آج – ٢٨؍ستمبر ١٩٩٨
پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز شاعر، ادیب، نقاد اور مفسرِ قرآن” حمید نسیم صاحب “ کا یومِ وفات…
حمید نسیم ١٦؍اکتوبر ١٩٢٠کو شاہ پور، ڈلہوزی، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد انہوں نے ریڈیو پاکستان سے وابستگی اختیار کی اور ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ریڈیو پاکستان کے عہدے تک پہنچے۔ بعد ازاں انہوں نے پی آئی اے آرٹس اکیڈمی کی سربراہی سنبھال لی۔ وہ ڈرامے اور موسیقی کا بہت اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ تاہم ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے علومِ اسلامی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا۔ حمید نسیم کے شعری مجموعوں میں درد تحیر، جست جنوں اور گردِ ملال کے نام شامل ہیں اس کے علاوہ انہوں نے علامہ اقبال ہمارے عظیم شاعر، کچھ اہم شاعر، کچھ اور اہم شاعر اور پانچ جدید شاعر کے نام سے بہت اہم تنقیدی کتب تحریر کیں۔ ان کی خود نوشت سوانح عمری ناممکن کی جستجو کے نام سے شائع ہوچکی ہے۔ وہ قرآن پاک کی تفسیر تعارف الفرقان کے نام سے تحریر کر رہے تھے جو ان کی ناگہانی وفات کی وجہ سے نامکمل ہو گئی۔
ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں :
” تعارف الفرقان “(نا مکمل)، ” نا ممکن کی جستجو“ (خودنوشت)،” جست ِجنوں“ (شاعری)، ” درد ِتحیر“ (شاعری)،” گرد ِملال“ (شاعری)،” کچھ اور اہم شاعر“ (تنقید)،” کچھ اہم شاعر“(تنقید)،” پانچ جدید شاعر“(تنقید)،” علامہ اقبال ہمارے عظیم شاعر“ (تنقید)۔
حمید نسیم ٢٨؍ستمبر ١٩٩٨ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پا گئے اور گبول ویلفیئر قبرستان گلشن اقبال کراچی میں آسودۂ خاک ہیں۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
ممتاز شاعر حمید نسیم کے یومِ وفات پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…
بے کراں دریا ہوں غم کا اور طغیانی میں ہوں
سب حدیں ہیں پھر بھی قائم کب سے حیرانی میں ہوں
شب کی تنہائی میں مجھ کو ایسا لگتا ہے کبھی
میں ہوں روح زندگی گو پیکرِ فانی میں ہوں
جگمگاتی محفلِ افلاک میرا عکسِ ذات
لو میں ہوں انجم کی میں سورج کی تابانی میں ہوں
صبحگاہاں دشت و گلشن میں نسیم نرم موج
بیچ دریا کے بھنور ہوں اور جولانی میں ہوں
شمعِ بزمِ دلبراں ہے میری دل سوزی کی ضو
میں دلِ عاشق کے خوابوں کی گل افشانی میں ہوں
لوگ کیوں اس شہر کے اتنے پریشاں حال ہیں
میں کہ خوش دل تھا سدا کا اس پریشانی میں ہوں
میں کہ ہوں اک خوش فہم سادہ لوحِ طفل پیر سال
اور پھر ضدی بھی ہوں خوش اپنی نادانی میں ہوں
کیا خبر میرا سفر ہے اور کتنی دور کا
کاغذی اک ناؤ ہوں اور تیز رو پانی میں ہوں
حسنِ کل کا آرزو مند اس تنک جانی میں ہوں
میرے قد سے جو بہت اونچا ہے اس پانی میں ہوں
─━━━═•✵⊰••••••••••••⊱✵•─━━━═
نو بہ نو یہ جلوہ زائی یہ جمال رنگ رنگ
مہلت دل ایک لحظۂ دامن نظارۂ تنگ
ہے کہاں وہ آگ جو روشن رکھے دل کا الاؤ
برقِ جولاں محضِ چشمک شعلۂ گل محضِ رنگ
اے جنوں تیر ملامت کا کوئی عنواں نکال
کیسا چپکا ہے بدن پر فرقۂ ناموس و ننگ
اب یہ اس کا عزم طے کر لے جو راہ آرزو
ہر قدم دامِ تحیر ہر قدم دیوارِ سنگ
آج دیکھا سب نے قاتل کی تہی دستی کا حال
سیل خونِ عاشقاں میں بہہ گئے شمشیر و سنگ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
سوالِ دل کا شامِ غم کو اور اداس کر گیا
ترے وجود میں جو ایک میں تھا وہ کدھر گیا
طلسمِ شوق فکرِ زندہ اور کرب آگہی
تمام عمر کا سفر نگاہ سے گزر گیا
چلے تو حوصلہ جواں تھا موج گل تھی آرزو
جدھر بھی آنکھ اٹھ گئی سماں نکھر نکھر گیا
کبھی اندھیری شب میں اک مہیب دشت سامنے
کبھی مہ تمام ساتھ ساتھ تا سحر گیا
ہر ایک دور منفرد تھا اب بھی دل پہ نقش ہے
گیا تو یوں لگا کہ جی کا ایک حصہ مر گیا
نہ یاد کی چبھن کوئی نہ کوئی لو ملال کی
میں جانے کتنی دور یونہی خود سے بے خبر گیا
نگاہِ دوست دل نواز بھی گرہ کشا بھی تھی
کھلا جو دل پہ زندگی کا بھید جی ٹھہر گیا
جہاں وجود میں تھا ''میں'' اب ایک اور نام ہے
کہ میرا بگڑا ہوا کام اس کے لطف سے سنور گیا
وہ سیل نورِ شب کی ابتدا سے تا سحر گیا
دل اس کے بل پہ اپنے بحر غم کے پار اتر گیا
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
حمید نسیم
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