اگر ہماری زمین ایک گیند کی طرح گلوب ہے اور اس پر دن و رات کا بننا اس کے اپنے محور پر گھومنے سے ہے تو کیسے اس سے کروڑوں کلو میٹر دور سورج ایک سیدھ سے طلوع ہوکر ایک سیدھے خط پر چلتے ہوئے طلوع والی سیدھ کے الٹ سیدھ پر غروب نہیں ہوتا ؟
یہ ہے وہ بڑا سوال جو فلیٹ ارتھ کے ماننے والوں کی جانب سے اکثر زمین کے گیند نما ہونے اور اس کی محوری حرکت پر پوچھا جاتا ہے.
حالنکہ ان کا یہ سوال خالص ان کی فلکیاتی سائنس سے نا اہلی کا شاخسانہ ہے مگر اس کا جواب پھر بھی دیا جارہا ہے.
ویسے تو اس کا مختصر سائنسی جواب ان دو نکات پر مشتمل ہے کہ زمین گیند نما ہے اور اپنے محور پر سورج کی جانب جھکی ہوئی گھومتی ہے.
چوناچکہ فلیٹرز سرے سے ان دونوں نکات کو نہیں مانتے اور ان کی تھیوری اس کے برعکس ہے اس لیے وہ ان پر تحقیق اور غور و فکر نہیں کرتے ،آئیں ہم اس پورے عمل کو حقیقی طور پر ایک نہایت ہی آسان اور سستے تجربے سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں .
تجربہ:سورج کا راستہ ہمیں کیسے مداروی/قوس نما نظر آتا ہے اسے گلوب پر کیسے ثابت کیا جائے؟؟
سامان::
چھ انچ یا جو بھی میسر ہو قطر کی کوئی بھی ایک جیسے رنگ کی گیند مثلا مقامی ایلاسٹک "والی بال" *
نوٹ بک مارکر*
پرکار*
گیند پر اینٹی پوڈ پوزیشنز پر دو مخالف نکات لگا دیں ایک کو پول "A" کا نام دے دیں ، دوسرے کو پول "B" ،گیند پر پول "A" سے پول "B" کے درمیان میں احتیاط سے ایکوایٹر لائن لگا دیں
اب پرکار میں مارکر کو کس دیں پرکار کو کھولیں اس کی نوک کو گیند کے پول "A" پر رکھ کر پر ایکوایٹر لائن سے تھوڑا سا پول "A" کی جانب دائروی لائن لگائیں جو پول "A" کے گرد ہو جس کو "خط سرطان" کا نام دے دیں.
اس خط سرطان لائن کے کسی مقام پر "C" کے نام کا نشان لگائیں ،
اب پول "A" سے لے کر پول "B" تک اس نشان "C" کے اوپر آرپار لائن لگادیں اس لائن کو پول "A" کی طرف شمال اور پول "B" کی طرف جنوب سے ظاہر کردیں اب اسی طرح مشرق و مغرب کی سمتیں بھی نشان "C" کے لیے ظاہر کردیں .
نوٹ [اس سارے پچیدہ عمل سے بچنے کے لیے آپ زمین کے گلوب نقشہ کا استعمال بھی کرسکتے ہیں ..]
اب گیند کو اس کے دونوں پولز ( A,B) پر گھمانا ہے اس عمل کے لیے آپ خود اپنے آسان طریقے کے مطابق ایسا کریں گے، یاد رہے اس دوران گیند کے پول "A" کا محور اپنی طرف ترچھا جھکا کر رکھنا ہے گھمانے کے دوران گیند کا جھکاؤ ہلنا نہیں چاہیے اور گیند کو اس کے دونوں پولز پر آرام سے گھمانا ہے ،
اس کے لیے چاہے تو آپ کسی سٹینڈ کا استعمال کریں یا اپنے بازوں کا،،،
اس طرح گیند کو اپنے ترچھے محور پر اپنے سامنے کچھ فاصلہ پہ رکھ کر گھمائیں اس دوران آپ نے اپنے آپ کو سورج فرض کرنا ہے اور دیکھنے کی سمت کو گیند کے ایکوایٹر سے علاوہ دوسری "خط سرطان" لائن پر لگائے نشان "C" پر رکھ اس کے لیے اپنی سمت معلوم کرنی ہے ،گیند کو اس مقام پر لے جا کر جہاں سے آپ مشرق سے (گیند پر بنے) نشان کو دیکھ سکیں جہاں سے آپ خود بطور سورج گیند کے مشرق سے طلوع ہونے کا منظر دے رہے ہوں ،اب اگر آپ بغور مشاہدہ کریں گے تو اس یعنی طلوع کے مقام پر آپ ( مقام C سے مشاہدہ کرنے پر ) یعنی بطور سورج شمال مشرق کی سمت پر ہونگے ،اب گیند کو ویسے ہی ترچھی جھکی ہوئی حالت میں اپنی جانب گھمائیں آپ دیکھیں گے کہ آپ بطور سورج ساکن ہیں مگر بال پر نشان "C" کے لیے اوپر مداروی چڑھ رہیں ہیں ،ایسے آتے آتے آپ خط سرطان لائن کے نشان "C" کے لیے اس کے سامنے آجائیں گے ویسے ہی جیسے سپہر کے لیے سورج ہوتا ہے ،اب آپ اس ہی طرح گیند کو گھما کر غروب کی سمت کا بھی مشاہدہ کرسکتے ہیں .
