ہماری سیاست کا مسئلہ
ہم انڈین فلمیں دیکھتے جوان ہوئے۔ خیر فلموں کی مختلف قسمیں ہیں، مگر جو سب سے مقبول قسم ہے اس میں ہیرو اور ویلن ہوتا ہے۔ اور پوری فلم لڑائی مارکٹائی کے بعد ہیرو کی فتح اور ویلن کی "کتے جیسی موت یا ہار" پر ختم ہوتی ہے۔ انسانی مزاج فلموں سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ فلم کا ایک جملہ آپ کی زندگی کی فلاسفی بدل سکتا ہے، "میں جب کچھ کرنے کی ٹھان لیتا ہوں تو ۔ ۔ ۔ " وغیرہ جیسے جملے آپ کی زندگی میں اپنے مسائل کو حل کرنے کی اسٹرٹیجی بدل دیتے ہیں۔
ایسی فلمیں اوسط ذہن کے لیے ایک استاد کا درجہ اختیار کر جاتی ہیں۔ جو منطق فلم میں استعمال ہوتی ہے ہم حقیقی زندگی میں استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں۔ مگر ان فلموں سے ہمیں ایک بہت برا سبق ملتا ہے۔ وہ یہ کہ ہیرو میں سب اچھا ہوتا ہے اور ویلن میں سب خراب۔ اچھے کے ساتھ ہمیشہ اچھا ہوتا ہے، اور برے کا انجام برا ہوتا ہے۔ فلموں کی اپنی مجبوری ہوتی ہے، ان کو دو ڈھائی گھنٹے میں ایک اختتام تک پہنچنا ہوتا ہے۔
مگر زندگی ایسی نہیں ہوتی۔ نہ ہی زندگی کے مسائل سیاہ و سفید میں بٹے ہوتے ہیں۔ نہ زندگی کے ہیرو میں سب اچھا ہوتا ہے اور نہ ہی زندگی میں ویلن کا سب برا ہوتا ہے۔ مثلاً یہی دیکھ لیجیے کہ چاقو کا لمبا نشان، کانی آنکھ اور بگڑا لہجہ کتنے بدمعاشوں کا ہوتا ہے۔( ابھی پچھلی بار ایک پراپرٹی کے جھگڑے کی میٹنگ میں ایک بدمعاش نرم لہجے کے ساتھ مجھے بھائیجان بھائیجان کہہ رہا تھا، حقیقت میں وہ دھمکی تھی کہ سمجھ جاؤ)۔
ہماری سیاست کا مسئلہ بھی یہ ہے کہ ہم مخالف کو چاقو کے لمبے نشان، کانی آنکھ اور بگڑے لہجے کے ساتھ پہچان لینا چاہتے ہیں۔ اور ہیرو کو صاف ستھرے مہذب لہجے، پیار اور خیال رکھنے والے بندے کے روپ میں۔ ایسے میں ہم کنفیوز ہو جاتے ہیں۔ کہ انتخابی مہم کے دوران سب آپ کو "بھائیجان" کہہ رہے ہوتے ہیں۔ سب اپنے منہ دھو کر صاف ستھرے بچے بن کر آتے ہیں۔ تو ویلن کدھر ہے، کون ہے؟
یاد رکھیں ! زندگی انڈین فلم نہیں ہے۔ نہ آپ کو ویلن کے گول کمرے کا منظر دکھائی دے گا، نہ اسکی سازشیں اس طرح سمجھ آئیں گی، جیسے فلم کا ہدائیتکار دکھانا چاہتا ہے۔ نہ ہی ہیرو کوئی ایسا شخص ہوگا، جس پر ہزاروں گولیاں اثر نہ کریں۔ آپ کو لوگوں کے حلیوں، رویوں، اور باقی میک اپ کو خود ہی پہچاننا ہوگا۔ باتوں سے زیادہ حالات پر دھیان دینا ہوگا۔ اپنے مسائل سمجھنا ہونگے۔ اور انکے مطابق دیکھنا ہوگا کہ کون ہے جو میٹھے لہجے ، پیارے معصوم چہرے کے ساتھ دھیرے دھیرے آپ کے مسائل میں اضافہ کرتا جا رہا ہے؟ اور وہ کون ہے جو بظاہر شائد کرخت لہجہ رکھتا ہو، آپ کے مسائل حل کرتا جا رہا ہے؟
اس پہچان میں آپ سے غلطی بھی ہو سکتی ہے۔ تو ان لوگوں سے رجوع کریں جنکی ذاتی زندگی آپ کے سامنے ہیں۔ اور اس زندگی کو آپ پسند کرتے ہیں۔ نہ کہ ان لوگوں سے رجوع کریں کہ جو آپ کے محلے میں خوف ، دہشت، یا اچانک آ جانے والی دولت کے بل پر پردھان بنے آپ سے ووٹ مانگنے چلے آ رہے ہیں اور مضبوطی سے آپ کی کلائی پکڑ کر منہ سے "بھائیجان" کہتے ہوئے اصل میں آپ کو دھمکا رہے ہوتے ہیں کہ اگر میری طاقت میں اضافہ نہ کیا تو تمہارا اس محلے میں رہنا اجیرن کردیں گے۔ یاد رکھیے، ویلن ایسا ہی کرتے ہیں، شکل جیسی بھی ہو۔
دیدہ بینا اے رب ! دیدہ بینا ۔ یا اپنی رحمت۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“