دنیا کے پینتالیس ممالک کا سروے کروایا گیا تاکہ یہ پتا چلایا جائے کہ رُوئے زمین پر کون زیادہ دور اندیش ہے۔
پتہ چلا کہ ہمارا نمبر پینتالیس واں ہے۔ دور اندیشی کے حوالے سے جرمن قوم پہلے نمبر پر ہے۔ اس سروے کی بنیاد اُن پینتالیس ارب سوالات کو بنایا گیا جو مختلف ممالک کے لوگوں نے گوگل پر جا کر ٹائپ کیے اور ان کے جوابات جاننا چاہے۔
میں تصور کر سکتا ہوں کی ہمارے ملک میں کس طرح کے سوالات گوگل پر ٹائپ کر کے انکے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ اور یہ کہ ہمارے ہاں انٹرنیٹ اور کمپوٹر کے استعمال سے کیا مراد ہے۔
اس رائے پر میں حیران ہوں کہ ہم دور اندیشی میں دنیا کی درجنوں ممالک سے پیچھے ہیں حالانکہ ہمارے ہاں تو ہر گلی محلے میں ایک سے ایک بڑھ کر دانشور پایا جاتا ہے۔ بس انہیں اپنے گھر کے مسائل کا کوئی حل نہیں سوجھتا، باقی ساری دینا کو تو وہ مشوروں سے نوازتے رہتے ہیں۔ میرے گرو، عامر متین اکثر بتاتے رہتے ہیں کہ ان کے ایک غیر ملکی صحافی دوست جب پاکستان آتے ہیں تو اس بات پر حیرانی کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اس ملک کا ہر بچہ سیاستدان ہے اور خود کو دنیا کے ہر معاملے میں اتھارٹی سمجھتا ہے۔ جتنی سازشوں اور تھیوریوں کے بارے میں وہ جانتا ہے اتنی تو دنیا بھر کے چھ ارب انسانوں کے ذہنوں میں بھی نہیں آ سکتیں۔
اھر ہم دور اندیش ہوتے تو کیا افغانستان کی جنگ میں کودتے اور امریکہ اس ایک ٹھیکہ لے کر اپنی نسلوں کو تباہ کرا بیٹھتے؟ جنرل ضیاء الحق نے امریکی امداد لینے سے یہ کہہ کر ناکار کر دیا تھا کہ بہت کم ہے۔ آج ہمیں فخر سے بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے یہ کہہ کر امداد مسترد کر دی تھی کہ جناب! یہ تو مونگی پھلی کے برابر ہے۔ مراد تھی کہ ہمارا پیٹ بڑا ہے کہٰذا کوئی بڑا مال کھلاؤ۔ مطلب تھا کہ ہمیں نوٹ دکھاؤ تاکہ ہمارا موڈ بنے۔ مال بڑھا تو ہم نتائج و عواقب کا کا ادراک کیے بغیر اس جنگ میں کُود گئے۔ کسی نے یہ سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی کہ اگر سوویت یونین ٹوٹ گیا تو اس کے بعد دنیا کا نقشہ کیا ہو گا اور مسلمانوں کا کیا بنے گا؟ سرد جنگ کے باوجود دنیا میں طاقت کا جو ایک توازن قائم ہے وہ اگر بگڑ گیا تو ہم کیا کریں گے؟
یہی سوال میں نے ایک ٹی وی پروگرام میں جنرل صاحب سے پوچھا، آپ کے پاس افغانستان کی جنگ میں کوئی پلان بی بھی تھا۔ تو موصوف نے مجھے فخر سے طعنہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ بُزدل پلان بی بناتے ہیں، بہادر تو پلان اے لے کر چلتا ہے۔ مطلب یہ تھا کہ اس وقت کوئی سوچ بچار نہیں کی گئی تھی کہ روس کے ٹوٹنے کے بعد کیا ہو گا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا اور ہم آج تک اُسی امریکہ سے جوتیاں کھا رہے ہیں اور پوری مسلم دنیا کو دہشت گرد قرار دیا جا چکا ہے۔
یہ ہے ہماری دور اندیشی۔
ہم دور اندیش ہوتے تو کیا ہم امریکہ کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد وہاں اپنا کھیل شروع کرتے اور ایسے گروپوں کی حمایت کرتے جو آخر کار نہ صرف اپنے لیے تباہی لائے بلکہ پاکستان کا رخ کیا اور اس کا امن بھی تباہ کر دیا۔ حالت یہ ہے کہ پاکستان میں پچھلے ایک سال میں چوالیس ڈرون حملے ہو چکے ہیں۔
ہماری منافقت، معاف کیجیے، دور اندیشی کا حال دیکھیں کہ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے سامنے پاکستانی وزارتِ خارجہ نے جمعہ کے روز ایک رپورٹ پیش کی جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اس کے پاس ڈرون حملوں کے کوئی اعداد و شمار نہیں ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وزارتِ خارجہ کے افسران نے اندازے سے بتانے کی کوشش کی کہ پاکستان پر کتنے ڈرون حملے ہوئے۔ اسی طرح اندازے سے بتایا گیا کہ ان حملوں میں کُل کتنے لوگ مارے گئے اور ان میں کتنے دہشت گرد اور کتنے معصوم لوگ تھے۔
