پاکستان کی سیاست میں بائیں بازو کی سیاست اپنی آواز کو بھرپور طریقے سے بلند کرتی نظر نہیں آرہی۔ اس پر صرف یہ دلیل دے دینا کافی نہیں کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ترقی پسند سیاست بری طرح متاثر ہوئی اور پھر وہ لوگ جو کبھی ترقی پسند سیاست میں سرگرم تھے، انہوں نے ترقی پسند سیاست میں سرگرم رہنے کی بجائے این جی اوز میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کردیا۔ سرد جنگ کے خاتمے کو تین دہائیاں ہوچکیں، ان تین دہائیوں میں نئے ترقی پسند لوگوں نے کیوںکر جنم نہ لیا؟ درج بالا جو سوال میں نے اٹھایا ہے، اس کی لاتعداد وجوہات ہیں۔ شروع دن سے ریاستی جبر سے لے کر سماج میں رجعت پسندوں کی ریاستی پذیرائی اور دیگر لاتعداد مسائل، لیکن اس وقت میں سردجنگ کے بعد اور سابق ترقی پسندوں کے ایک بڑے کیڈر کے این جی اوز میں کھپ جانے کی بجائے چند ایک دوسرے نکات پر بات کروں گا۔ بعد ازسرد جنگ نکات پاکستان میں جن لوگوں اور چھوٹے گروپس نے اس بحرانی دور میں جدوجہد کی، اُن کی تعداد بہت محدود اور ہمت بہت زیادہ ہے کہ انہوں نے اس نظریاتی بحران کے دور میں بھی ترقی پسند سیاست کا پرچم سربلند کیے رکھا۔ مگر ان میں ایک بڑی تعداد درحقیقت نئے سیاسی وسماجی حالات کی تجزیہ کرنے کی بجائے چند ایک پرانی نظریاتی بحثوں میں الجھے رہے اور متعدد بدلتے سیاسی و سماجی حالات کے مطابق نیا سیاسی تجربہ پیش کرنے میں ناکام رہے۔ اس معاملے کا تعلق اُن کی دانش سے ہے، یوں وہ درحقیقت اپنے محدود مطالعے کے سبب اپنی فکر اور نظریے کو بدلتے حالات میں ڈھالنے میں نااہل ثابت ہوئے۔ ان میں ایسے ترقی پسند دانشور بھی موجود ہیں جنہوں نے 9/11 کی دہشت گردی کے بعد امریکہ کو ایک روشن خیال حقیقت مان کر اس کی طرف داری کی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے ترقی پسند دانشور بھی دیکھنے اور پڑھنے کو ملے جنہوں نے طالبان کو سامراج مخالف قرار دے کر اُن کے اندر سامراج دشمنی اور طبقاتی جدوجہد کے امکانات پیش کیے۔ذرا غور کریں کس قدر نظریاتی بحران کہ ایک ترقی پسند طبقہ امریکہ کو نئے حالات میں ترقی پسندوں کا اتحادی تصور کرنے لگا اور انہی میں سے دوسرا طبقہ طالبان کو سامراج مخالف قرار دینے لگا۔ وہ ترقی پسند تعداد میں کم ہی تھے جنہوں نے اپنا موقف اپنے تجزیے کی درستی میں پیش کیا۔ جو ترقی پسند امریکہ بہادر کو بدلے عالمی حالات میں اپنا اتحادی سمجھنے لگے، وہ ترقی پسندی سے روشن خیالی کی طرف مراجعت کرگئے۔ اور جو طالبان کے اندر سامراج دشمنی تلاش کررہے تھے، جن کی تعداد برائے نام تھی، وہ اپنے کیے پر پچھتانے لگے۔