اس پورے تجربہ میں آپ کے زہن میں کچھ قباحتی سوالات کی صورت بھی پیدا ہوگی کہ ہم بطور سورج (Imagine) کے کیسے نشان "C" کے لیے ایک مداروی راستہ بنائیں گے اب اصل میں تو ہم ساکن رہے اور بال کو گھمایا ؟ اس کا جواب سمجھنا زرا سا پچیدہ ہوسکتا ہے بہرحال جو لوگ تجربہ کے معنی و مفہوم سے واقف ہیں وہ جلدی سمجھ لیں گے کہ ایک تجربہ میں ہمیں کیا اور کیا فرض کرنا پڑتا ہے یا کیا اور کیا Imagine کرنا پڑتا ہے ، ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ہم ایک گیند کی بجائے ایک گول پلین پلیٹ کو اپنےسامنے گزاریں اور اس کے لیے ہم ایک سیدھے خط پر چلتے نظر آئیں اور ایسا اس پلین پلیٹ کے ہر مقام کے لیے ہوگا اور اگر ہم اس پلین پلیٹ کو اپنے سامنے رکھ کر ایک پہیے کی طرح اس کے مرکز کے گرد گھمائیں تو اب پلین پلیٹ کے ہر مقام کے لیے آپ دائروی گھوم رہے ہونگے بالکل اسی طرح سے جیسے آپ کو اس کا ہر مقام دائروی گھومتا نظر آرہا ہوگا.
اگر ہم ایک گیند پر رہتے ہوئے ایسا کریں گے تو یاد رہے گیند کے محوری گھومنے سے ہمارا سفر لئنیر (LINEAR) نہیں ہوگا بلکہ اینگولر (ANGULAR ) ہوگا اور ہمارا سفر دو سمتوں میں ہورہا ہوگا اسی طرح ہم ہر مخصوص فاصلہ کے بعد گیند کے مرکز کیجانب مرکز کےگرد برابر فاصلہ کے ساتھ اندر محوری سکڑ رہے ہونگے نیز ہمارے اس محوری مرکز کی جانب اور اس کے گرد راستہ کی وجہ سے ہمارا ساکن سورج کے لیے دیکھنے کا زاویہ اور سمت ہر فاصلہ پر بدل رہا ہوگا.
دوسرا اہم عمل زمین اپنے محور پر سورج کی جانب کافی جھکی ہوئی گھوم رہی ہے یعنی ہم ایک ہی وقت میں سورج کی جانب بھی بڑھتے ہیں اور اس سے نیچے کی جانب بھی جھکتے ہوئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے سورج کی سمت اور راستہ طلوع سے لے کر غروب تک ہمیں آسمان میں مداروی/آرک نما راستہ میں چلتا دیکھائی دیتا ہے.
یہ پورا فینا مینا اوپر بیان کردہ تجربہ کو فقط دور سے سمجھے شاید پورا سمجھ نہ آئے اس کے لیے لازم ہے کہ ایک بار تجربہ لازم کیا جائے.
