ہمارے معاشرے کی خاور مانیکائی کہانیاں
ہمارے ہاں کسی کو بھی تھوڑا سا اقتدار و اختیار مل جائے تو وہ خدا بننے کی کوشش میں لگ جاتا ہے۔
مارچ 1989 کی بات ہے جب میں فوجی فرٹیلائزر ماچھی گوٹھ صادق آباد سے اپرنٹس لیبارٹری انالسٹ کا دو سالہ کورس مکمل کرنے کے بعد لاہور کی ایک کیمیکلز فیکٹری جس میں نہانے کا صابن اور ٹائروں وغیرہ میں استعمال ہونے والا میٹیریل بنتا تھا ، میں شفٹ انچارچ لیب انالسٹ بھرتی ہو گیا۔ تنخواہ ایک ہزار چار سو بیس روپے لگی غنیمت جانا کہ گھر بیٹھنے سے کہیں بہتر ہے لہذا پوری دیانتداری سے اپنے کام میں جت جانے کی نیت سے اپنے پروفیشن کا کر دیا۔ پہلے پہل تو پتلون بشرٹ پہن کر فیکٹری جاتا رہا۔ چونکہ کپڑے دھونا کھانا پکانا وغیرہ سب خود کرنا پڑتا تھا جو کافی دقت اور وقت طلب کام ہوتا ہے لہذا کاہلی آڑے آنے لگی اور فیکٹری میں دوسرے لوگ بھی شلوار قمیض میں ڈیوٹی پر آ جاتے تھے سو میں بھی ایک دن قومی لباس میں فیکٹری چلا گیا ڈیوٹی آف کر کے مین گیٹ سے نکل رہا تھا کہ ایک باریش سیکیورٹی گارڈ میرے قریب آیا اور میری بدن تلاشی شروع کر دی۔ میرے جسم کو اپنے ہاتھوں سے اچھی طرح ٹٹولا۔ میں اس غیر متوقع اور غیر مانوس تلاشی پر پہلے حیرت زدہ ہوا بعد میں نالاں ہوا۔ سیکیورٹی اہلکار کو ذرا سلیقے سے سمجھانے کی کوشش کی کہ آئندہ میری جامہ تلاشی سے گریز کرے۔ میں یہاں نوکری کرنے آتا ہوں چوری کرنے نہیں۔ وہ صاحب بولے کہ یہ مالکوں کا حکم ہے۔ میں نے کہا جو بھی ہو آپ لوگ میری باڈی سرچ نہ کیا کریں۔ اس مکالمے کے دوران ان صاحب کو میرے چہرے پر یقینا غصہ نظر آیا ہو گا جس کے نتیجہ میں سیکیورٹی والوں نے مجھ آنکھ رکھ لی۔ میری حرکات و سکنات نوٹ کی جانے لگیں۔ میں نے لیبارٹری انچارچ صاحب کو دو ایک بار صورتحال بتائی کہ یہ لوگ تنگ کر رہے ہیں لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوا۔
ایک صبح گیٹ پر خام کاسٹک سوڈا کا ٹینکر آیا۔ طریقہ کار کے مطابق سکیورٹی والوں نے لیبارٹری میں فون کیا ٹینکر کا سیمپل لینے اور کوالٹی چیک کرنے کے لیے۔ اتفاق سے میں اپنے دونوں کولیگز کے ساتھ مین ہال میں پروڈکٹس کوالٹی اور پیکنگ چیک کرنے گیا ہوا تھا۔ لیبارٹری انچارچ ساڑھے آٹھ بجے آتے تھے لہذا لیب تقریبا دس سے پندرہ منٹ کے لیے خالی تھی۔
میں واپس آیا تو فون کی گھنٹی بج رہی تھی میں نے فون اٹھایا فون کرنے والے نے چھوٹتے ہی پنجابی میں گرجتے ہوئے کہا " (او توں کتھے ہوندا ایں) " تم کہاں ہوتے ہو میں صبح سے فون کر رہا ہوں"
میں نے بھی جواب میں کہہ دیا کہ میں نے گھنٹی سنی تو فون اٹھا لیا مجھے کیا پتہ تم کہاں فون کر رہے تھے۔ میں نے ٹینکر سیمپلنگ کے لیے اپنے کولیگ کو بھیجا۔ اسی اثنا میں فون کرنے والا بندہ لیبارٹری میں آ گیا مجھے دیکھتے ہی کہا کہ جی ایم(جنرل مینجر) کے فیکٹری آنے پر وہ مجھے سیدھا کروائے گا آج۔ میں نے کہا تم گیٹ پر اپنی ڈیوٹی کرو جی ایم آ جائے تو کر لینا جو کر سکو۔ بھلا ہو اس کا چلا گیا۔ میں نے اپنا استعفی لکھا اور کاپی میں رکھ کر جی ایم کے آنے کا انتظار کرنے لگا۔ تقریبا نو سوا نو بجے صاحب فیکٹری میں داخل ہوئے۔ فیکٹری کا چکر لگاتے ہوئے جونہی اپنے دفتر پہنچے میں حاضر ہو گیا اپنا استعفی ان کی میز پر رکھ کر عرض گزار ہوا کہ میرا حساب کتاب کروا کر جو چند سو روپے بنتے ہیں مجھے عنایت کر دئیے جائیں۔ انہوں نے مجھے کرسی پر بیٹھنے اور اپنا مسئلہ بیان کرنے کا کہا۔ میں نے سارے واقعات بیان کر دئیے اور کہا کہ آج ایک صاحب لیبارٹری میں آ کر مجھے آپ کے نام کی دھمکی دے گئے ہیں تو میں نے سوچا کہ اب مجھے یہاں سے نکل جانا چاہئے میں ایسے ماحول میں کام نہیں کر سکتا۔ اتنے میں ہمارے لیب انچارچ صاحب بھی ہانپتے ہوئے وہاں پہنچ گئے جی ایم صاحب نے انہیں بھی میرے سامنے سنا ڈالیں اور سکیورٹی آفیسر کو فون کیا اور کہا کہ فورا ان کے آفس آئیں مجھے میرا لکھا ہوا کاغذ تھمایا اور فرمایا کہ آئندہ کوئی ایسی شکایت ہو تو اس کاغذ کے بغیر ان کے دفتر آوں۔ میں واپس اپنے کام پر آ گیا اطمینان کا سانس لیا کہ بچ گئے استاد۔
تقریبا آدھے گھنٹے کے بعد سکیورٹی والے لوگ باری باری میرے پاس آئے اور کہا کہ میں خواہ مخواہ ناراض ہو گیا تھا اور یہ کہ میں ان کے لیے چھوٹے بھائیوں جیسا ہوں وغیرہ وغیرہ
اس دن سے فیکٹری ملازمین کی جامہ تلاشی بند ہو گئی
میں سوچ رہا تھا کہ اگر جامہ تلاشی مالکوں کا آرڈر تھا تو جی ایم کو کیوں معلوم نہیں تھا اور دوسری بات کہ یہ لوگ مجھ سے معافیاں مانگنے کیوں آئے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