(Last Updated On: )
یہود کی تاریخ قتل و غارت گری سے بھری پڑی ہے۔قرآن مجید نے یہود کی جن بہت سی خرابیوں کاذکر کیا ہے وہاں متعدد بار انبیاء علیھم السلام کے قتل کا بھی تذکرہ کیاہے۔ یہودیوں نے بلامبالغہ سینکڑوں انبیا علیھم السلام کوتہ تیغ کیا۔ حضرت عیسی علیہ السلام کے قتل کی سازش میں بھی یہودی براہ راست شریک تھے اور اس وقت کے یہودی علماء نے قتل مسیح علیہ السلام پراجماع کیا تھا۔خود محسن انسانیت ﷺجب مدینہ تشریف لائے تویہودیوں نے انکو بھی متعددبار قتل کرنے کی کوشش کی العیاذباللہ تعالی۔ایک بارکھانے میں زہرملاکر کھلاناچاہا،ایک بار گلی کی نکڑ پرموڑ مڑتے ہوئے اوپر سے بھاری پتھرپھینک کر ہلاک کرناچاہااور ایک بار جنگ سے واپسی پر گھیرے میں لے کر شہیدکرناچاہالیکن ہر بار وحی الہی کے ذریعے آپ ﷺکو آگاہ کردیاگیااور اس طرح اللہ تعالی نے ان یہودیوں سے آپ کو اپنی حفظ وامان میں رکھا۔یہودیوں کی کتب میں غیریہودیوں کی جان مال اور عزت و آبروکو مباح قرار دیا گیاہے،چنانچہ یہودیوں کے مذہب کے مطابق یہ جائز ہے کہ وہ جب چاہیں دوسری اقوام کے خون کی ہولی کھیلیں اور جب چاہیں دوسرے مذہب کے لوگوں کے مال و اسباب پر ناجائز قبضہ جما کر انہیں اپنے حق سے محروم کر دیں۔شاید اسی لیے یہود نے جہاں ساری دنیا کی دولت ہتھیاکرسمیٹ رکھی ہے اور دنیاکی تمام اقوام کو سودکی دلدل میں ناک تک دبا رکھاہے وہاں فلسطین کی زمین پر ناجائز قبضہ جماکر توچارنسلوں سے فلسطینیون کا قتل عام اور انکی نسل کشی کرتے چلے جارہے ہیں۔اللہ تعالی نے ان پر قیامت تک کے لیے ذلت و مسکنت مسلط کر رکھی ہے،انکی نسل ختم ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا تو شاید یہ اسرائیل کی عارضی ریاست بھی انہیں میسر نہ آتی،اور آج اگر امریکہ اس ناجائز ریاست کی پشت پناہی سے دستبردار ہوجائے تو یہ ریاست خوداپنے گناہوں میں ڈوب مرے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یہود دنیا کی بزدل ترین قوم ہیں،بہت کم ہوا ہے کہ یہ قوم خود سامنے آکر تو لڑی ہو،ان لوگوں نے ہمیشہ سازشوں کا سہارا لیا ہے،غداروں کے ذریعے دوسری اقوام میں نقب لگانے کی کوشش کی ہے اور پیسہ اور عورت کے ذریعے دشمن کو مغلوب کرنے کے جال بچھائے ہیں اور مرنے کے لیے دوسرے لوگوں کو آگے کر کے تو اپنے مقاصد حاصل کیے ہیں۔بہت دور کی بات نہیں ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں دونوں فریقوں کو بھاری شرح سود پر رقم دینے والی ایک ہی کمپنی تھی جو یہودیوں کی ملکیت تھی،گویاپیسہ دے کر دنیاکولڑانے کاتماشایہی یہود ہی کروارہے تھے اگر یہ انسانیت کے خیرخواہ ہوتے تو فنڈزروک کر بڑی آسانی سے دوسری جنگ عظیم کا الاؤبجھاسکتے تھے،لیکن اس صورت میں انہیں ”مندا“لاحق ہو جاتااور ”گاہکی“ختم ہوجاتی۔چندسال پہلے حزب اللہ ملیشیاسے بدترین شکست کھانے بعد اسرائیل آج تک اپنے زخم چاٹ رہاہے۔چندسوافرادپر مشتمل حزب اللہ ملیشیانے دنیا کی بہت بڑی فوجی قوت اور ایٹمی طاقت کو اپنے پوے بل بوتے،امریکی آشیرباد،یورپی امداداور میڈیاوارکے باوجود ایک انچ آگے نہیں بڑھنے دیا۔چندسونوجوان جو قوت ایمانی سے مالامال تھے انہوں قرون اولی کی یاد تازہ کردی اور جدیدترین ٹینکوں اور گھن گرج والے تباہ کن ہوائی جہازوں اور شور مچاتے ہیلی کاپٹروں کی مددسے آگے بڑھنے والی اسرائیلی سپاہ کے دانت کھٹے کر کے انہیں واپس اپنی کمین گاہوں میں جانے پر مجبور کر دیا۔یہودیوں کی بزدلی کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو گاکہ اپنی ذلت آمیز شکست کو چھپانے کے لیے اس وقت بھی اور آج بھی وہ شہری آبادیوں پر بمباری کر کے توعورتوں اور بچوں کو اپنے میزائلوں کا نشانہ بناتے ہیں۔
