بطور اداریہ نویس اور صحافی کے ان کی ایک واضح تصویر بھی ہمارے سامنے آجائے گی۔یہ اقتباس ان کے اس اداریے سے ہے جو انہوں نے 9 جون 1950 کو لکھا تھا۔لکھتے ہیں:
”میں نے اپنی زندگی کے بہترین سال تحریکِ پاکستان کی خدمت میں بسر کیے ہیں اور جہاں تک اس سلسلے میں ’نوائے وقت‘کی خدمات کا تعلق ہے، بعض ایسے بزرگوں کی خدمات کو جو وزیر ان باتدبیر میں شامل ہیں، ہزار سے بھی ضرب دی جائے تو پلڑا نوائے وقت ہی کا بھاری رہے گا۔ میں پاکستان سے وفا داری کا سبق لینے کے لیے کسی وزیر کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے سے انکار کرتا ہوں۔ نہ میں کسی وزیر کو آسمانی مخلوق ماننے کے لیے تیار ہوں۔میرا عقیدہ ہے کہ اگر اخبار نویس ایماندار ہے تو وہ قوم کی نظروں میں کسی وزیر سے فرو تر نہیں“
مزید لکھتے ہیں:
”اگر آپ کسی مسئلے کے بارے میں ہمیں یقین دلا دیں کہ ہم غلطی پر ہیں تو اصلاح ِ احوال میں کوئی عذر نہ ہو گامگر کسی لالچ، ترغیب یا تحریض کے ذریعے آپ مجھے اس پر مجبور نہیں کرسکتے کہ میں اپنی رائے بدلوں۔ میں قلم کی عصمت کو ماں، بہن کی عصمت سے کم مقدس نہیں سمجھتا۔“
قیامِ پاکستان کے اعلان کے ساتھ ہی متحدہ ہندوستان کے حالات دگرگوں ہو گئے، فسادات کا بازار گرم ہو گیا اور گلی کو چوں میں مسلمانوں کا خونِ ناحق بہایا جانے لگا۔ لاہور اور امرتسر میں فسادیوں نے امن پسند شہریوں کی زندگی اجیرن کر دی۔ سکھوں اور متعصب ہندوؤں نے ظلم وبربریت کی ایسی وحشت ناک داستانیں رقم کیں کہ جن سے تاریخ ِ انسانی آج بھی شرمندہ ہے۔حمید نظامی ایک سچے محب وطن اور امن پسند شہری تھے، لہذا جب انہوں نے یہ سنا کہ امرتسر میں ظلم و تشدد کی انتہا کر دی گئی ہے تو ان کا دل خون کے آنسو رونے لگا، انہوں نے اپنے ان جذبات و احساسات کا اظہار اپنے ایک اداریے میں کیا۔ اگرچہ وہ مختصر نویسی کے قائل تھے، تاہم حالات کے مطابق جہاں بات کی تشریح مطلوب ہو تی، وہ اپنی اختصارپسندی کو طوالت میں بھی بدل لیتے تھے۔ اس کی مثال ان کا وہ اداریہ ہے جس کا ذکر میں سطور ِ بالا میں کر چکا ہوں اور جو20 اگست 1947 ء کو شائع ہونے والے نوائے وقت میں لکھا گیا۔اسی طرح انہوں نے قائداعظمؒ کی رحلت پر 16 ستمبر 1948 ء کو جو اداریہ لکھا وہ بھی ناقابلِ فراموش ہے۔ ملاحظہ کیجیے اقتباس:
” قائد اعظم محمد علی جناح، محمد(ﷺ) کے ان غلاموں میں سے ہیں،جنہوں نے اپنے خلوص اور عمل سے عاشقانِ نبی کی صف میں ایک ممتاز جگہ حاصل کرلی ہے۔ اس صدی میں ان سے بڑھ کر کسی نے امتِ محمدی کی خدمت نہیں کی۔۔۔۔قائد اعظم اور پاکستان لازم وملزوم تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ قائد اعظم نے اپنے وجود کو پاکستان کے وجود میں مدغم کر دیا تھا۔“
اس اداریے میں حمید نظامی نے قائد اعظم کا جو مرقع پیش کیا ہے وہ نہ صرف حقیقتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے بلکہ ایک عظیم لیڈر کی عظمت کا سچا اعتراف بھی۔آج قائد اعظم ہیں نہ حمید نظامی ہیں لیکن اپنی اپنی خدمات کے صلہ میں تاریخ میں جو مقام و مرتبہ انہیں حاصل ہے، وہ کسی دیدہ ور کو ہی حاصل ہو سکتا ہے۔
حمید نظامی نے ہر دور میں چاہے وہ جمہوری ہو یا فوجی حق وصداقت اور جرأت و بے باکی کا دامن ہاتھ نہ چھوڑا۔1958 ء سے 1962ء یعنی موت تک ایوبی آمریت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے رہے۔ ان کے اداریے مستند و معتبر، اوتدال و استدلال، جرأت و بیباکی، اختصار و جامعیت، سلاست وتسلسل اور متنوع مضوعات پر مشتمل ہوتے تھے۔ ڈاکٹر محمد باقر رضوی نیاپنے مضمون ’نوائے وقت ایک عہد ساز اخبار‘ جو 22جولائی 1969ء کو شائع ہوا،میں لکھا ہے:
”اگر صرف نوائے وقت کے اداریوں کو جمع کرکے ان کا جائزہ لیا جائے تو تحصیل ِ پاکستان اور پاکستان کو قائم رکھنے کی مساعی کی ایک مستند تاریخ مرتب ہو سکتی ہے اور ان افراد اور ان تحریکوں کی نشان دہی بھی ہو سکتی ہے جنہوں نے پاکستان کو برباد کرنے میں کسر اٹھا نہرکھی۔“
حمید نظامی ایک کہنہ مشق اداریہ نویس تھے جنہیں قلم پر مکمل کنٹرول تھا۔ ان کے اس وصف پر اور نوائے وقت پر تبصرہ کرتے ہوئے صدقِ جدید میں 6 جون 1958 ء کو مولانا عبدالماجددریاآبادی نے لکھا:
”نوائے وقت اردو روزناموں میں بڑی حد تک ایک معیاری پرچہ ہے۔ زبان صحیح، سلیس، شگفتہ،عوامیت، بازاریت اور ابتذال سے ہمیشہ بلند۔۔۔اپنے اخباری مقالوں کی طرح وہ گفتگو میں بھی ماشااللہ وزن اور توازن دونوں پر قادر ہیں۔“
اردو صحافت کے اس درخشاں ستارے نے ۵۲ فروری کی صبح اس جہانِ فانی کو خیر باد کہا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
خدا تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے