قافلہ دس تاجروں پر مشتمل تھا۔ کچھ کے کنبے بھی ساتھ تھے۔ اونٹوں پر تجارتی سامان تھا۔ مسافر بیل گاڑیوں پر سوار تھے۔ دو منزلوں کے بعد کچھ گھڑسوار نوجوان بھی قافلے میں شامل ہو گئے۔ دو دِن اس قافلے نے ایک بڑے شہر کے نواح میں پڑائو کیا۔ وہاں تین شخص ملے جن کی منزل وہی تھی جہاں قافلے نے جانا تھا۔ ان میں سے دو ادھیڑ عمر تھے اور ایک نسبتاً نوجوان۔نوجوان ہندو تھا اور باقی دو مسلمان۔ خوش اخلاق‘مودّب اور نرم گفتار۔ انہوں نے قافلے کے امیر سے بات کی کہ وہ تین اکیلے سفر کریں گے تو ڈاکوئوں کے ہاتھوں مارے جائیں گے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر انہیں بھی قافلے میں شامل کر لیا جائے۔ امیر نے اپنے ساتھیوں سے سے مشورہ کیا اور انہیں شامل کر لیا۔
یہ تینوں افراد حسنِ اخلاق کا نمونہ تھے ۔جہاں کسی خاتون یا بزرگ کو کوئی کام پڑا‘ یہ دوڑ کر اُس کی خدمت میں مصروف ہو گئے۔ جہاں پڑائو ہوتا‘یہ خیمے لگاتے‘ راتوں کو پہرہ دیتے‘اگر شہر دور ہوتا تو اشیائے خورو نوش بھی یہی لاتے۔ کنوئوں سے پانی کے مشکیزے لاتے۔ ان میں سے ایک قصّہ گوئی میں بھی طاق تھا۔ خواتین اور بچّوں کو داستان سناتا تو سماں باندھ دیتا۔ دو ہفتے گزرے تو یہ پورے قافلے کی جان بن گئے۔ اکثر قافلے کے امیر اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ کھانا کھاتے۔ کئی دفعہ امیر نے انہیں بھاری رقم دے کر شہر بھیجا‘ کیا مجال جو ایک دمڑی کی کمی بیشی بھی کی ہو۔ ہر مسافر اپنے سامان‘اپنی قیمتی اشیا اور اگلے پڑائو کے بارے میں ان سے ضرور مشورہ کرتا۔
یہ جھٹپٹے کا وقت تھا۔سارا دن چل چل کر سب کا تھکاوٹ کے مارے برا حال تھا ۔دریا کاکنارہ نظر آیا۔ وسیع میدان۔پانی وافر‘یہیں پڑائو کرنے کا فیصلہ ہوا۔نصف کو س کے گھیر میں بیل گاڑیاں‘ اونٹ اور گھوڑے پھیل گئے۔ جس نے جو جگہ مناسب سمجھی‘خیمہ نصب کر لیا۔قافلے کے امیر کا‘ جو ایک خوشحال تاجر تھا‘خیمے کا رُخ دریا کی طرف تھا۔ کھانا کھانے کے بعد امیر قالین پر لیٹ گیا۔ اُن تین میں سے ایک شخص اندر آیا ‘ امیر اُٹھ بیٹھا‘آنے والے نے پوچھا‘میں سونے لگا تھا لیکن پھر سوچا کہ آپ سے پوچھ لوں کوئی کام تو نہیں‘ وہ امیر کی پشت پر کھڑا تھا۔ بجلی کی تیزی سے اس نے اپنے کندھے سے ریشمی رومال اتارا ‘امیر کے سر کے اوپر سے اُس کے گلے میں ڈالا اور رومال کے دونوں سروں کو پیچھے سے کس کر مروڑ نے لگ گیا۔ امیر کو چیخنے کا وقت بھی نہ ملا۔ اس نے پورے زور سے رومال کو کسا‘امیر گر پڑا‘اُس کے ہاتھ زور لگانے سے شل ہو رہے تھے لیکن اُس نے اُسی وقت گرفت ڈھیلی کی جب امیر کے مرنے کا یقین ہو گیا۔ اُس نے امیر کی کمر کے ساتھ بندھی ہمیانی سے سونے کے سکّے اور جواہرات نکال لیے‘ باقی دو بھی اپنے اپنے شکار کو مار چکے تھے۔ اُن کے پانچ اور ساتھی اِس دریا کے پاس پہلے سے انتظار کر رہے تھے۔ یہ قافلے کے ساتھ ساتھ‘ ایک دو کوس کے فاصلے پر سفر کرتے رہے تھے اور جہاں پڑائو ہوتا‘ قریبی شہر یا قصبے کے بازار میں اپنے اجلاس منعقد کر لیتے‘دریا کے کنارے والا پڑائو‘آخری پڑائو قرار دیا گیا‘آٹھ ٹھگوں نے کمال مہارت سے پورے قافلے کو ٹھکانے لگایا۔ ان میں سے ایک گورکن تھا۔تدفین کے بعد‘ہموار’’قبروں‘‘ کے اوپر چولہے بنا کر لکڑیاں جلائی گئیں‘ اب کسی کو شک نہیں ہو سکتا تھا کہ یہاں زمین کھودی گئی ہے۔
یہ تھا اُن رسوائے زمانے ٹھگوں کا طریقِ واردات جنہوں نے انیسویں صدی کی پہلی تین دہائیوں میں تقریباً پورے ہندوستان کو آماجگاہ بنایا ہوا تھا۔ خوف و ہراس کا یہ عالم تھا کہ لوگ ضروری سفر کرنے سے بھی گھبراتے تھے۔طریقِ واردات ایسا تھا کہ مسلّح محافظ بھی بے بس تھے۔ رومال یا پگڑی واحد ہتھیار تھا۔ چرب زبانی ایسی کہ ہوشیار سے ہوشیار مسافر بھی اعتبار کر لیتا۔ایک اندازے کے مطابق بیس لاکھ اور ایک اور حساب کی رو سے ایک لاکھ مسافر مارے گئے۔ بہرحال ‘تعداد جو بھی تھی‘تجارت جامد ہو گئی تھی۔ قافلے رک گئے تھے اور ہر شخص دوسرے سے خائف رہنے لگا تھا۔
1828ء میں ولیم بنٹنگ ہندوستان کا گورنر جنرل مقرر ہوا۔ اُس نے ٹھگوں سے نمٹنے کا فیصلہ کیا اور ایک سول سرونٹ ہنری سِلیمن کو ‘ جو سابق جرنیل بھی تھا‘ اس مہم پر مامور کیا۔ اس مہم کو کامیاب کرنے کے لیے انگریز حکومت نے سائنسی بنیادوں پر کام کیا اور چار خاص تکنیک استعمال کیں۔ اوّل ‘ ہر پولیس چیف اور انتظامی سربراہ نے اپنے پڑوسی ضلع یا ریاست کو اپنے علاقے کے ٹھگوں کے طریقِ واردات اور دیگر تفصیلات سے پوری طرح آگاہ رکھا۔ یوں ہندوستان بھر میں مسافر خبردار ہو گئے ۔ دوم ۔ بڑے بڑے مجرموں کو ’’سلطانی گواہ‘‘ بنا کر خفیہ معلومات حاصل کر لی گئیں۔ سوم۔ ایسی مستعد پولیس فورس کھڑی کی گئی جس کی مثال خود برطانیہ میں نہ تھی۔ ٹھگی کا باقاعدہ محکمہ بنا اور مخصوص عدالتیں قائم کی گئیں۔ سفارش کا کوئی تصّور ہی نہ تھا۔ چہارم جاسوسی کا ایسا جال بچھایا گیا کہ ٹھگ بے بس ہو گئے۔ حملوں کا وقت‘تکنیک‘ ٹھگوں کی تعداد‘ ان کے حلیے‘واردات کے بعد ان کا طرزِ عمل اور آبادیوں سے گریز۔ان اطلاعات نے پولیس کا کام آسان کر دیا۔اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ ٹھگ صرف تاریخ میں باقی رہ گئے۔ ولیم بنٹنگ اور ہنری سِلیمن کا نام بھی تاریخ میں زندہ ہے لیکن ہیرو کے طور پر!!
آج ہم اہلِ پاکستان کو بالعموم اور اہلِ پنجاب کو بالخصوص اُسی صورتِ حال کا سامنا ہے۔ ٹھگوں کے بجائے ڈاکوئوں نے زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ کسی کی کار محفوظ ہے نہ موٹر سائیکل نہ گھر‘ نہ سازو سامان ‘ نہ جان نہ عزت! امیر ہے یا غریب کروڑ پتی ہے یا مڈل کلاس‘ دکاندار ہے یا سرکاری ملازم‘ ڈاکٹر ہے یا صحافی‘ غیر محفوظ ہے۔ شروع شروع میں یہ تاثر تھا کہ بھتہ خور اور اغوا کار قبائلی علاقوں سے ہیں لیکن اب ہر کوئی اس میں شامل ہے۔ سابق سفیر اور کالم نگار جاوید حفیظ کے گھر ڈاکہ ڈالنے والے آزاد کشمیر سے تھے۔ سلیم صافی اور خورشید ندیم دونوں اپنی اپنی گاڑیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ گلی کوچوں کے سِروں پر زنجیریں بندھی ہیں۔ پرائیویٹ گارڈ مہّیا کرنا اربوں کا بزنس بن چکا ہے۔ پولیس کے افسر بے بس ہیں اور اہلکار ڈاکوئوں کے ساتھی۔ دن ہو یا رات‘ شام ہو یا دوپہر یا صبح‘کسی بھی گھر میں ڈاکو گُھس آتے ہیں ‘ اہلِ خانہ کو رسیوں سے باندھتے ہیں‘ آرام سے تلاشی لیتے ہیں ‘سامان باندھتے ہیں‘ کچن میں چائے بنا کر پیتے ہیں اور اطمینان سے چل دیتے ہیں۔ لاہور‘ فیصل آباد‘ گوجرانوالہ‘ راولپنڈی‘ ڈاکوئوں کے لیے جنت بنے ہوئے ہیں‘ انہیں معلوم ہے کہ پولیس ساری کی ساری وی آئی پی ڈیوٹی پرمامور ہے! وفاقی دارالحکومت سے اوسطاً تین یا چار گاڑیاں روزانہ چرائی جا رہی ہیں ۔ لاہور میں یہ تعداد کہیں زیادہ ہے۔ اِس ’’کاروبار‘‘ کے پھلنے پھولنے کا یہ عالم ہے کہ خریدار کار چوروں کو باقاعدہ ’’آرڈر‘‘ دیتے ہیں کہ فلاں ماڈل کی فلاں کار یا پجارو درکار ہے!
ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنا ہو گی کہ حکومت‘ وفاقی ہے یا صوبائی‘ ہماری کوئی مدد نہیں کر سکتی۔ اس کا سبب خدانخواستہ یہ نہیں ہے کہ حکومت نا اہل ہے یا غافل۔ ایسی کوئی بات نہیں۔حکومت کی مجبوری یہ ہے کہ وہ مصروف ہے۔ ڈاکوئوں ‘کار چوروں اور اغوا کاروں کے استیصال سے کہیں زیادہ اہم فرائض ہیں جن کی انجام دہی میں حکمران پھنسے ہوئے ہیں۔ اہم ترین کام یہ ہے کہ ‘انہوں نے پاکستان کو ترکی بنانا ہے۔ اس کے لیے آئے دن ترکی جانا اور اپنے ملک میں رہ کر ترک وزیروں افسروں تاجروں سے ملنا ازحد ضروری ہے۔ پھر بھارت میں کوڑے کرکٹ کو کھپانے والے کارخانوں اور دہلی کی میٹرو ریل کا مطالعہ ہے۔ شہروں میں میٹرو بسوں کے منصوبے ہیں جو ڈاکوئوں کے کام آئیں گے کیونکہ شہری تو اغوا ہو رہے ہیں یا لُٹنے کے بعد گداگر بن رہے ہیں اور گداگر میٹرو بسوں میں سوار نہیں ہوا کرتے۔ اس کے علاوہ ایک اور ضروری پراجیکٹ وفاقی کابینہ میں پنجاب کی نمائندگی کو ستّر فیصد سے بڑھا کر پچانوے فیصد کرنا ہے۔سندھی وزیروں کے مستعفی ہونے کے بعد یہ کام زیادہ ایمرجنسی کے ساتھ سر پر آن پڑا ہے۔زیادہ تر نوجوان لیپ ٹاپ ڈاکے مار کر حاصل کر رہے ہیں‘ جو رہ گئے ہیں انہیں لیپ ٹاپ حکومت نے مہیا کرنے ہیں۔پھر طالبان کا مسئلہ ہے جس میں حکومت الجھی ہوئی ہے۔ مذاکرات کرنے ہیں یا آپریشن، اس سوچ بچار میں کم از کم پندرہ سے بیس سال لگیں گے‘ یہ کوئی آسان مسئلہ نہیں کہ پانچ سات مہینوں میں فیصلہ ہو جائے۔
تو پھر ہم عوام کیا کریں؟ہمارے لیے ایک ہی حل رہ جاتا ہے کہ برطانوی حکومت سے فریاد کریں کہ ولیم بنٹنگ اور ہنری سِلیمن کی آل اولاد کو ہمارے ڈاکوئوں کے سدِّباب کے لیے بھیجے۔ولیم بنٹنگ اور ہنری سلیمن کے پڑپوتے ہماری آخری امید ہیں۔حکومت ہمیں ڈاکوئوں کا غلام بنانا چاہتی ہے لیکن اس سے بہتر ہے کہ ہم اپنے سابق آقائوں کے پڑپوتوں کے غلام بن جائیں۔