اسی طرح اس اور دور اندیشی ملاخطہ فرمائیں کہ اس حوالے سے پیش کردہ دستاویزات میں ایک طرف بتایا گیا ہے کہ ڈرون حملوں کی وجہ سے چھبیس سو دہشت گرد مارے گئے ہیں جن کا تعلق القاعدہ سے تھا اور جن سے پاکستان کو خطرہ لاحق تھا۔ دوسری طرف انہی دستاویزات میں امریکی ڈرون حملوں کی مذمت بھی کی گئی ہے۔ دور اندیشی کا یہ عالم ہے کہ تاحال یہ فیصلہ نہیں ہو سکا کہ ڈرون حملے ہمارے لیے سود مند ہیں یا نقصان دہ۔
داد دیں ان سیننٹرز کو جنہوں نے وزارتِ خارجہ کے افسران سے یہ سوال نہیں کیا کہ آپ ہمارے سامنے ایک امریکی تھنک ٹینک کی ویب سائٹ پر سے اعداد و شمار نکال کر لے آئے ہیں کہ پاکستان پر کتنے حملے ہوئے ہیں اور کتنے لوگ مارے گئے ہیں۔ جب آپ کو خود پتہ نہیں تو ہمیں کیا بتائیں گے؟ ہم دن رات ڈرون حملوں پر شور مچاتے ہیں اور دوسرے جانب صورت حال یہ ہے کہ ہمارے پاس ان حملوں اور ان میں مرنے والوں کے ٹھیک ٹھیک اعداد و شمار تک موجود نہیں۔ اس سے زیادہ دور اندیش قوم اور کون ہو سکتی ہے؟
ایک اور دور اندیشی: حکومت ختم ہونے میں ایک ماہ رہ گیا ہے اور دنیا اخبار کے انویسٹی گیشن رپورٹر آفتاب میکن نے انکشاف کیا ہے کہ وزارتِ پٹرولیم کے مشیر ڈاکٹر عاسم اور انکے ایک مینجنگ ڈائریکٹر اپنے لیے کروڑوں روپے کی بُلٹ پروف گاڑیاں منگوا رہے ہیں۔
ایک اور دور اندیشی ملاخطہ فرمائیںکہ اس ملک میں صرف گیارہ لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں اور باقی اٹھارہ کرور بیٹھ کر کھاتے ہیں جبکہ وہی اٹھارہ کروڑ دن رات یہ واویلا کرتے نہیں تھکتے کہ ان سے زیادہ اور کوئی مظلوم نہیں اور یہ کہ حکمرانوں نے انہیں بھکاری بنا دیا ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں لوگ ٹیکس دیے بغیر سب سہولتیں حاصل کرنے کے متمنّی ہیں۔ اس سے بڑھ کر دور اندیشی کیا ہو سکتی ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ دنیا بھر کے لوگ دن رات کام کریں، کمائی کریں۔ اپنی اس کمائی میں سے ٹیکس دیں اور پھر ان ٹیکسوں سے ان ملکوں کی حکومتیں ہمیں قرضے اور امداد دیں۔ ہمیں تعلیم کے لیے امداد دیں، صحت کے لیے قرضے دیں، دیگر اخراجات پورے کرنے کے لیے امداد دیں اور ہم اربوں ڈالرز کے ان قرضوں کو ہڑپ کر جائیں اور ایک دوسرے کو چور چور کہتے رہیں۔ اگر کوئی ملک ہم سے اس رقم کے استعمال کا حساب مانگے یا آڈٹ کا مطالبہ کرے تو ہم لٹھ لے کر اس پر چڑھ دوڑتے ہیں کہ آپ کو ہم پر اعتبار نہیں جو آپ یہ سوال اٹھا رہے ہیں؟۔ آپ ہمیں بے ایمان سمجھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم بھکاری ہو کر بھی اپنی شرائط پر دنیا سے معاملات چلانا چاہتے ہیں۔ ہم امداد لینا بھی چاہتے ہیں اور آنکھیں بھی دکھاتے ہیں۔
اگر کوئی ملک ہماری امداد بند کرنے کا سوچے بھی کہ یہ بد عنوان لوگوں کا معاشرہ ہے اور امداد کا پیسہ یا فائدہ عوام تک نہیں پہنچتا کیونکہ سیاستدان اور سول و ملٹری بیوروکریسی سب کچھ کھا جاتی ہے، تو پھر ہم ان ملکوں کو ڈراتے ہیں کہ اگر ہمارے امداد بند کی گئی تو ہمارے طالبان آپ کو کھا جائیں گے اور پورا ملک طالبان بن جائے گا۔ بقول میرے ایک لاہوری صحافی دوست کے ہم دنیا بھر کو اپنے طالبان سے ڈرا کر مال بٹور رہے ہیں۔ دنیا فاختہ کہ طرح دن رات محنت کرتی ہے اور ہم کوّے کی طرح بیٹھ کر انڈے کھاتے ہیں اور ابھی تک دنیا سمجھتی ہے کہ ہمارے اندر دور اندیشی نہیں ہے۔
دنیا کو ہمارے طریقہ واردات کا علم ہی نہیں اس لیے سروے کرنے یا کرانے والے ہمیں دور اندیش ملکوں کی فہرست میں آخر پر رکھتے ہیں۔ ہمیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے، وہ پانی محنت کی کمائی سے ہمیں مال کھلاتے رہیں، چاہے ہمیں دور اندیشی کی دوڑ میں اوّل رکھیں یا آخر۔
وہ ہمیں دور اندیش نہیں سمجھتے رو ہم بھی انہیں بے وقوف سمجھتے ہیں، فرق صرف سوچنے کا ہے، کیا فرق پڑتا ہے!!
http://dunya.com.pk/index.php/author/rauf-kalsra/2013-02-10/1866/79287427#.VzFTPIR95dg