حمدونعت اور دینی شاعری کے تین مجموعے
رحمتوں کا سائباں
آقائے دو جہاں حضرت محمدمصطفی ﷺ کی بارگاہِ اقدس میں نذرانۂ عقیدت پیش کرنا، نعت کہنے کی توفیق پانا،بڑے نصیب کی بات ہے۔سعید رحمانی ایسے ہی خوش نصیب شاعر ہیں جو ایک عرصہ سے بارگاہِ رسالت(ﷺ) میں نعتوں کا نذرانہ پیش کرتے آرہے ہیں۔نعت کہتے ہوئے کہیں یہ احتیاط اظہار میں روک بن جاتی ہے کہ محبت کے بیان میں کوئی بے ادبی نہ ہوجائے تو کہیں محبت و عقیدت کے والہانہ پن میں سچ مچ بے ادبی سرزد ہو جاتی ہے۔یوں نعت کہنا تخلیقی لحاظ سے پُل صراط پر چلنے جیسا عمل ہوجاتا ہے۔سعید رحمانی کی جتنی نعتیں میں نے پڑھی ہیں ان میں وہ عمومی طور پر بڑی حد تک کامیاب رہے ہیں۔ان کے ہاں محبت، عقیدت اور احتیاط کا ایک متوازن امتزاج ملتا ہے۔
’’رحمتوں کا سائباں‘‘ میں عید کے حوالے سے،شہادتِ امام حسین ؓ کے حوالے سے نظمیں اور ایک منقبت بھی شامل ہے۔اس مجموعے کا انداز غزل جیسا ہے۔یوں سعید رحمانی پر غزل کے گہرے اثرات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے،تاہم غزل کے جملہ مضامین میں سے صرف محبت کے اظہار اور والہانہ پن سے ہی انہوں نے اپنی نعتوں کو سجایا ہے۔یوں وہ پیغمبرِ خداکے محب بن کر سامنے آتے ہیں۔غزل کے روایتی محبوب نے تو اردو شاعر کو خاصا خوار کیا ہے،لیکن سعید رحمانی کے محبوب تو محبوبِ خدا ہیں،سو غزل کا انداز ہونے کے باوجود ان کی نعتیں شکوہ شکایت سے نہیں،عشق اور اس کی سرشاری سے لبریز ہیں۔غزل کا گریہ ان کی نعت میں دعا کا سائبان بن جاتا ہے۔یوں ہیئت کے لحاظ سے غزل جیسی ہونے کے باوجود ان کی نعتیں بحیثیت صنف اپنی الگ پہچان رکھتی ہیں۔
میری دعا ہے کہ سعید رحمانی کا یہ نعتیہ مجموعہ ان کی دنیا و آخرت سنوارنے کے ساتھ ان کی ادبی عزت و توقیر میں اضافہ کا موجب بنے۔(آمین)
(نعتیہ مجموعہ کی جلد کی بیک پر درج تاثرات)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرواز(شاعری)
جناب عزیزالرحمن سلفی کا شعری مجموعہ ان کی زندگی بھر کی شعری کمائی ہے۔اس میں عزیزالرحمن سلفی صاحب کی زندگی کی ساری چہل پہل اور دکھ درد یکجا ہو کر دکھائی دیتے ہیں۔مسجد و مکتب سے اپنے گہرے تعلق کے باعث ان کی شاعری میں حمدو نعت کی ایک قابلِ ذکر تعداد ہونا ہی تھی۔تاہم ان کی شاعری کے اس حصہ میں حرمین شریفین سے لے کر ہند کی مساجد و مدارس تک کے حوالے سے بھی منظومات مل جاتی ہیں۔شاہ فیصل اور شاہ فہد کے حوالے سے ان کی نظموں کو دیکھ کر ان کے مسلک و فکری میلان کا آسانی سے اندازہ ہو جاتا ہے۔
