ہماری امی مرتب شعیب حیدر
اپنے باقی بھائی بہنوں کے تعاون کے ساتھ عزیزم شعیب حیدر نے ’’ہماری امی مبارکہ حیدر‘‘کے نام سے ایک کتاب مرتب کی ہے۔اس پر ڈاکٹر انورسدیدصاحب نے تبصرہ کیا ہے۔یہ تبصرہ روزنامہ نوائے وقت لاہور کے ۱۴ جون ۲۰۱۵ء کے سنڈے میگزین میں شائع ہوا ہے۔اس کا انٹرنیٹ لنک یہاں پیش کر رہا ہوں۔
http://sunmag.nawaiwaqt.com.pk/ePaper/lahore/2015-06-14/page-20
یہ کتاب بہت جلد انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہو گی۔انشاء اللہ۔
حیدر قریشی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری امی
تبصرہ نگار:ڈاکٹر انورسدید
معروف شاعر،نقاد،افسانہ نگار اور ادبی صحافی حیدر قریشی کے پانچ بیٹے بیٹیوں نے جو ان کے ساتھ جرمنی میں آباد ہیں،ایک انوکھا کتابی کارنامہ انجام دیا ہے اور خود انکشاف کیا ہے کہ’’یہ کتاب جو ہماری امی کے ذکر پر مشتمل ہے،ہم پانچ بھائی بہنوں کی جانب سے امی کے ساتھ اظہار محبت کی ایک صورت ہے۔‘‘انوکھی بات یہ بھی ہے کہ ان بچوں میں سے کسی نے اپنی امی کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں لکھا۔اس کی وجہ ظاہر ہے کہ ان بچوں میں سے کوئی ایک بھی ادیب نہیں بناحالانکہ حیدر قریشی اور ان کی بیگم مبارکہ حیدر نے ان کے ذوقی مشاغل پر کبھی قدغن نہیں لگائی اور ان کی تعلیم کے دوران اپنی لائبریری ان کی دسترس میں رکھی۔لیکن اتفاق کچھ یوں ہوا کہ سب بچوں نے ادبی زندگی اختیار کرنے کی بجائے فعال عملی زندگی کو ترجیح دی۔وہ اچھے ادب کی پہچان بھی رکھتے ہیں،اس کا ثبوت زیرِ نظر کتاب ہے جو ان پانچ بچوں نے حیدر قریشی کی مختلف کتابوں کے اقتباسات سے مرتب کی ہے۔جرمنی کی آزاد فضا میں جب انہیں احساس ہوا کہ مبارکہ بیگم نے کیسی کیسی مشکلات میں حیدر قریشی کا ساتھ دیااور اپنی تمام تر مادری محبت ان پر نچھاور کر دی تو ایک بیٹا شعیب حیدر کہہ اُٹھا:’’ امی نے ساری زندگی ابو کے ہر دکھ سکھ میں ساتھ نبھایا ہے۔ اگر ابو کی زندگی کو پورے پس منظر کے ساتھ دیکھیں توہمارے سماج نے ان کے ساتھ شدید نا انصافیاں کی ہیں جن کے نتیجہ میں انہوں نے بے شمار دکھ جھیلے ہیں ۔ امی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ہر دکھ میں مکمل طور پرابو کا ساتھ نبھایا ہے۔‘‘ایک مشرقی عورت ہونے کے ناتے مبارکہ بیگم کے بے لوث محبت کے عمل نے حیدر قریشی کو سرشار رکھااور انہوں نے جب بھی قلم اُٹھایا تو موقع اور محل کے مطابق اپنی بیگم کا ذکر اس سلیقے سے کیا کہ مبارکہ بیگم کا کردار مثبت خطوط پر ابھرتا چلا گیااور حیدر قریشی بھی اس الزام کی زد میں نہ آسکے کہ وہ جورو کے غلام ہیں۔اس کی مثال ان کا خاکہ ’’پسلی کی ٹیڑھ‘‘ہے جوڈاکٹروزیر آغا کے رسالہ ’’اوراق‘‘میں شائع ہوا تھاتو حیدر قریشی نے اسے اپنی اہلیہ کی یادوں سے ہی سجایا تھااور انہیں بیوی کی بجائے ایسے مخلص ترین دوست کادرجہ دیا تھاجو بدخواہوں سے ورغلایا نہیں جا سکتا۔
اب یہ بتانا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب حیدر قریشی کی تحریروں سے مرصع کی گئی ہے اور وہی اس کے بنیادی اور اولین مصنف ہیں۔میں کہہ سکتا ہوں کہ’’ہماری امی‘‘اپنی نوعیت کی اولین کتاب ہے جس کی ترتیب و تدوین پر حیدر قریشی کے بچے مبارک باد کے مستحق ہیں۔سرورق پر مبارکہ حیدر کی تصویر ہے۔یہ تصویر ان کی اپنی ہے لیکن سرپر ٹوپی حیدر قریشی کی ہے جو ان کے’’سرتاج‘‘ہیں۔اعلیٰ کاغذپر چھپی ہوئی یہ کتاب96 صفحات پر مشتمل ہے۔قیمت150 روپے۔ملنے کا پتہ عکاس انٹرنیشنل پبلی کیشنز،مکان نمبر1164 ،گلی نمبر2 ،بلاک سی، اسلام آباد
مطبوعہ روزنامہ نوائے وقت لاہور۔سنڈے میگزین۔14 جون 2015 ء
“