ہماری تعلیم کی تنزیلی اور اس کا تجزیہ
ہمارے ملک میں تعلیم کا جو معیار ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ بین الاقوامی سطح پر ہماری تعلیمی ڈگریاں کی اہمیت اور حثیت کے بارے میں آپ خوب جانتے ہیں ۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اس کی کیا وجہ ہے ؟ حالانکہ مہنگے مہنگے اسکول اور پروفیشنل کالج اور یونیورسٹیوں کی دن بدن تعداد بڑھ رہی ہے ۔ طالب علمموں کی تعداد میں بھی تیزی اضافہ ہورہا ہے ۔ لیکن باوجود اس کے ہمارے تعلیمی معیار میں ترقی کے بجائے تنزلی آرہی ہے ۔ ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کرنا ہوگا کہ اس جرم میں تعلیمی ادارے ، اساتذہ ، طلبا اور والدین وغیرہ سب شریک ہیں ۔
یہ کہا جاتا ہے کہ ماضی میں ہمارا تعلیمی معیار بہت بلند تھا ۔ مگر اس میں بھی کوئی صداقت نہیں ہے ۔ اس وقت بھی ہم رٹے لگاتے تھے اور آج بھی لگا رہے ۔ یہ اور بات ہے پہلے کے طالب علم کو محنت زیادہ کرنا پڑتی تھی ۔ کیوں کہ اس وقت گائیڈیں اور سول پیپر نہیں ہوتے تھے ۔ طالب علموں کو اس وقت بھی رٹے لگاوا کر تعلیم دی جاتی تھی ۔ یہی وجہ ہے آزادی سے پہلے ہمارے بشتر تعلیم یافتہ افراد قانون ، ادب اور تاریخ کے شعبہ میں نظر آتے ہیں ۔ جب کہ میٹھ ، فزکس ، کیمسٹری ، بیالوجی ، جیالوجی ، جغرافیہ ، وغیرہ یعنی سائنسی علوم میں شاذ نادر ہی اکا دکا افراد نظر آتے ہیں ۔
پیسہ اخبار کے اڈیٹر مولوی محبوب عالم یورپ کے سفر پر گئے تو وہاں کے تعلیمی اداروں کا مطالعہ بھی کیا ۔ وہاں انہوں نے نوٹ کیا کہ وہاں کے ٹیچر اور پروفیسر اپنے تعلیمی اداروں کی لیباٹریوں میں نئے نت تجربات کرتے رہے ہیں اور نئی نئی جب دریافتیں کرتے رہتے ہیں ۔ ان سے بات کرو اتنی گہرائی اور تفصیل میں جاتے ہیں کہ ان کی علمیت پر حیرت ہوتی ہے کہ اتنا عالم فاضل شخص معمولی استاد ہے ۔ مولوی محبوب عالم تاسف کا اظہار کیا کہ کہ ہندوستان کے تعلیمی اداروں کی لیباٹریوں میں اسی نوعیت کا سامان ہوتا ہے ۔ مگر وہاں پروفیسر وغیرہ اس طرح کے تجربات کرتے نظر نہیں آتے ہیں اور اگر ان سے بات کی جائے تو جواب دینے کے بجائے منہ دیکھتے ہیں ۔ یعنی پست تعلیم کا یہ معیار ہماری رگوں میں ابتدا سے شامل ہے ۔ آزادی سے پہلے بھی انگریزوں نے برصغیر کے تعلیمی معیار پر سخت تشویش کا اظہار کیا تھا اور اس کے صدباب کے لیے کئی کمیشن بنائے تھے ۔ اگرچہ رٹے بازی ایک محنت طلب کام ہے اور اس محنت تو ہوتی مگر ذہنی مشقت نہیں ہوتی ۔ اس لیے اس سے ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ نہیں ہوتا ہے اور طالب عم محض حافظ کل بن جاتا ہے ۔
آج کے طالب علموں کو ہم سے یا ہمارے بزرگوں سے زیادہ سہولتیں حاصل ہیں ۔ اگرچہ آج کا طالب علم ماضی کے مقابلے میں بہت اچھے نمبر بھی لے رہا ہے ۔ مگر بھر بھی بین الاقوامی سطح پر تعلیمی معیار گر رہا ہے ۔ کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ اس کی کیا وجہ ہےَ ؟ اس میں کوئی شک نہیں ہے آج کا بچہ ماضی کے مقابلے میں بہت ذہین ہے مگر اس کی ذہانت درست سمت میں استعمال نہیں ہورہی ہے ۔ لوگوں سے جب گرتے ہوئے تعلیمی معیار پر بات کرو تو وہ خرابی کا ذمہ دار ٹیچروں کو ٹہراٹے ہیں اور ٹیچروں سے بات کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم کیا کریں طلبا ہی محنت نہیں کرتے ہیں ۔ لیکن حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کوئی نہیں کرتا ہے ۔
