منشی نول کشور کے کام پر جرمن خاتون اسکالر کا انتہائی محققانہ مطالعہ
آئے دن جو نئی کتابیں مطالعے میں آتی رہتی ہیں ان میں گاہے ایک دو ایسی بھی ہیں کہ جو مجھے کچھ دنوں کے لیے پھر اور کہیں کا نہیں رکھتیں۔ کیا ان کا موضوع، کیا ان کا مباحث اور کیا ان کا معیار۔۔۔ ہر ایک دامن دل می کشہ کہ جاایں جاست کے مصداق۔ موضوعات کا انوکھا پن، ان کی ندرت اور کشش اب خال خال ہی ہمارے ملک کے مصنفین، اور دیگر تحقیقی ہوں تو ہماری یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور طلبہ کے منصوبوں میں نظر آتے ہیں۔ ایسی ہی ایک کتاب نے کچھ دنوں کے لیے میری توجہ اور دل چسپیوں کو باندھ لیا۔ کتاب تو نو سال پرانی ہے اور 2007ء کی مطبوعہ ہے لیکن سوئے اتفاق کہ، اس کا عنوان اور موضوع نظر سے گزرنے کے باوجود، محض اتفاق کہ ملک اور بیرون ملک کہیں دستیاب نہ ہو سکی تھی۔ یہ کتاب: An Empire of Books: The Naval Kishore Press and the Diffusion of the Printed Word in Colonial India (کتابوں کی ایک مملکت: نول کشور پریس اور نو آبادیاتی ہندوستان میں مطبوعہ لفظوں کی سرایت) ہے جسے ایک جرمن خاتون اسکالر: الرائیک اسٹارک (Ulrike Stark) نے لکھا ہے۔ یہ خاتون شکاگو یونیورسٹی کے ایک ادارے سے منسلک ہیں جو جنوبی ایشیا کے مطالعات سے متعلق ہے، اور انہوں نے یہ کام جرمنی میں ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے شعبہ مطالعات جنوبی ایشیا میں بیٹھ کر مکمل کیا۔ دہلی سے ان کی یہ کتاب 2007ء میں چھپی ہے۔ کتاب کیا ہے ایک انتہائی محققانہ مطالعہ اور ایک انتہائی معیاری کوشش، جس میں اس کے موضوع سے متعلق بے حد قیمتی معلومات حاصل ہوتی ہیں، جن میں سے متعدد ایسی معلومات ہیں جو منشی نول کشور کے معروف محقق اور مصنف امیر حسن نورانی اور اردو صحافت اور مطالع پر تحقیقی مطالعات کے دیگر ممتاز مصنفین بھی اب تک پیش نہ کر سکے تھے، یا اُن حضرات سے اِن معلومات کی جستجو نہ ہو سکی تھی، یا وہ ان کی رسائی میں نہ آ سکی تھیں۔
کوئی دو سال قبل کی بات ہے، راقم الحروف کی ایک کتاب: ’’جنوبی ایشیا میں طباعت کا آغاز و ارتقا: مسلمانوں کی طباعتی سرگرمیوں اور قومی بیداری‘‘ شائع ہوئی تو اس کے انتساب نے پاکستان ہی میں نہیں بھارت میں بھی میرے دوستوں اور چاہنے والوں تک کو چونکا دیا کہ یہ کیا! مخلص دوستوں نے تو اب بے حد سراہا لیکن ان ’’دوستوں‘‘ نے جو انتساب کو مصبلغ کسی جاہ و منصب بردار سے منصوب کرنا اور انہیں ممنوں و شاد کر کے خود اپنے آپ کو ان کی نظروں میں نمایاں کروانا زیادہ پسند کرتے ہیں، اس انتساب پر حیرت کا اظہار ضروری سمجھا۔ وہ انتساب یہ تھا:
’’انیسویں صدی میں علوم اسلامیہ اور عربی و فارسی اور اردو زبان و ادب کے سب سے بڑے محسن و ناشر: منشی نول کشور کے نام، کہ جن کی خدمات کا اعتراف قومی و ملّی سطح پر عالم اسلام اور مملکتِ اسلامیہ پاکستان میں نہ کیا جا سکا! ایسا اعتراف مسلم ملت پر قرض ہے‘‘۔
یہ انتساب میرے اُن جذبات کے اظہار پر مبنی تھا جو میرے دل میں منشی نول کشور کے لیے ہمیشہ مؤجزن رہتے ہیں۔ اس انتساب کی توجیہ بیان کرتے ہوئے میں نے اس کتاب کے دیباچے میں لکھا تھا کہ:
