روم کے پاکستانی سفارت خانے میں کلام پاک کے دو اڑھائی سو نسخے پڑے تھے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ پاکستان سے بھیجے گئے ہیں تاکہ تقسیم کیے جائیں۔ میں نیپلز چلا گیا جہاں مجھے اقتصادی تعلیم کے ایک ادارے میں چھ ماہ قیام کرنا تھا۔ ایک دن ایک مصری رفیق کار نے پوچھا کیا تمہارے پاس قرآن پاک کا ایک زائد نسخہ ہے جو تم مجھے دے سکو؟ میں نے بتایا کہ میرے پاس تو ایک ہی ہے لیکن میں تمہیں روم میں پاکستانی سفارت خانے سے منگوا دیتا ہوں۔ سفارت خانے کو خط لکھا۔ تین ماہ گزر گئے کوئی جواب نہ آیا۔ اس اثنا میں روم جانا ہوا۔ سفارت خانے جا کر معلوم کیا تو بتایا گیا کہ ہاں خط تو مل گیا تھا۔ اب آپ آ گئے ہیں تو نسخہ لیتے جایئے۔
یہ واقعہ تیس سال پہلے کا ہے۔ ان تین دہائیوں میں ہمارے سفارت خانوں کی کارکردگی کہاں جا پہنچی ہے؟ اس کا اندازہ دو دن پہلے کی خبر سے لگایئے۔ متحدہ عرب امارات میں ہزاروں پاکستانی پریشان ہیں کیوں کہ سفارت خانہ ان کے پاسپورٹ نہیں جا ری کر رہا۔ یہ پریشان حال پاکستانی انتظار کر کر کے تھک گئے ہیں۔ اس کا حل سفارت خانے نے یہ نکالا ہے کہ نئے پاسپورٹوں کے لیے مزید درخواستیں وصول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ وہ لوگ تو پریشان تھے ہی، جو پاسپورٹوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ اب صف میں وہ پاکستانی بھی شامل ہو گئے ہیں جو درخواست دینا چاہتے ہیں اور ان کی درخواستیں نہیں لی جا رہیں۔
سفارت خانے کا موقف یہ ہے کہ دس ہزار پاسپورٹ پہلے ہی معرض التوا میں ہیں۔ مزید درخواستیں کیسے وصول کی جائیں!
اب حسن انتظام کی ایک اور جھلک دیکھیے۔ متحدہ عرب امارات کے ممتاز اخبار روزنامہ ”گلف نیوز“ نے اس معاملے کی تفتیش کی تو اس التوا کی وجہ بہت دلچسپ نکلی۔ جو اہلکار سفارت خانے میں اس کام پر مامور تھا اس کا تبادلہ ہو گیا۔ اسے حکم ملا کہ فوراً اسلام آباد رپورٹ کرے۔ وہ چلا گیا۔ اسلام آباد سے اس کا نعم البدل نہیں دیا گیا۔ سفارت خانہ یاد دہانیاں کراتا رہا لیکن شنوائی نہیں ہوئی۔ جانے والا اہلکار کسی کو وہ ”پاس ورڈ“ بتا کر نہیں گیا جس کے ساتھ وہ کمپیوٹر کا ڈیٹا اسلام آباد بھیجتا تھا کیونکہ پاسپورٹ اسلام آباد سے بن کر آتے تھے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ درخواست دہندگان کے اعداد و شمار اور اطلاعات سفارت خانے میں پڑے ہیں۔ انہیں کمپیوٹر کے ذریعے اسلام آباد بھیجنے والا کوئی نہیں۔ عارضی طور پر سفارت خانے نے یہ حل نکالا ہے کہ ختم شدہ پاسپورٹوں کی مدت 45 دنوں کے لیے بڑھا دی ہے تاکہ ایمرجنسی میں حامل پاسپورٹ سفر کر سکے‘ لیکن ظاہر ہے یہ مستقل حل نہیں ہے۔ عام درخواست کے نتیجے میں پاسپورٹ دو ہفتوں میں بن کر آ جانا چاہیے۔ فوری درخواست، جس کی فیس زیادہ ہوتی ہے، ایک ہفتے میں پاسپورٹ دلوا سکتی ہے۔جن درخواست دہندگان نے ارجنٹ فیس دی ہوئی ہے وہ بھی ڈیڑھ ماہ سے انتظار کر رہے ہیں۔
اس تازہ ترین کارکردگی میں عبرت کے کئی سامان ہیں۔ جس اہلکار کے قبضے میں ”پاس ورڈ“ کا جادو تھا، اگر اس کا اسلام آباد تبادلہ نہ ہوتا تب بھی، انسان ہونے کے حوالے سے وہ بیمار پڑ سکتا تھا یا خدانخواستہ کسی حادثے کا شکار ہو سکتا تھا۔ اس صورت حال میں سفارت خانہ کیا کرتا؟ اور الزام کس پر ڈالتا؟ سیدھی سی بات ہے اور پبلک ایڈمنسٹریشن کا بنیادی اصول ہے کہ آپ کسی ایک اہلکار پر مکمل انحصار نہیں کر سکتے۔ آپ کو ہر وقت اس کا نعم البدل تیار رکھنا چاہئے۔ سفارت خانے کا فرض تھا کہ ایک اور اہلکار کو بھی اس کام کی تربیت دی جاتی تاکہ کسی بھی وقت وہ صورت حال کو سنبھال لیتا اور فرائض کی انجام دہی میں تعطل پیدا نہ ہوتا۔
رہا سوال، اسلام آباد کے اس حکم کا کہ جس اہلکار کا تبادلہ ہو گیا ہے وہ فوراً اسلام آباد پہنچے تو سفیر صاحب کس مرض کی دوا ہیں؟ آخر وہ ہائی لیول پر کیوں نہیں بات کر سکتے کہ جب تک نعم البدل نہیں آ جاتا، متعلقہ اہلکار کو فارغ نہیں کیا جا سکتا۔ سبحان اللہ! کیا حسن انتظام ہے اور کیا دور اندیشی ہے۔ آپ متحدہ عرب امارات میں سفارت خانہ چلا رہے ہیں جہاں پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد آباد ہے۔ ایک تو آپ اتنے حساس کام کے لیے صرف ایک اہلکار پر انحصار کر رہے ہیں۔ کسی دوسرے کو ایمرجنسی کے نقطہ نظر سے تیار نہیں کر رہے، پھر اسے بھی آپ تبادلہ کا حکم آنے پر فوراً فارغ کر دیتے ہیں! نتیجہ ظاہر ہے! سینکڑوں متاثرین سفارت خانے کے باہر جمع ہو کر احتجاج نہ کریں تو آخر کیا کریں؟ مقامی اخبارات کے لیے اپنے صفحات کا پیٹ بھرنے کا اس سے بہتر موقع کیا ہوگا!