تعلیم آنے والی نسل میں اپنے تجربہ ، علم ، ثقافت ، شعور کو منتقل کرنے کا نام ہے ۔ تعلیم میں تجس ، جستجو اور تحقیق کی بہت اہمیت ہوتی ہے ۔ ذہانت کسی کی میراث نہیں ہوتی ہے اور ہر شخص میں موجود ہوتی مگر اس کو درست رہنمائی نہ کیا جائے تو وہ منفی رخ اختیار کرسکتی ہے ۔ ایک اچھے استاد کا کام ہے وہ اس ذہانت درست راستہ پر لگائے اور طالب علم میں تجس ، جستجو اور تحقیق کا جذبہ پیدا کرے ۔ یہ چیزیں طالب علموں میں اس وقت تک جنم نہیں لیتی ہیں جب تک ان کی درست رہمنائی نہ کی جائے ۔ لیکن سوچنے کی بات ہے کیا والدین اور اساتذہ رہنمائی اور فرض احسن طریقہ سے انجام دے رہے ہیں ؟ تعلیم کا تصور ہمارے ذہنوں میں یاد کرنے یا رٹے لگانے کا بیٹھ چکا ہے اور جب تک یہ تصور ختم نہیں ہوگا ہم اپنا تعلیمی معیار بلند نہیں کرسکتے ہیں ۔
گرتے ہوئے اس تعلیمی معیار کی بہت سی وجوہات ہیں ۔ لیکن اس کی پستی کی بڑی اہم وجہ ہمارے تعلیمی نظام میں درسی کتابوں سے زیادہ گائیڈوں اور سول پیر کی اہمیت ہے ۔ گائیڈوں اور سول پیپر کی مدد سے اچھے نمبر اور ڈگریاں وغیرہ تو لی سکتی ہیں ۔ مگر تعلیمی معیار بلند نہیں کرسکتے ۔ ہم پہلے ہی حقیقی تعلیم سے نا آشنا تھے لیکن ہم نے اب ہم نے طالب علموں کو گائیڈیں حل پیپر کی لت لگادی ہے ۔ اس میں اساتذہ کا بھی فائدہ ہے ، طلبا کا بھی اور والدین کا بھی ۔ اساتذہ کو یہ فائدہ ہے کہ انہیں طلباء کو تعلیم دینے میں محنت کی ضروت نہیں انہیں رٹے لگانے پر لگا دیا ہے ۔ طلبا کا کو بھی رٹے لگانے میں زیادہ محنت بھی نہیں کرنی پڑتی ہے اور انہیں اچھے نمبر مل جاتے ہیں ۔ والدین بھی خوش کے ان کے بچوں کے اچھی نمبر آئے ہیں اور انہیں میڈیکل یا انجیرنگ میں داخلہ ہوجائے گا ۔
اگر ہمیں اپنا تعلیمی معیار بڑھانا ہے تو ہمیں تعلیمی طریقہ کار میں تبدیلی لانی ہوگی ۔ اس کے لیے سب سے پہلے رٹوں ، گائیڈوں ، حل پیپر ، ٹیوشن سینٹر کتابوں کاپیوں کی بھرمار سے جان چھڑانی ہوگی ۔ دنیا کہ ترقی یافتہ ملکوں میں طلبا کتابوں اور کاپیوں کو گھر لانے کی اجازت نہیں ہے ۔ بلکہ بعض ممالک میں ابتدائی اور ثانوی جماعتوں میں درسی کتب ختم کردی گئی ہیں ۔ مثلاً امریکہ میں چھوٹی کلاسوں میں کتاب صرف ٹیچر کے پاس ہوتی ہے اور اعلیٰ کلاسوں میں جس کتاب کی ضرورت ہوتی ہے وہ اسکول لائبریری سے لے لی جاتی ہے ۔ لیکن ہمارے یہاں اس کے برعکس کتابوں کا بوجھ اتنا بڑا کر دیا ہے کہ طالب علم بستہ اٹھاتا ہے تو اس کی کمر دھری ہوجاتی ہے ۔ کتابوں کی اس بھر مار میں ہمارا مفاد بھی شامل ہے ۔ آج تعلیم تجارت بن چکی ہے جس میں تعلیمی اداروں کا زبردست منافہ ، کتابوں اور کاپیوں کی بھرمار ، گائیڈیں ، حل پیپر پیپر کا آوٹ ہونا ، گائیڈیں ، حل پیبر جات اس سب میں بہت سے لوگ اپنے ہاتھ رنگ رہے ہیں ۔ ان سب سے جان جھڑائے بغیر تعلیم کا تعلیم کا معیار بلند نہیں کرسکتے ہیں ۔ ان کے خلاف کار وائی کئے بغیر ہی ہم طلبا میں تجس ، تحقیق اور جستجو کا مادہ نہیں کرسکتے ہیں اور طالب علموں میں یہ کیسے پیدا کیا جائے اس کا ذکر بعد میں کیا جائے گا ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