بڑے شہروں کے ہنگاموں سے دُور، شنکیاری کے بے پناہ خوبصورت علاقے میں رہنے والے طویل قامت شاعر محمد حنیف نے یہ شعر یقینا ایک عام پاکستانی کیلئے کہا ہے…؎
کوئی انساں کبھی بے خواب نہیں رہ سکتا
ہر کسی آنکھ میں کچھ خواب ہوا کرتے ہیں
باسٹھ سالوں سے بے خواب رہنے والے عام پاکستانی کے خواب سچے ثابت ہونگے یا خدانخواستہ احمد فراز نے بھی اُسی عام پاکستانی کیلئے کہا تھا…ع
خواب جھوٹے خواب تیرے میرے خواب بھی!
پیپلزپارٹی سے تیر کھا کر عوام مسلم لیگ نون کی طرف امید بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور آنکھوں میں مزید تیر پیوست ہو جاتے ہیں۔ خاندانی حکمرانی کی حفاظت پر کمربستہ احسن اقبال یہ کہتے ہوئے ذرا بھی جھجک نہیں محسوس کرتے کہ جاوید ہاشمی اور خواجہ سعد رفیق نے غلط کیا۔ آخر کیا غلطی کی ان دونوں نے؟ یہی کہ سترھویں ترمیم کی شق نمبر چار کو ختم کرنے کی مخالفت کی جو سیاسی پارٹیوں کے اندر انتخابات کرانے سے متعلق تھی!
خلقِ خدا کو خوش گمانی تھی کہ وقت کے اُس ٹکڑے نے جو ابتلا کی صورت میں گِرا تھا،میاں صاحبان کو بدل ڈالا ہوگا۔ خدا کی قسم اگر میاں صاحبان بدل جاتے تو اس ملک کے عوام کی قسمت بدل جاتی لیکن سوئی کے سوراخ سے اونٹ نکل سکتا ہے، ہتھیلی پر بال اُگ سکتے ہیں، اِس ملک کے اہلِ سیاست دو کام نہیں چھوڑ سکتے۔
مالی معاملات میں دھاندلی اور میرٹ کا قتل! پنجاب حکومت کے اطلاعات کے ملازم کہیں اور کام کر رہے تھے، خبر چھپی تو تردید کردی گئی اور اب جب اخبارات نے دہائی دی کہ از کار رفتہ ریٹائرڈ لوگوں کو بھاری تنخواہوں پر بڑی بڑی ملازمتیں دی گئی ہیں تو پنجاب حکومت کے ترجمان نے بے نیازی بلکہ رعونت کے ساتھ ’’وضاحت‘‘ کی کہ ’’اہل‘‘ لوگوں کو قواعد میں ’’نرمی‘‘ کرکے رکھا گیا ہے۔
چھیاسٹھ چھیاسٹھ برس کے ریٹائرڈ اہل کار جن پر پہلے ہی کئی قسم کے الزامات ہیں صوبے کے خزانے پر اور بھُوکے مرتے عوام کے سروں پر بٹھا دیئے گئے ہیں اور ’’عوامی مفاد‘‘ میں رکھے گئے یہ سارے افلاطون ایک خاص علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک صاحب جو ریٹائرمنٹ کے بعد پنجاب بنک کے سربراہ بنائے گئے تھے، اب وہاں سے ہٹا کر پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ممبر لگا دیئے گئے ہیں تاکہ مزید تین سال ’’لگا‘‘سکیں۔
جس بیوروکریٹ کی گاڑی نے ایک ریٹائرڈ کرنل کو ہلاک کیا تھا اور عوام کی آنکھوں میں دُھول جھونکنے کیلئے اُسے اپنے عہدے سے ہٹایا گیاتھا، اُسے اب پنجاب بنک کا سربراہ بنا دیا گیا ہے‘ جہاں مراعات لارڈ مائونٹ بیٹن کو دی گئی مراعات سے بھی زیادہ ہیں۔ کیا یہ ادارے جاگیریں ہیں؟ جن پر کسی طریق کار کے بغیر اپنی پسند کے لوگوں کو لگایا جا رہا ہے اور یہ ساری کرم فرمائیاں ایک خاص حلقے کیلئے ہیں۔
صوبے کے دور افتادہ اضلاع کے ساتھ حسنِ سلوک کا یہ عالم ہے کہ ایک گائوں کی ڈسپنسری کیلئے دو ملین روپے نہیں دیئے جارہے۔ اسی لئے تو محروم علاقے الگ صوبوں کے مطالبے کرتے ہیں۔ اگر صوبائی حکومت کی نوازشات ایک خاص جغرافیائی دائرے سے باہر نہ نکلیں تو یہاں دو نہیں دو سے زیادہ صوبے بنیں گے اور پھر مرکز میں بھی تو یہی کچھ ہو رہا ہے۔ وہاں بھی تعیناتیاں پسند کے لوگوں کی کی جا رہی ہیں مطلب ظاہر ہے، اگر مرکز کو پنجاب پر اختیار مل گیا تو پنجاب میں یہی کچھ ہوتا رہے گا جو اب ہو رہا ہے اور اگر پنجاب پر حکومت کرنے والوں کو مرکز کے اختیارات مل گئے تو مرکز میں بھی یہی کچھ ہوگا جو اب صوبے میں ہو رہا ہے۔ لیکن قصہّ جو یہ کالم نگار سنانے لگا تھا، اور ہے…؎
