کوبرا پوسٹ اپنی جانبازی اور تفتیشی رپورٹنگ کے لیے ایک بار پھر سنجیدہ طبیعت لوگوں میں موضوع گفتگو ہے. اور ہر بار کی طرح میڈیا نے اسے پھر نظر انداز کیا ہے. پچھلے اسٹنگ آپریشن کے دوران خود میڈیا ہی اس کی تفتیش کا نشانہ بنا تھا اور زی نیوز و پی ٹی ایم سمیت دسیوں بڑے بڑے میڈیا گھرانے ایک مخصوص پارٹی کے لیے کیمرے پر اپنا ضمیر بیچتے اور اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو بالائے طاق رکھتے نظر آئے تھے، اس لیے بھی انہوں نے کوبرا پوسٹ کی اس رپورٹ کو درکنار کیا تھا، یہ بات سمجھ میں آتی ہے. کیونکہ سچ سننا اور آئینہ دیکھنا سب کے بس کی بات نہیں ہوتی. لیکن اس بار جب تفتیش کی ڈور بالی وڈ سے جڑے ستاروں پر لٹکی تو بھی میڈیا خاموش ہے. ظاہر ہے اس طرز عمل کو اپنی ذمہ داریوں سے بھاگنے کے سوا کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا.
کوبرا پوسٹ نے اپنے تازہ آپریشن کو "آپریشن کراؤکے" کا نام دیا. اس آپریشن کے ذریعے ان کے دو جانباز رپورٹر نے بالی وڈ کے تقریباً 36 ستاروں سے رابطہ کیا اور ان سے پہلے فون پر اپنا مدعا بیان کیا کہ وہ دہلی کی ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی "فیوچر پبلک ریلیشن" کے نمائندے ہیں اور بی جے پی ان کی کلائینٹ ہے. اپنی پارٹی کے پرچار کے لیے انہیں ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ (فیس بک، ٹوئٹر اور انسٹاگرام) کا سہارا لینا ہے. جس پر آپ کے لاکھوں فالوور ہیں، اس کے بدلے آپ کو پیسے دیئے جائیں گے. جس میں 10 سے 12 فیصد تک چیک سے اور باقی نقد (یعنی بلیک منی) ادائیگی کی جائے گی. اس پر ودیابالن، ارشد وارثی، رضا مراد اور سومیا ٹنڈن جیسے صرف چار باضمیر ستاروں نے انکار کیا باقی سارے ہی ستارے چند لاکھ کے لیے اپنا ضمیر بیچ کر اپنے فالوورس اور فین کو گمراہ کرنے کو تیار نظر آئے. اس خبر سے لگا کہ ملک کے اعلی طبقے کے افراد اخلاقی طور سے دیوالیہ ہونے کے لئے ایک ریس میں بھاگ رہے ہیں اور جو بھی چاہے ان کے سامنے چند ٹکے پھینک کر ان سے کچھ بھی کروا سکتا ہے. یہ بھی سمجھ میں آیا کہ ملک کے طوق میں بہت ہی کم عرصے میں انگریزوں کی غلامی کا پھندا کیوں پڑ گیا تھا. جب ایسے ضمیر فروش افراد سارے قاعدے قانون کی خلاف ورزی بھی کرے اور دیش بھکتی کا ڈھنڈورا بھی پیٹے تو ملک کو برباد کرنے کے لیے دشمنوں کو چالیں چلنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئے گی!!
حیرت تو اس بات پر ہے کہ اس فہرست میں کوئی عام ستارے نہیں بلکہ جانے مانے ستارے بےنقاب ہوتے نظر آئے. شکتی کپور، جیکی شراف، وویک اوبرائے، ابھیجیت بھٹاچاریہ، کیلاش کھیر، راجپال یادو، مہیما چودھری، راکھی ساونت، پونم پانڈے اور حیرت انگیز طور پر مشہور کامیڈین راجو سریواستو بھی. یہ ایسے فنکار ہیں جن کی فنکاری کی داد ایک بڑا طبقہ دیتا ہے اور لاکھوں کی تعداد میں ان کے فالوورس اور فین موجود ہیں جو انہیں نہ صرف اسکرین پر کلاکاری کی وجہ سے عزت دیتی ہے بلکہ ان کی زندگی کے واقعات کو اپنے لئے مشعل راہ بنانے کے لیے ان کو سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر فالو بھی کرتی ہے اور خود کو اونچا اٹھانے کی کوشش بھی کرتی ہے. ایسے میں اگر وہ اپنے محبوب اسٹارس کو کسی بات کی تعریف کرتے دیکھیں گے تو وہ بھی اسی بات کو درست سمجھنے کی غلطی کریں گے. ان اسٹارس کا یہی یقین ان کو پیسے لے کر ایک مخصوص پارٹی کا پرچارک بننے اور اپنے فینس سے پیار پاتے رہنے کی خوش فہمی میں مبتلا کر گیا.