زمین گیند نما کیسے؟؟
*سورج کا راستہ
گیند نما زمین کو طول بلد (شمال جنوب) اور عرض بلد (مشرق مغرب)کے فرضی خطوط میں تقسیم کیا جاتا ہے ان کے علاوہ تین فرضی خطوط ، خط استوا ، خط جدی ،خط سرطان جو سورج کے راستہ کے لیے ہیں میں بھی تقسیم کیا جاتا ہے ،
خط استوا عرض بلد صفر ڈگری پر ، خط جدی 23.5 ڈگری جنوب پر،خط سرطان 23.5 ڈگری شمال پر مشرق سے مغرب گیند نما گول زمین کے گرد فرض کیے جاتے ہیں.چونکہ زمین اپنے محور پر جھکی ہوئی ہے اور تقریباً 365 دنوں میں اسی طرح جھکے ہوئے سورج کے گرد اپنا ایک چکر مکمل کرتی ہے ، اس دوران جب زمین کا جکھاؤ عین سورج کی جانب ہوتا ہے تو زمین کا قطب شمالی سورج کی جانب جھکا ہوتا ہے اور اس وقت زمین کے گھومنے کی وجہ سے سورج خط سرطان کے اوپر محو گردش ہوتا ہے اور اس دوران خط استوا سے شمال میں موجود علاقوں میں سورج قطب شمالی کے گرد گھومتا دیکھائی دیتا ہے ،جبکہ خط استوا سے جنوب میں موجود علاقوں میں سورج قطب جنوبی کے گرد گھومتا دیکھائی دیتا ہے (غور رہے یہ حقیقت فلیٹ ارتھ پر کسی بھی صورت ممکن نہیں مگر یہ صرف گیند نما زمین پر ہی ممکن ہے ) یہ گیند نما زمین کی حقیقت کی سب سے بڑی اہم دلیل ہے.
زمین سورج کے گرد گردش کرتے ہوئے جب اپنے محور پر جھکی ہوئی اس مقام پر پہنچتی ہے جب خط استوا پر موجود ممالک کے لیے سورج عین مشرق سے طلوع ہوتا ہے اور ایک سیدھے خط میں بلند ہوتا ہوا سپہر کے وقت "عین سر" "over the head" کے اوپر ہوتا ہے ، اس ہی سیدھے خط میں ڈھلتا ہوا عین مغرب میں غروب ہوجاتا ہے (اس دوران سورج کا سایہ طلوع کے بعد دائروی سرکتے ہوئے چھوٹا ہونے کی بجائے عین مشرق کی جانب چھوٹا ہوتا جاتا ہے ،پھر سپہر کے وقت سایا زائل رہتا ہے اس کے بعد جب سورج زوال کرتا ہے تو سایہ دن کے پہلے پہر کے سایہ کے سیدھے خط کو برقرار رکھتے ہوئے عین مشرق کی جانب لمبا ہوتا جاتا ہے یعنی سورج آسمان پر ایک سیدھی لائن میں سفر کرتا ہے {یہ زمین کے گیند نما ہونے کاایک اور بعین ثبوت ہے کیونکہ اگر زمین فلیٹ ہوتی تو نا ہی سایہ اس طرح یک خط سیدھ میں ہوتا اور نہ ہی سورج طلوع سے لیکر غروب تک آسمان میں ایک سیدھے خط میں چلتا} )
زمین فلیٹ کیوں نہیں ہوسکتی؟
اگر زمین کو فلیٹ تصور کرلیا جائے تو سورج اور رات کو نظر آنے والے تمام اجرام فلکی کو خط استوا سے شمال یا چاہے جنوب دنیا کے کسی بھی کونے سے کسی بھی موسم میں ہمیشہ شمال مرکزی قطب کے گرد گردش کرنی چاہیے ،مگر حقیقت اس کے برعکس ہے اور وہ حقیقت عین گیند نما زمین کے اوپر صادق اترتی ہے.
اس پوسٹ میں ہم نے زمین کے گیند نما ہونے کی سب سے بڑی دلیل سورج کے راستے پر بات کی ہے ،اس کے علاوہ مزید بڑے دلائل بھی مشاہدہ کیے جاسکتے ہیں.
زمین گیند نما گول ہی ہے کیوں کہ خط استوا سے شمال میں آپ زمین کے قطب شمالی کے گرد گھوم رہے ہیں(اس لیے آپ کو اجرام فلکی بھی شمالی قطب کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں جسکی وجہ آپ اوپر بیان کردہ گیند والے تجربہ سے سمجھ سکتے ہیں) ،خط استوا سے جنوب میں آپ قطب جنوبی کے گرد گھوم رہے ہیں(اس لیے آپ کو یہاں تمام اجرام فلکی جنوبی قطب کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں) جبکہ عین خط استوا پر آپ سیدھے خط میں زمین کے مرکز کے گرد گھوم رہے ہیں اس لیے یہاں پر آپ کو تمام اجرام فلکی بھی اپنے سر کے اوپر ایک سیدھے خط میں چلتے دیکھائی دیتے ہیں.