فلسطینیوں کے ایک گروہ نے اگرچہ مغرب کی غلامی قبول کرلی ہے اور انہیں کے رنگ میں رنگے گئے ہیں،امریکہ اور یورپ نے اپنے ان حواریوں کو نوازا بھی بہت ہے،عالمی میڈیا،اخبارات اور امریکہ اور یورپ کے حکمرانوں نے اس مغرب نواز گروہ کو فلسطینیوں کا نمائندہ گروہ قرار دینے کی بہت کوشش بھی کی ہے، لیکن اس گروہ کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں مسلمانوں کے دشنوں کو ہمیشہ سے اپنے چاہنے والے مسلمانوں کے اندر سے مل جاتے رہے ہیں،کم و بیش نصف صدی سے مقتدراس گروہ نے فلسطینیوں کے خون کے سودے ہی کیے ہیں اور اللہ تعالی اور اسکے رسول ﷺنے جن لوگوں سے جنگ کرنے کا حکم دیا تھایہ گروہ ان سے مزاکرات اور صلح کے راستے ہموار کرتا رہا ہے اور دامن پھیلا پھیلاکران سے امن کی بھیک مانگتارہا ہے جس کے نتیجے میں آج فلسطین کے حالات اس انجام تک پہنچے ہیں۔اس گروہ کی مسلسل ناکامیوں کے بعد گزشتہ انتخابات میں فلسطینیوں نے اپنے حقیقی نمائندے چنے اور ”حماس“بہت بھاری اکثریت سے پورے فلسطین میں کامیاب ہو کر ابھری۔عالمی طاقتوں نے ان کا راستہ روکنے کی بہت کوشش کی انکی مالی امداد بند کر دی،سفارتی تعلقات کی آہنی دیوار ان کے سامنے کھڑی کر دی اور دیگر انتظامی مشکلات کا انبوہ کثیر انکے مدمقابل لا کھڑا کیا لیکن اللہ تعالی کی مدد ہر معاملے میں انکے شامل حال رہی اور وہ کامیابی سے اپنے قدم آگے بڑھاتے رہے۔ان کی فہم و فراست سے یہودومسیحی اس حد تک گھبرائے کہ اپنے پروردہ گروہ کے ذریعے سے انکومعزول کر کے تو جمہوری حکومت کو غیر جمہوری طریقوں سے برطرف کر دیا۔اس کے باوجود بھی ”حماس“کے پائے استقامت میں جنبش نہ آئی اور اپنے مخصوص علاقے”غزہ“میں یہ لوگ ثابت قدم رہے۔غیرجمہوری راستوں سے بھی جب طاغوت کوناکامی ہوئی تو گزشتہ کئی سالوں سے غیرانسانی سلوک روا رکھا گیا اور اس طویل عرصے میں ”غزہ“کی مکمل ناکہ بندی کردی گئی،انکا پانی،بجلی،خوراک اوردوائیں تک بھی ان تک نہ پہنچنے دی گئیں۔ایران نے دوائیں پہچانے کی کوشش کی تو مصر نے راستہ دینے سے انکار کر دیا،یہ ننگ ملت سیکولر حکمرانوں کا مکروہ کردار ہے۔لیکن سلام ہے حماس کی اس پوری بستی کو کہ جس نے کئی سالوں کے طویل عرصے میں اپنے بچوں کی بھوک سے لبریز چیخیں سنی،اپنے مریضوں کی دوائیوں سے محروم آہیں برداشت کیں اور اپنے بزرگوں کومحض اللہ تعالی کے سہارے ہر دنیاوی آسائش سے محروم ہوکر انکے درد کو برداشت کیا لیکن،اپنے ایمان،اپنے مقصد،اپنی قیادت اور اپنے وطن کے ساتھ مخلص و ہمدردرہے۔