گر ہمیں مکتب و ہمیں مُلاّ
کارِ طفلاں تمام خواہد شُد
لیکن یہ معاملے کا صرف ایک رخ ہے! اگر دوسرا رُخ نہ دیکھا جائے تو انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے۔ سفارت خانوں پر اور پوری وزارت خارجہ پر سیاسی اور عسکری بھرتیوں نے جس طرح یلغار کی ہوئی ہے، اس کے پیش نظر سفارت خانوں کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ متحدہ عرب امارات کے سفارت خانے میں متعین سفیر اور اہلکار پیشہ ورانہ کیڈر سے تعلق رکھتے ہیں یا پچھلے دروازے سے داخل ہوئے ہیں لیکن مجموعی طور پر وزارت خارجہ بھٹو صاحب کے شاہانہ دور سے لے کر آج تک جس دار و گیر کا نشانہ رہی ہے، اس کا نتیجہ وہی نکلنا تھا جو آج قوم بھگت رہی ہے۔ ہمارے دوست، سابق سفیر جناب جاوید حفیظ بتا چکے ہیں کہ انہیں ایک ملک سے اس لیے نکلنا پڑا کہ وہاں اس وقت کے حکمران کے قریبی عزیز کو سفیر لگنا تھا۔ یہ کالم نگار ایک بار وسط ایشیا کے ایک ملک میں گیا۔ وہاں بھی حاکم وقت نے ایک ایسے صاحب کو تعینات کیا ہوا تھا جو اس شعبے سے ناواقف تھے اور ان کا زیادہ وقت گالف کے سبزہ زار میں گزرتا تھا۔ اس دردناک موضوع پر ایک دلچسپ بحث کچھ عرصہ قبل حکومت پاکستان کے ”پے اینڈ پنشن کمشن“ کے ایک اجلاس میں ہوئی۔ یہ مشرف صاحب کا سنہری زمانہ تھا۔ ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ پے اینڈ پنشن کمشن کا سربراہ تھا۔ ارکان میں ایک نجی بنک کے ایگزیکٹو بھی تھے جو زیادہ وقت اپنے متعدد موبائل فونوں کو جیبوں میں نکالنے اور دوبارہ جیبوں میں ٹھونسنے پر صرف کرتے تھے۔ ایک دن وزارت خارجہ نے اپنے مسائل بیان کرنے تھے اور اپنے الاﺅنسوں میں اضافے کی درخواست کرنا تھی۔ ایک سینئر افسر وزارت خارجہ کی نمائندگی کر رہے تھے۔ بحث ہو رہی تھی۔ اچانک نجی بنک سے تعلق رکھنے والے رکن نے انگڑائی لی۔ اپنے متعدد موبائل فون میز پر رکھے اور بہت ناز و ادا سے وزارت خارجہ کے نمائندے سے پوچھا کہ آخر بھارت کی وزارت خارجہ اور بھارتی سفارت خانوں کی کارکردگی اتنی بہتر کیوں ہے؟ ہم ان سے پیچھے کیوں رہ گئے؟
اجلاس میں سناٹا چھا گیا۔ بہت اہم اور دلچسپ سوال تھا۔ تاہم وزارت خارجہ کے نمائندے نے جو جواب دیا وہ سوال سے زیادہ دلچسپ نکلا۔ اس نے کہا کہ جناب! بھارت کے مقابلے میں اس تنزل کی دو وجوہ ہیں۔ اول…. بھارتی وزارت خارجہ کے فیصلے، بھارتی وزارت خارجہ کے اندر ہی ہوتے ہیں! ان کی خارجہ پالیسی کسی اور جگہ نہیں طے ہوتی! دوم…. بھارتی وزارت خارجہ میں سیاسی اور ”دوسری“ بنیادوں پر تقرریوں کا یہ حشر نہیں برپا جو ہمارے ہاں ہو رہا ہے!
اجلاس پر چھایا ہوا سناٹا اور گہرا ہو گیا۔ سوال کرنے والے صاحب دوبارہ اپنے متعدد موبائل فونوں سے کھیلنے لگ گئے!