ایکوینکس (Equinox) میں جب سورج خط استوا پر محو سفر ہوتا ہے تو اس وقت استوائی پٹی کے علاقوں میں سورج ٹھیک 90 ڈگری (Azimuth) سے طلوع ہو کر ایک سیدھی لائن پر چلتے ہوئے مغرب میں ٹھیک 180 ڈگری پر غروب ہوجاتا ہے جس کا مشاہدہ ہر عام و خاص کرسکتا ہے .
یہ پورا عمل گیند نما زمین پر ہر طرح سے بغیر کسی پچیدگی سے درست بیٹھتا ہے مگر فلیٹ ارتھ کے کسی بھی ماڈل پر کسی بھی صورت میں پورا نہیں اترتا کیسے آئیں دیکھتے ہیں:
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ فلیٹ زمین پر سورج اس کے اوپر آسمان میں متوازی دائروی چکر لگا رہا ہے اور طلوع و غروب کی وجہ اس کا ہم سے دائروی دور چلے جانا اور قریب آجانا ہے ،موسموں کی بناوٹ سورج کے چکر کا قطر گھٹانے یا بڑھانے کی بدولت ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ فلیٹ زمین پر سورج کا راستہ ہر حال میں ،ہر موسم میں ہر جگہ طلوع سے غروب تک ایک آرک/قوس نما بننا چاہیے جو فلیٹ ارتھرز کے نزدیک زمین کے فلیٹ اور سورج کے اس پر دائروی کلاک وائز گردش کا عین وجہ ہے ،مگر ٹھہریے کیا ہم اسے مشاہدے سے ثابت کرسکتے ہیں؟
جواب ہے نہیں ! مثلا .. ایکویکنس میں استوائی پٹی کے ممالک جیسے ملائیشا وغیرہ وہاں سورج عین مشرق یعنی 90 ڈگری (azimuth) سے طلوع ہوکر ٹھیک بغیر آرک/قوس بنائے ایک سیدھی لائن میں چلتے ہوئے مغرب میں بارہ گھنٹوں کا دن بناتے ہوئے عین مغرب میں 180 ڈگری ایزیمتھ پر غروب ہوتا ہے جو کسی بھی طرح سے کسی بھی عمل کے ذریعے کسی بھی فلیٹ ارتھ ماڈل پر درست نہیں بیٹھتا .
فلیٹ ارتھ ماڈل کے مطابق ایکوینکس میں سورج استوائی پٹی پر 90 ڈگری ایزیمتھ سے طلوع تو ہوتا ہے مگر 180 ڈگری کا آرک/قوس بناتے ہوئے یعنی آدھا دائرہ بناتے ہوئے مشاہدہ کار کیلیئے سورج کے طلوع کےاینگل 90 ڈگری ایزیمتھ کے حساب سے کسی صورت 180 ڈگری پر غروب ہی نہیں ہوسکتا بلکہ تقریباً 220 ڈگری پر جاکر غروب بنتا ہے اور مزید اس صورت میں سمتوں کی بھی دھجیاں اڑ جاتی ہیں.
اکثر فلیٹ ارتھرز کے مطابق مشرق و مغرب کی سمتوں کا تعین سورج کے طلوع و غروب سے طے ہوتا ہے ایسا کہنے کی وجہ شاید یہ ہے کہ وہ بیچارے سورج کے طلوع و غروب کے زاویے ایزیمتھ کو مبینہ طور پر درست کرنے کی ایک ناکام کوشش کرتے ہیں مگر ایسا کرنے سے یا تو فلیٹ زمین کی سمتیں گڈ مڈ ہوکر غلط ہوجاتی ہیں یا سورج کا ایزیمتھ کا طلوع و غروب کا زاویہ غلط ہوجاتا ہے حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ حقیقت میں بعین مشاہدہ چاروں سمتوں کا اطلاق گلوب زمین پر بغیر سورج کے ظہور سے آسانی سے طے ہوجاتا ہے جیسے ایزیمتھ Azimuth کے حوالہ سے سمتیں 0 ڈگری شمال کے لیے ،90 ڈگری مشرق کے لیے ،180 ڈگری جنوب کے لیے جبکہ 270 ڈگری مغرب کے لیے بعین مشاہدہ درست ہیں اور انھیں سمتوں میں سورج بعین حقیقت درست ظہور ہوتا ہے کوئی مسئلہ نہیں کہ موسم کونسا ہو یا جگہہ کونسی ہو.
