ہمارے معاشرے کے زندہ سوال
ہمارے ملک پاکستان کے بڑھتے ہوےُ مسائل اور کم ہوتے وسائل کا ضمیدار کون ہے؟ پانی بجلی گیس اور خوراک کی کم ہوتی پیداوار اور غربت بیماری بے روزگاری کے اسباب کیا ہیں؟ آخر یہ مسائل آسمانی خدا کا عزاب ہے. یا پھر ہماری جہالت اور غیر زمیداری کا ثمر ؟ کیا ہماری زندگی کے بڑھتے ہوےُ مسائل مسجدوں اور درگاہوں میں سجدے پٹخنے اور اجتماعی دعائوں سےحل ہو سکتے ییں. یا پھر ان مسائل کو حل کرنے کے لئے اجتماعی محنت اور ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے؟ یہ وہ زندہ سوال ہیں جن کو جانے بغیر ہم اپنی زندگی کے مسائل حل نہیں کر سکتے اور نا ہی اپنے معاشرے میں کوئی بہتری لا سکتے ہیں. مگر بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہماری جوان نسل ان زندہ سوالوں کو سمجھنے کے بجاےُ عشق اور رومان پروری کے خبصورت خیال پرستی میں دلچسپی رکھتی ہے. جن کو حال سے بے خبر رہنے میں ہی مزہ اتا ہے اور ہمارا دانشور طبقہ خدا ہے اور نہیں ہے کی بحثوں میں الجھا پڑا ہے. کیا لوگوں کو خدا کا اقرار یا انکار کروا کر ہمارے حالات بدل سکتا ہے ؟ اور ہمارے مزہبی اور دینی اسکالر ماضی میں لکھی کتابوں کے تضادات کو سلجھانے میں مگن ہیں کہ گویہ عبادت کا درست طریقہ کیا ہے. فرض کریں اگر لوگ عبادت کے درست طریقے پر متفیق ہوبھی جاےُ تو کیا لوگوں کے حالات بدل جاےُ گے؟ جبکہ ہمارے سائنسدان مسقبل کی ایجادات کی ریسرج میں سرکھپا رہے ہیں. مگر ان کو اس سے مطلب نہیں کے اس ترقی سے عام انسان کو فیض پہنچے گا بھی کہ نہیں؟ دیکھا جاےُ تو ہر طبقہ حال سے ہی بےخبر نظر آتا ہے. کوئی ماضی کی تو کوئی مسقبل کی خیال پرستانہ باتوں میں الجھا بڑا ہے مگر کوئی شخص حالات بدلنے کے لئے عملی جدوجہد کرنے کو تیار نہیں. جس سے مسائل کے حل نکلنے والے ہیں. ہم جب تک اپنے مسائل حل نہیں کر سکتے جب تک ہم ماضی اور مستقبل کی ان خیال پرستانہ بحثوں سے باہر نہیں آجاتے. جن میں ہم اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں. اور دشمنی اور نفرت کے سوا کچھ بھی تعمیر نہیں کر پا رہے ہیں ہم کو عقائد کو نیجی بنا کر ان بحثوں پر فل اسٹاپ لگانا ہوگا. اور زندگی کے زندہ مسائل حل کرنے کے لئے سر جوڑ کر غور و فکر کرنی ہوگی.
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