ابھی سے کیوں طنابیں بحر و بر کی کھنچ گئی ہیں؟
ابھی تو واقعہ میں نے سنایا ہی نہیں ہے
چند برس پہلے کا واقعہ ہے۔ حج کے ایام تھے۔ ابھی منیٰ کے خیمے آباد نہیں ہوئے، مکہ مکرمہ کے ایک ہوٹل میں ایک میاں بیوی مقیم ہیں۔ ان کا ایک دوست، جس سے خاندانی تعلقات ہیں، ملنے آتا ہے۔ وہ پاکستانی سفارت خانے کے اُس دفتر میں ملازم ہے جو جدّہ میں واقع ہے۔وہ پریشان ہے اور آشفتہ حال۔ بے بس اور پراگندہ خاطر۔ قلق اس کے چہرے سے عیاں ہے۔
پاکستان سے ایک کھرب پتی وزیر آتا ہے اور سفارت خانے کو ’’حکم‘‘ دیتا ہے کہ ننگے پائوں طواف نہیں کرسکتا۔ مجھے چمڑے کی جرابیں بہم پہنچائی جائیں، دو جوڑے جرابوں کی قیمت نوے ریال بنتی ہے‘ جو وہ خود ادا نہیں کرتا‘ سفارت خانہ ادا کرتا ہے۔ پھر وزیراعظم آتا ہے۔ اُسے کراچی میں بتایا جاتا ہے کہ راستے میں میقات پڑیگااس لئے احرام باندھ کر جہاز میں بیٹھئے لیکن وہ ایسا نہیں کرتا۔ وہ جدّہ پہنچتا ہے۔ سفارت خانہ سرکاری خزانے سے احرام خریدتا ہے اور وہ عمرہ ادا کرتا ہے۔ بتانے والا پریشان ہے کہ اس قسم کے کام ہیں جو اُسے کرنے پڑتے ہیں۔
سال اس لئے نہیں لکھا جارہا کہ غالباً وہ پراگندہ خاطر شخص اب بھی ملازمت میں ہے اور یہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے! یہاں یوں بھی ہمیشہ اونٹوں کے بجائے لومڑیوں کو پکڑا جاتا ہے۔ حالانکہ سعدی شیرازی مستقبل کے معاملات سے ناآشنا تھے!
لیکن اب یہ سلسلہ ایک راوی اور سننے والے ایک میاں بیوی کی روایت پر نہیں موقوف…؎
میرے چُپ رہنے کی عادت جس کارن بدنام ہوئی
اب وہ حکایت عام ہوئی ہے، سنتا جا شرماتا جا
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ برائے سال 2008-09ء قومی اسمبلی کے سامنے تین مئی 2010ء کو پیش کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں ارکان اسمبلی کو بتایا گیا ہے۔
’’وزیراعظم پاکستان اور انکے ہمراہ جانیوالا وفد سعودی عرب میں 16 دسمبر سے لے کر 23دسمبر 2007ء تک ٹھہرا۔ ان حضرات نے ’’دَم‘‘ دینا تھا۔ اس مقصد کیلئے سفارت خانے نے قربانی کے پچاس کوپن خریدے۔ اس پر سرکاری خزانے کے انیس ہزار پانچ سو ریال خرچ ہوئے۔ وفد کے ارکان اس کے حق دار نہیں تھے۔‘‘
حج کے دوران اگر کوئی غلطی ہو جائے تو تلافی کیلئے ’’دَم‘‘ دینا پڑتا ہے یعنی ایک جانور کی قربانی۔ وفد نے اور وفد کے سربراہ وزیراعظم پاکستان نے ’’غلطی‘‘ یہ کی کہ میقات سے احرام باندھے بغیر گزر گئے! اس لئے کہ احرام تو سفارت خانے نے سرکاری خزانے سے خرید کر دینے تھے۔ جہاز میں سوار ہوتے وقت ان قلاشوں بھِک منگوں کے پاس احرام تھے ہی نہیں آڈٹ رپورٹ میں مزید رونا یہ رویا گیا ہے کہ ان مستحقین کیلئے سفارت خانے نے سرکاری خزانے سے احرام کی چادریں، عجوہ کھجوریں اور آبِ زم زم بھی خریدا جس پر مزید چونتیس ہزار ریال خرچ کئے گئے۔ عجوہ وہ کھجور ہے جو سب سے زیادہ مہنگی ہے۔ یعنی ڈاکہ مار کر کھجوریں بھی وہ خرید والی ہیں جو گراں ترین ہیں!
آداب بجا لایئے۔ جُھک جایئے۔ فرشی سلام کیجئے۔ یہ ہمارے رہنما ہیں! چلے جارہے ہیں‘ ننگ دھڑنگ بدن پر چیتھڑا تک نہیں!
http://columns.izharulhaq.net/2010_05_01_archive.html
“