آپ سمجھتے ہوں گے کہ یہ تو پیسوں کے لیے ہی کام کرتے ہیں اس میں بھی انہوں نے پیسے لے کر کام کرنے کی حامی بھری تو اس میں برا کیا ہے؟ کوبرا پوسٹ کے ایڈیٹر انیرُدھ بہل نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایک جمہوری ملک میں جہاں پبلک ہی سرکار چنتی ہے اور وہی کسی حکومت کے اچھے برے کام کا تجزیہ بھی کرتی ہے، ایسے میں ان کے دماغ میں یہ بات بٹھانے کی کوشش کرنا کہ فلاں کام اچھا ہے اور فلاں کام برا ہے. یہی رویہ ایک صحتمند جمہوریت کے لیے خطرناک ہے. اگر ان کو سرکار کا کوئی کام حقیقت میں اچھا لگتا ہے تو انہیں اپنی رائے ضرور رکھنی چاہئے، اس میں کچھ بھی برا نہیں ہے لیکن کسی کام تعریف آپ اسی وقت ہی کریں جب آپ کو اس کے لیے پیسے کی پیشکش ہو تو کسی بھی صورت میں اس کا جواز نہیں نکالا جا سکتا. اسے تو اپنے فالوورس کو گمراہ کرنے کے مترادف ہی مانا جائے گا. کیوں کہ پبلک سب کچھ دیکھ رہی ہے، اس کے دماغ میں کسی آئیڈیالوجی کو تھوپنا ہی غلط ہے اور بات جب پیسے لے کر تھوپنے کی آجائے تو اس سے بری بات اور کچھ نہیں ہو سکتی. ورنہ جن کے پاس بھی پیسے آ جائیں وہ اپنے ان پیسوں کے سہارے پبلک سے کوئی بھی کام کروا لے جائیں. پھر سوچئے ہمارے ملک میں عوام کے ذریعے حکومت چنے جانے کی بات کیا صرف ایک دعوی بھر نہیں رہ جائے گی!! اور جب ان پیسوں کا اتنے بڑے پیمانے پر لین دین قانونی طریقے سے (بنک کے ذریعے) نہ ہو کر غیر قانونی طریقے سے ہو تو کالا دھن کا رونا پھر کس بات کا. جمہوریت کا جنازہ تو صرف اسی ایک بات سے اٹھ جاتا ہے. آپ ذرا سوچئے کہ کیا اس طریقے سے ہمارے ملک میں جمہوریت سو سالہ جشن بھی منا پائے گی یا اس سے پہلے ہی کسی ڈکٹیٹر کے ہاتھوں کا کھلونا بن جائے گی؟
کوبرا پوسٹ کے اسٹنگ آپریشن کے بعد کوئی قانونی کارروائی ہو یا نہ ہو، میڈیا اسے پرائم ٹائم ڈبیٹ نہ سہی ایک عام ڈبیٹ بھی بنائے یا نہ بنائے، ہم کیا کر سکتے ہیں، اس پر ضرور غور کیجئے. اگر کچھ نہیں تو کم از کم اتنا تو کر سکتے ہیں کہ ہم میں سے جو لوگ بھی غیر قانونی کاموں میں ملوث ان ضمیر فروش فنکاروں کو کسی بھی سوشل سائٹس پر فالو کرتے ہیں، وہ سب سے پہلے انہیں ان فالو (unfollow) کریں. بس اسی ایک عمل سے ان تک پیغام پہنچ جائے گا کہ انہوں نے کتنی بڑی غلطی کر دی ہے اور وہ اب تک کس طرح کے مغالطے کا شکار تھے.
*ریسرچ اسکالر، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ،لکھنؤ کیمپس.