بحران کیا ہے؟ جیسا کہ درج بالا سطور میں عرض کیا ہے، بحران فکری ونظریاتی ہے۔ اس بحران کا سبب محدود مطالعہ اور سماج میں مشاہدے کی محدود نظر ہے۔ اسی لیے آج بچے کھچے ترقی پسند طبقے کا ایک حصہ قومی دھارے کی سیاست میں مسلم لیگ (ن) کی سیاست کا طرف دار ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ترقی پسند دھڑے کے زیادہ تر لوگوں کو تعلق پنجاب سے ہے۔ انسانی حقوق کی علمبردار عاصمہ جہانگیر مرحومہ کی انسانی حقوق کی جدوجہد اپنی مثال آپ ہے۔ لیکن اسے ترقی پسندوں کی تحریک اور رہبر تصور کرلینا ایک بچگانہ فعل ہے اور عملاً اپنی کمزوری کا اظہار ہے کہ خود کچھ کرنے کے اہل ثابت نہ ہوئے تو دوسروں کی جدوجہد کو اپنی جھولی میں ڈال لو۔ عاصمہ جہانگیر صاحبہ کا تعلق روزِاوّل سے کسی جماعت سے نہ تھا، مگر ترقی پسندوں کا ایک بڑا حلقہ اُن کو اپنے سیاسی رہبر کے طور پر پیش کرتا ہے۔ یہ ایک کمزور تحریک اور لوگوں کا رویہ ہے۔ دراصل یہ ترقی پسندوں کی ناکامی بھی ہے کہ وہ خود تو کچھ نہ کرسکے اور اگر کسی فرد نے انفرادی طور پر انسانی حقوق کی جدوجہد کی تو اسے اپنی جھولی میں ڈال لو۔ عاصمہ جہانگیر ایک آزاد فرد کے طور پر موقف اپناتی تھیں اور اُن کا موقف اُن کے ادارے HRCP کے ایجنڈے کے مطابق ہوتا تھا، اسی لیے ان کو ترقی پسند یا سوشلسٹ لیڈر کے طور پر اپنی جھولی میں ڈال لینا کمزور لوگوں کا اظہار ہے۔ اگر ترقی پسند کامیاب ہوتے تو ایسا نہ کرتے۔
سردجنگ کے بعد سامراج دشمنی سے دستبرداری، ان ترقی پسندوں کی بڑی ناکامی ہے۔ اسی لیے عام لوگوں نے اُن دہشت گردوں کو سامراج دشمن مان لیا، جنہوں نے اپنی رجعت پسندی کو طاقتور کرنے کے لیے دہشت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ جنہیں امریکی سامراج نے ہی سرد جنگ میں پیدا کیا اور سرد جنگ ختم ہونے کے بعد ان کو کھلا چھوڑ دیا اور یوں وہ بالواسطہ وہ کارروائیاں کرنے لگے۔ جن کی دہشت کا ہوّا کھڑا کرکے امریکی سامراج نے عالمی سیاست کو اسلاموفوبیا کا شکار کرنا تھا اور ان دہشت پسندوں نے اپنی جہالت کو حریت پسندی جانا۔ مگر اس سارے منظرنامے میں ترقی پسند خاموش کھڑے نظر آتے ہیں۔ اب وہ دوسروں کے کندھوں پر رکھ کر بندوق چلانے کے عادی ہوتے چلے گئے۔ ذرا غور کریں کہ 2006-07 کی وکلا تحریک جس کی تمام تر بُنت اور اس کے نتائج سماج وریاست میں رجعت پسندی پھیلانے کے سوا کچھ نہ کرسکے۔ ایسے میں ترقی پسندوں کا ایک بڑا دھڑا اس تحریک کے اندر سے سرخ تحریک پھوٹنے کے خواب دیکھتا رہا۔ اسی لیے ان نااہل ترقی پسندوں نے وکلا تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، یعنی یہاں بھی اپنا موقف پیش کرنے میں ناکامی دکھائی۔ 2013ء کے بعد عمران خان کی مقبولیت کے بعد اور خصوصاً پچھلے چار سالوں میں مسلم لیگ (ن) کی اقتدار میں شرکت پر طاقتور لوگوں کے ساتھ محاذآرائی پر ان ترقی پسندوں نے نواز شریف کسی ترقی پسند لیڈر کا چہرہ تلاش کرنا شروع کردیاہے۔
عملی سیاست میں یقینا اس حوالے سے اس سے ملتا جلتا کچھ موقف اپنا یا جاسکتا تھا، لیکن یہ ناکام ترقی پسند چوںکہ اپنا فکری، نظریاتی تجزیہ پیش کرنے میں ناکام ہیں، اس لیے میاں نوازشریف کو اسٹیبلشمنٹ کا مخالف قرار دے کر اسے ترقی پسندی قرار دینا ان کے لیے آسان ہے۔ اگر یہ ترقی پسند، کسان، مزدورطبقات، سامراج ، اردگرد کے حالات اور بدلتی عالمی سیاست پر بھرپور تجزیہ کرنے کے اہل ہوتے تو اپنا کوئی سیاسی موقف پیش کرتے، جو وہ نہیں کرسکے۔ انہی ترقی پسندوں میں ایک محدود طبقے نے کرپشن کو موضوعِ سیاست سمجھ کر عمران خان کا ساتھ دینے کی راہ اپنا لی۔ میرے کئی ترقی پسند دوست مسلم لیگ (ن) کے موقف کے حامی اور متعدد پاکستان تحریک انصاف کے حامی۔ جب فکری زوال ہوتو ایسی ناکام تحریکیں اور دانشور یونہی تقسیم ہوتے ہیں۔ اگر سرد جنگ کے بعد ترقی پسند اپنا موقف، نظریہ، فکر پاکستان کے زمینی حقائق کے مطابق پیش کرنے میں کامیاب ہوتے تو یقینا وہ ایک طاقتور آواز ہوتے جس میں سرفہرست سامراج دشمنی اور کسان، مزدور اور درمیانے طبقے کے حوالے سے جدید ترقی پسند افکار کی آبیاری لازمی تھی۔ ان ترقی پسندوں نے این جی اوز کے سیمیناروں کے بطن سے سماجی وعوامی فکرکے چشمے پھوٹنے کے خواب دیکھے جوکہ ساری کی ساری ایک نئی بابو کلاس ہے۔ پاکستان میں ترقی پسند سیاست کا بحران ابھی اور بڑھے گا۔ یہ دوسروں کے مورچوں کے اندر داخل ہوکر لڑنے کے خواہاں ہیں۔ خصوصاً سندھی قوم پرستوں اور پشتون قوم پرستوں کے مورچوں کے اندر۔ اور ان قوم پرستی کی تحریکوں کا تجزیہ کیا جائے رو وہ اس قدر تنگ نظر قوم پرستی کی تحریکیں ہیں کہ اُن کے اندر کسی بھرپور طبقاتی تحریک کا پھوٹنا یوٹوپیائی بات ہے۔
ایران جوکہ ایک مذہبی ریاست ہے، جو لوگ اس ملک کی اندرونی سیاست سے آگاہ ہیں، اگر وہاں اس جبر کے ماحول میں بھی ترقی پسند فکر کو تلاش کیا جائے تو حیران کن حقائق دیکھنے کو ملیں گے۔ اسی طرح عرب دنیا یعنی لبنان، مصر، شام اور عراق سمیت دیگر چند ایک ممالک میں۔ ترکی میں ترقی پسند سیاسی تحریکیں کسی بھی مسلمان ملک سے کہیں بڑی ہیں۔ مگر ہمارے ہاں ترقی پسند تحریک کا وجود چند افراد اور اُن کے محدود گروہوں تک ہے۔ ہمارے ترقی پسندوں کی ایک ناکامی یہ بھی ہے کہ وہ فلسفیانہ طرزِفکر کو عوامی فکر میں ڈھالنے میں ناکام ثابت ہوئے۔ لاہور کی بورژوا یونیورسٹیوں میں تو ایسے ترقی پسند مفکر آپ کو نظر آئیں گے، لیکن لاہور کے درمیانے طبقے کے محلوں میں اُن کا وجود معدوم ہے۔ روشن خیالی کے سرمایہ دارانہ جزیروں میں یا یوں کہہ لیجئے کہ سرمایہ داروں کے روشن خیال جزیروں میں پناہ لیے یہ ترقی پسند دانشور تو اب آپ کو ’’سرگرم‘‘ نظر آتے ہیں مگر یہ دانشور عوام کی زبان میں بات کرنے کے فن سے ناآشنا ہیں۔ عوام کی زبان استعمال کرنے کے لیے اُن کے پاس اب تین سیارے ہیں، مسلم لیگ (ن)، پی ٹی آئی یا پی پی پی۔ مگر اپنے پلے کچھ نہیں۔
“