عزیزالرحمن سلفی صاحب کی کتاب کے دوسرے حصہ میں اردو کے حوالے سے اور قومی و ملی نوعیت کی شاعری شامل ہے۔اپنے قریبی عزیزوں،دوستوں کی شادی کی تقریبات پر وہ فراخدلی سے اپنے خوشی سے لبریز نیک جذبات کا اظہار کرتے ہیں توبعض وفیات پر اپنے دکھ اور درد کا بھی برملا اظہار کر دیتے ہیں۔ کتاب کا تیسرا اورایک اہم حصہ ان کی ان قلبی کیفیات کا آئنہ دار ہے جو غزل کی روایت سے گہرا تعلق رکھتی ہیں۔ اس حصہ میں رباعیات اور نظموں کو بھی پیش کیا گیا ہے تاہم سلفی صاحب کا بنیادی مزاج غزل ہی کا ہے۔عزیزالرحمن سلفی صاحب غزل کی قدیم روایت کے امین ہیں۔اساتذہ کے بعد کے ادوار کی شاعری کی ہلکی ہلکی پرچھائیاں تو ان کے ہاں مل جاتی ہیں تاہم ان کا مزاج کلاسیکی روایت سے ہی زیادہ استفادہ کرتا ہے۔بظاہر وہ قدیم و جدید کے زمانی دوراہے پر کھڑے ہیں لیکن ان کا واضح جھکاؤ قدیم کی طرف ہے۔یہ سب کچھ ان کے مزاج اور ان کی فطرت کا نتیجہ ہے۔
مجموعی طور پر عزیزالرحمن سلفی صاحب کی شاعری ان کی ذاتی زندگی کا عکس ہے۔وہ زندگی جس میں خدا اور رسولؐ سے لے کر عام زندگی میں ملنے جلنے والے نمایاں کرداراور حالات و واقعات اور جذبات و کیفیات اپنی اپنی اہمیت کے مطابق موجود ہیں۔ایک بزرگ و محترم شاعرکی زندگی بھر کی اس شعری کمائی کو یکجا پیش کیے جانے پر اور کتابی صورت میں شائع کیے جانے پر میں اپنی دلی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ،اس مجموعہ کا خیر مقدم کرتا ہوں۔
(شعری مجموعہ’’پرواز ‘‘میں شامل تاثرات)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعادت(حمدو نعت)
خواجہ محمد عارف میر پور کے رہنے والے ہیں اور اب انگلینڈ کے شہر برمنگھم میں آباد ہیں۔ان کا شعری مجموعہ ’سعادت‘ان کی حمدیہ،دعائیہ اور نعتیہ شاعری پر مبنی ہے۔مناقبِ صحابہؓ ،متفرق ملی نظمیں اور چند قطعات بھی مجموعہ میں شامل ہیں۔چونکہ ان سب کا پس منظر بھی مذہبی ہے اس لیے مجموعہ کا مجموعی تاثر قائم رہتا ہے۔پروفیسر نثار احمد فاروقی نے بجا طور پر لکھا ہے کہ عقیدت میں ڈوبی ہوئی شاعری میں فنی کمالات نہیں دیکھے جاتے،جذبے اور خلوص کو دیکھا جاتا ہے۔تاہم خواجہ محمد عارف کا یہ مجموعہ فنی لحاظ سے بھی مناسب ہے۔اس شاعری میں آج کے سیاسی اور سماجی مسائل بھی پس منظر سے صاف دکھائی دیتے ہیں،بلکہ دعائیہ شاعری کا محرک ہی یہی حالات ہیں۔اس لحاظ سے خواجہ محمد عارف کی دعائیں ان کے دل کی آواز ہیں۔حمد و نعت میں ادب کے مقامات اور تقاضوں کو پوری طرح ملحوظ رکھا گیا ہے۔ حمد و نعت سے خصوصی دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ’سعادت‘ایک عمدہ تحفہ ہے۔
(مطبوعہ جدید ادب جرمنی۔شمارہ :۱۳)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