آج ایک بار پھر یہود اپنی تاریخی کمینگی اور عالمی بے غیرتی کا ثبوت دیتے ہوئے فلسطینی علاقے”غزہ“ پر چڑھ دوڑے ہیں،یہ علاقہ ”حماس“کا مرکز ہے جوخالصتاََ اسلامی ذہن رکھنے والوں کی تنظیم ہے۔آئے دن شہری آبادیوں پر بمباری کر کے تو سینکڑوں لوگوں کا خون کیاجاچکاہے،پورایورپ،امریکہ، انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں،زمین کے اندر سے اور آسمان کے اوپر سے خبریں لانے والا میڈیااور پوری دنیا کے امن کے ٹھیکیدار حکمران بالکل خاموش ہیں،محض کاغذی کاروائی کے لیے کسی نے کچھ بیانات دے دیے ہیں اور بس۔دہشت گردی کا شور مچانے والوں کوغزہ کی تباہیاں اور انکے شہیدہوتے ہوئے انسان نظر نہیں آتے اور ممبی کے ہوٹل پر حملے میں نان اسٹیٹ ایکٹرزکا شور کرنے والے اسرائیل کے اسٹیٹ ایکٹرزکی انسانیت سوز کاروائیوں پر خاموش کیوں ہیں؟؟۔حیرت تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ جیسا ادارہ بھی کئی نشستیں وبیٹھکیں کر چکنے کے باوجود بھی ابھی تک کوئی واضع پالیسی سامنے نہیں لا سکا۔کتنی حیرت کی بات ہے کہ کم و بیش ایک ہزار قراردادیں ہیں جو اسرائیل کے بارے میں منظور کی گئیں لیکن آج تک ایک پر بھی نہ اسرائیل نے عمل کیا اور نہ ہی کسی عالمی طاقت نے اس طرف توجہ کی۔قراردادمنظور ہو جاتی ہے اور آگ اور خون کا کھیل بھی جاری رہتا ہے تو دوسری طرف عراق کے لیے چوبیس گھنٹے کی مختصر مدت میں بتیس قراردادیں منظورکراکے تو فی الفور نافذ بھی کر دی گئیں،بوسنیا کے مسلمانوں کے لیے جتنی بھی قراردادیں منظورہوئیں ان میں سے صرف ایک پر عمل ہوا کہ بوسنیا کے مسلمانوں کو اسلحہ نہ پہنچنے دیا جائے اور اب بھی امریکہ جیساعالمی تھانیدارملک حماس کے زخموں پر پٹی رکھنے کی بجائے یوں کہ رہا کہ جنگ بندی اس وقت ہوگی جب حماس اپنے حملے بند کرے گی،بس”جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے“اور اسکا حل یہ بتایاجارہاہے کہ حماس کو غیرمسلح کر دیا جائے۔
غیروں کے شکوے کیوں کریں،خود مسلمان حکمرانوں کا کیا کردار ہے اور خاص طور پر عرب حکمرانوں کا؟سینکڑوں لوگ تہ تیغ ہوجاتے ہیں اور عرب لیگ یا اسلامی سربراہی کانفرنس کے ایوان نشستاََ گفتاََ برخواستاََکے مصداق اپنا کیادھرا سمیٹ کر تواٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔کروڑو ں سے زائدکی لاگت سے ہونے والی نشستوں میں صرف حیرانی کااظہارکیاجاتاہے،قرارداد مذمت منظورکی جاتی ہے اور”عالمی برادری“کہ جس کاکوئی وجود ہی نہیں اس سے دست بستہ درخواست کی جاتی ہے کہ ہمارے مسئلے حل کرائے جائیں۔مسلمانوں کے ان سیکولرحکمرانوں کی توقعات اس طبقے سے ہیں جس کی آشیربادسے ہی یہودی افواج مسلمانوں کا کشت و خون میں صباح و مساء مصروف عمل ہیں۔نہ معلوم یہ مسلمان حکمران خود بے وقوف ہیں یا امت مسلمہ کو بے وقوف سمجھتے ہیں۔شایدآج امت کے حکمران امت کے اصل نمائندہ نہیں یا انہیں یہ ڈر ہے کہ یہ سچے مسلمان اگراسرائیل،امریکہ اور بھارت سے فارغ ہوگئے تو انہوں نے مسلمان کے سیکولروغیرمنتخب حکمرانوں کا احتساب شروع کر دیناہے،بہرحال یہ تو ہونا ہی ہے کہ نوشتہ تقدیر میں یہی لکھادھراہے کہ مکافات عمل پوری ہو کر رہتی ہے لیکن ہم منتظر ہیں ایک بار پھر اسی نتیجہ کے جو آج سے پہلے حزب اللہ کے ساتھ اسرائیل بھکت چکا ہے اور انشاء اللہ تعالی اب کے بار حماس کے مجاہدین اس صہیونی فوج کے دانت کھٹے کریں گے اور وہ دن دور نہیں جب حقیقی مسلمان قیادت ہی امت کی حکمران ہوگی اور امت کا سورج مشرق سے طلوع ہوکر اپنے نصف النہار تک پہچے گااور آخری نبی ﷺ کی دعائیں رنگ لائیں گی۔