جدید نام نہاد انٹر نیشنل فلیٹ ارتھر یعنی موجودہ مشہور زمانہ Eric Dubay صاحب سورج سمیت تمام اجرام فلکی کے راستہ کو فلیٹ ارتھ پر زبردستی دوسروں کی کم علمی کا فائدہ اٹھا کر *پرسپیکٹو* سے منسوب کرتے ہیں ، حالنکہ اگر ایسا ہوتا تو دنیا کے کسی بھی مقام پر ہم اجرام فلکی کو آسمان کے شمالی حصہ میں شمالی قطبی مرکز کے گرد گھومتا دیکھتے اور آسمان کے جنوبی حصہ میں اجرام فلکی کو جنوبی قطبی مرکز کے گرد گھومتا دیکھتے اس کے علاوہ شفاف ٹھوس آسمان کا نظریہ بھی پیش کیا جاتا ہے جس کے مطابق شفاف ٹھوس آسمان کی وجہ سے سورج خط استوا اور اس سے شمال یا جنوب میں مختلف سمتوں کا قوس نما راستہ بناتا ہے جسے کسی بھی سائنس کے تجربہ یا اصول کے ذریعے ثابت ہی نہیں کیا جاتا بس زبردستی سائنس کے اصولوں سے ناواقف لوگوں میں اسے حقیقت کا لبادہ پہنا ان کے ذہنوں میں سمو دیا جاتا ہے ، یہ فلیٹ ارتھ تھیوری اور فلیٹ ارتھ ماڈل کا سب سے بڑا رد ہے جسے کسی صورت دور نہیں کیا جاسکتا چاہے پرسپیکٹو سے یا چاہے کسی نئے مفروضے سے.
لہذا :
اگر زمین فلیٹ ہوتی تو:
*سورج کا راستہ جس کا مشاہدہ کیا جاتا ہے وہ ایسے نہ ہوتا
**سورج کا زاویہ ایزیمتھ طلوع و غروب درست نہ ہوتا
***سمتیں غلط ہوجاتی ہیں ،ایزیمتھ اور سورج کے طلوع و غروب میں.
****سارے اجرام فلکی تمام زمین پر کسی بھی مقام سے ہمیشہ شمالی قطبی مرکز کے گرد گھومتے
نوٹ *
Flat Earth Theory
فلیٹ ارتھ تھیوری تحریف شدہ بائبل کی ایک قدیم تھیوری ہے جسے 2014 کے بعد سے دوبارہ پوری دنیا میں نہاہت سازبازی سے پھیلایا جارہا ہے ، بظاہر اسے پھیلانے والوں مذہبی عیسائی اور یہودی ہیں جو تحریف شدہ بائبل کے عقیدے رکھتے ہیں گذشتہ سال 2017 میں پاکستان میں شاہ زوار بگٹی ،محمد عبدللہ اور عبدالوحاب نامی اہل وطن بھائیوں نے انٹرنیشنل فلیٹ ارتھ سوسائٹی سے متاثر ہوکر پاکستان میں یہ تھیوری پھیلانہ شروع کر رکھی ہے اور سوشل میڈیا پر اپنے پلیٹ فارم بنا رکھے ہیں ،محمد عبداللہ اس تھیوری میں اپنی بے بسی کا اعلان کرکے پیچھے ہٹ چکے ہیں مگر حافظ عبدالوہاب صاحب ابھی تک سائنس سے کم واقف لوگوں کو متاثر کرنے میں لگے ہوئے یہ تحریر میں ان تمام ہم وطنوں کے نام کر رہا ہوں جنھیں مستقبل میں اس جھوٹی تھیوری کا شکار بنایا جاسکتا ہے .
مجھ سے پہلے شاہزیب صدیقی صاحب اس تھیوری کو حافظ عبدالوہاب کے لیے بے نقاب کرچکے ہیں میں انھیں اس پر سلام پیش کرتا ہوں.