’’شاید دنیائے اسلام ایسا کوئی مسلمان ناشر پیش نہیں کر سکتی جیسا کہ ہندوستان کے بظاہر مذہباً ایک ہندو ناشر نے اسلامی علوم اور اسلامی زبانوں کے ادب کے فروغ میں اپنی بے مثال طباعتی خدمات کے توسط سے انجام دیا۔ یہ قرض تو دراصل قومی لحاظ سے پاکستان پر زیادہ عائد ہوتا ہے جس کے آباواجداد کی کم از کم تین نسلوں نے اس ناشر کی خدمات سے راست فیض اٹھایا تھا، اور جو اب تک جاری ہے۔ ہم نے ہندوستان بلکہ ہندوستان کے بعض اکابرِ ادب کی خدمات کو، جو محض ادب کے ان کے اپنے ذاتی ذوق و شوق کا نتیجہ اور اپنے ذوق کی تسکین و مفادات کے لیے مخصوص و محدود رہیں، سرکاری ’’تمغوں‘‘ اور ’’ستاروں‘‘ سے نوازا لیکن نول کشور اور ان جیسے اسلامی علوم و ادب کے خدمت گاروں کو کسی صورت یاد تک نہ کیا! زیر نظر کاوش ایک نظریاتی پاکستان شہری کا ایک حقیر سا نذرانہ عقیدت و سپاس ہے نول کشور کی خدمت میں‘‘۔
یہ کتاب کراچی یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغ عامہ کے پروفیسر و صدر اور اردو صحافت کی تاریخ نویسی کے معروف اسکالر ڈاکٹر طاہر مسعود نے اپنے شعبے کے صیغۂ مطبوعات کے سلسلۂ اشاعت کے ذیل میں شائع کی تھی۔ انھوں نے اس کتاب کو اس ذوق و شوق سے اس لیے بھی شائع کیا تھا کہ خود وہ بھی منشی نول کشور کی خدمات کے اس حد تک مداح ہیں کہ کہتے ہیں: نول کشور کے نام سے ہماری حکومت کو ایک قومی یونیورسٹی منشی نول کشور کے نام سے پاکستان میں قائم کرنی چاہیے! انھوں نے اس کتاب کے پیش لفظ میں لکھا کہ:
’’۔۔۔۔اس معلومات افزا کتاب کو اودھ کے مشہور ناشر نول کشور نے نام معنون کیا ہے۔ منشی مرحوم اسلام اور مسلمانوں کے عظیم محسن تھے۔ انھوں نے جنوبی ایشیا ہی میں نہیں، دیگر مسلم ملکوں میں بھی دین اسلام کے مذہبی اور تہذیبی سرمایے کو جس وسیع پیمانے پر محفوظ کر کے عام کیا ہے اس کی کوئی دوسری مژال خود مسلمان ناروں میں نہیں ملتی۔ دُکھ تو یہ ہے کہ ہم نے اپنے ایسے محسن کو بھلا دیا۔ اس کی اپنی یادگار تو کیا تعمیر کرتے، عام لوگ تو چھوڑیے جامعات کے طلبہ و اساتذہ تک ان کا نام نہیں جانتے۔ محسن فراموشی کی اس بدعت کا خاتمہ بھی اسی کتاب سے ہو رہا ہے۔۔۔‘‘۔
واے افسوس، یہ خواب کی باتیں بس خواب ہی کی باتیں ہیں۔ کیا ہمارے ملک کے اربابِ اقتدار اور اصحابِ متعلقہ نول کشور کو اور اُن کی خدمات کو جانتے ہوں گے؟ کہ خدمات کا اعتراف کسی صورت، یونیورسٹی کا قیام تو ایک بڑا اقدام ہو گا، ایک ’تمغا‘ ایک ’ستارہ‘ دے کر کر سکیں؟ اگر کہیں سے کوئی زور اور دباؤ پڑے یا بھارت کی حکومت کو کسی اور مصلحت سے خوش کرنا یا اپنی جانب سے دوستی کا تاثر دینا چاہیں تو گوپی چند نارنگ یا شمس الرحمٰن فاروقی کو دکھاوے کے لیے اعزاز تو دے دیں لیکن یہ کیوں سوچیں کہ ان اسکالرز کی وقعت و قدر و قیمت سے بڑھ کر، کہ شمس الرحمٰن فاروقی سے قطع نظر، گوپی چند نارنگ کے معاصرین میں وہاں اُن دنوں ڈاکٹر مختار الدین احمد آرزو، ڈاکٹر نذیر احمد، قاضی اطہر مبارکپوری جیسے عالمی شہرت و وقار کے اسکالرز بھی زندہ تھے اور ان میں سے ہر ایک اپنی علمی اور ادبی تحقیقات اور اسلامی تاریخ کی دنیا میں احترام کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں، اور یقیناً گوپی چند نارنگ کے مقابلے میں زیادہ بڑے اسکالر اور غیر متنازع شخصیت کے مالک بھی تھے۔ یہ عمل ثابت کرتا ہے کہ علمی توقیر اور وقار کے مقابلے میں مجلسی شہرت اور نام و نمود اور گروہ بندی کی زیادہ اہمیت ہے۔ اگر ہماری حکومتوں کا بھارت سے تعلقات میں سعادت مندی اور دوستی کا تاثر دلانا ہی مقصد ہے تو جائز فیصلے ہی کیوں ناں کیے جائیں، سنجیدہ اور با وقار اہلِ علم ہی کیوں ناں ان اعزازات کے لیے منتخب کیے جائیں، ذرائع ابلاغ سے چپکے رہنے والے ہی ان اعزازات کے لیے کیوں منتخب ہوں؟ یہی صورت اپنے ملک میں ہے کہ جن افراد کی شہرت اور نام و نمود کے پیچھے زندہ رہنے والا علمی کام نہیں، بعض کی جھولی میں تو ایک آدھ سرسری اور بچگانہ نوعیت کی کتاب، کالموں، تقریروں اور مضامین کے مجموعے یا ایک دو یا چند شعری مجموعوں سے زیادہ کچھ نہیں، جنھیں ان کے ساتھ ہی اس دنیا سے معدوم ہو جانا ہے، انھیں بھی تمغے اور ستارے مل جاتے ہیں، اور بے داغ، سنجیدہ اور باوقار علمی شہرت و حیثیت، یہاں تک کہ بین الاقوامی عزت و اعزاز اور توقیر کے حامل افراد کسی شمار اور منصب کے لیے اہل گردانے نہیں جاتے، کیوں کہ وہ ان کے حلقے میں یا مقربین میں نہیں ہوتے اور ان کے پیچھے ان کے ڈھنڈورچی یا سرپرست نہیں ہوتے۔
اس صورت حال میں یہ کیسے توقع رکھی جائے کہ منشی نول کشور جیسے بے لوث خادم قوم و ملت کے نام پر یہاں کوئی یونیورسٹی قائم ہو سکے، یا ہماری حکومت انھیں کسی قومی اعزاز، کسی تمغے، ستارے کے لیے زیر غور لائے! جب کہ وہ مذکورہ اعزازات سے بھی بڑھ کر ’’ہلالِ پاکستان‘‘ کے حق دار ہیں۔ ہم پر اس شخص کے جو احسانات ہیں ہم ان کی قدر تو کیا کرتے، ہمارے اصحابِ اقتدار تو اس شخص کے کام، اس کی قدر و قیمت ہی سے واقف نہ ہوں گے تو اس کا نام اور اس کی خدمات کے بارے میں کیا جانیں گے کہ اس کا قرض اتار سکیں! جب کہ عالمی سطح پر علمی دنیا میں، جس کی سرحدیں نہیں ہوتیں، نول کشور کا نام اور ان کے کاموں کی کماحقہ‘ قدر شناسی موجود ہے۔ کم از کم تین مثالیں اس وقت میرے حافظے میں تازہ ہیں، کہ ایک بار جرمنی کے سفر میں ایک تو اقبال کی قیام گاہ اور ان کا محبوب شہر ہونے کی وجہ سے، اور دوسرے نادر و قیمتی کتب خانے کی شہرت کی وجہ سے، میں ہائیڈل برگ بھی گیا تھا اور اس کی یونیورسٹی کی نئی اور پرانی عمارات میں واقع کتب خانے بھی دیکھے تھے، جن میں سے پرانی عمارات میں موجود کتب خانے کو اُس کے نوادرات کے باعث زیادہ التزام سے دیکھا اور استفادہ بھی کیا۔ اس کی نئی عمارات میں واقع کتب خانے کو زیادہ توجہ سے نہ دیکھ سکا اور اس کا وقت بھی میں نہ نکال سکا، لیکن میں نے سنا تھا کہ اس کے تہہ خانے میں پرانی کتابیں موجود ہیں لین ان سے استفادہ کرنا ممکن نہیں کہ وہ ابھی فہرست سازی اور ضروری کارروائی کے عمل سے نہیں گزریں۔ ایسی تشنگی کا سامنا مجھے بعض دیگر کتب خانوں، مثلاً برٹش لائبریری، پرنسٹن یونیورسٹی لائبریری، رائل ایشیاٹک سوسائٹی کے کتب خانوں میں بھی کرنا پڑا۔ یہ مذکورہ بالا مصنفہ اسٹارک کے پیش لفظ سے پتا چلا ہے کہ ہائیڈل برگ یونیورسٹی کی نئی عمارات میں واقع کتب خانے میں نول کشور کی مطبوعات کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے، جسے اس نے اپنے ایک تحقیقی منصوبے میں ایک گنجائش پیدا کر کے اپنے اگلے مطالعاتی منصوبے کی شکل دی اور نول کشور کی زندگی اور ان کی مطبع کی کارکردگی اور خدمات کے مطالعے پر مبنی مندرجہ بالا بے مثال کام کر ڈالا۔ یہ ذخیرہ وہاں یوں ہی تو نہیں آ گیا ہو گا، اسے اس کی اہمیت سمجھنے والوں نے بھارت میں خریدا اور وہاں لے جا کر محفوظ کیا ہو گا۔ یہ ہیں علمی قدردانی کی روشن مثالیں۔
دوسری ایسی ہی مثال جاپان کی ہے۔ جاپان میں ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز کے کتب خانے میں فارسی و اردو کی نہایت قیمتی اور نادر ہندوستانی مطبوعات کا خاصا بڑا ذخیرہ محفوظ ہے جس میں نول کشور کی کتابیں بھی شامل ہیں، کیوں کہ جاپان کے عرفِ عام میں وہاں کے ’’بابائے اُردو‘‘ پروفیسر ریئیچی گامو اور جنوبی ایشیا کے دیگر ماہرین اساتذہ نے ہندوستان بھر کا چکر لگا کر نادر کتابیں خریدتے ہوئے نول کشور کی ساری دستیاب مطبوعات بھی خرید لی تھیں۔ جنھیں اس یونیورسٹی میں نہ صرف محفوظ کیا گیا بلکہ ان کی وضاحتی فہرست بھی وہاں اردو کے نامور پروفیسر سوزوکی تاکیشی نے مرتب اور شائع کی۔ اب یہ فہرست اور یہ کتابیں آن لائن بھی ہیں۔ یہ اس قوم کی علم سے نسبت و محبت اور قدر کا اظہار و ثبوت ہے۔ ہم یہ صفات اب کہاں سے لائیں؟
تیسری مثال برٹش لائبریری کی ہے۔ اس سے بارہا استفادے کے دوران مجھے چند مواقع پر وہاں کے مخلص اور لائق عملے کے خصوصی تعاون کے سبب اُن مقامات پر بھی جانے کے مواقع ملے ہیں جہاں ایسے نادر و قیمتی ہندوستانی ذخائر ابھی تک منتشر اور بند پڑے ہیں جن کی فہرستیں نہیں بن سکیں اور ان کا علم بھی عام نہیں ہو سکا ہے۔ ایسے ہی ایک گوشے میں ایک بہت بڑا انبار تھا جو میری سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ کیا ہے؟ دریافت کرنے پر مجھے بتایا گیا کہ یہ نول کشور پریس میں استعمال ہونے والی پتھر کی وہ سلیں ہیں جن پر عبارتیں یا متن منقش ہوتے تھے اور مشین کے ذریعے کاغذ پر منتقل ہوتے تھے۔ یعنی پتھر کی چھپائی یا لیتھوطباعت کا ایک اہم عنصر۔ اب یہ پتھر کی سلیں کسی کام کی نہیں، لیکن جب نول کشور پریس کا باقی ماندہ سارا ذخیرہ لکھنؤ میں واقع پریس سے خریدا جا رہا تھا تو بطور تبرک ایسے ازکار رفتہ سامان کو بھی خرید لیا گیا کہ بہر حال یہ سب تاریخی ورثہ تھا! یہ ہے اس قوم کا انسانی تاریخ اور اس کے ایک تہذیبی ورثے سے نسبت و دل چسپی کا اظہار۔ لیکن اپنی تاریخ اور اپنے علمی اور تہذیبی ورثے سے ہمارا کیا رشتہ اور تعلق ہے؟ اس ورثے سے علمی شعبے میں ہم نے قومی اور ملّی سطح پر کیا کچھ نہ پایا؟ لیکن اس کا احسان قومی سطح پر کس قدر مانا؟ کیا ہم احسان فراموش نہیں؟
https://www.facebook.com/zest70pk/posts/10206617161603163
“