مسلمان ملکوں کے بارے میں جو غلط فہمیاں آج کل کی دنیا میں پائی جاتی ہیں ان میں سرفہرست غلط فہمی جمہوریت کے حوالے سے ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ بیسیوں مسلمان ملکوں میں سے صرف ترکی، پاکستان، ایران، ملائیشیا اور انڈونیشیا ہی میں صحیح معنوں میں انتخابات ہوتے ہیں اور باقی سارے ممالک میں آمریت کا بھوت ناچ رہا ہے لیکن حقیقت اسکے برعکس ہے۔ دنیا بھول جاتی ہے کہ مصر میں مکمل جمہوری نظام ہے۔ جناب حسنی مبارک نے جمہوری عمل کے نتیجے ہی میں صدارت سنبھالی اور 1981ء سے یعنی گزشتہ انتیس برس سے صدارت سنبھالتے چلے آ رہے ہیں۔ انکی صدارت کا یہ تسلسل ایک مکمل انتخابی عمل کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوتا ہے۔ محمد علی پاشا کے بعد وہ مصر کے طویل ترین عرصہ تک ریاست کے سربراہ رہنے والے شخص ہیں۔ 1987ئ، 1993ء اور پھر 1999ء میں صاف شفاف غیر جانبدار ریفرنڈم کے نتیجے میں مصری عوام نے حسنی مبارک کو صدر منتخب کیا۔ اب اگر مقابلے میں کوئی کھڑا نہیں ہوتا تھا تو اس میں حسنی مبارک کا کوئی قصور نہیں تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ مصری آئین ایک امیدوار کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو صدارتی انتخابات میں کھڑا ہونے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ دشمنوں کو منہ توڑ جواب دینے کیلئے جناب حسنی مبارک نے پارلیمنٹ کو حکم دیا کہ وہ آئین کو تبدیل کرے۔ چنانچہ 2005ء میں ترمیم کے ذریعے مخالف امیدواروں کو صدارت الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی۔ الیکشن ہوئے تو ڈاکٹر ایمان نور کے مقابلے میں حسنی مبارک جیت گئے۔ مخالفوں نے دھاندلی کا الزام لگایا اور دعویٰ کیا کہ سرکاری وسائل بے دردی سے استعمال ہوئے۔ ووٹ خریدے گئے، غریب ووٹروں کو روپیہ اور سرکاری ملازموں کو دھمکیاں دی گئیں لیکن جب ڈاکٹر نور ایمان ’’جعل سازی‘‘ کے جرم میں پکڑے گئے اور پانچ سال کی قید بامشقت کی سزا اُن کا مقدر بنی تو سب لوگوں کو یقین آ گیا کہ مصر میں انتخابات حقیقی اور اصلی تھے۔ ہاں، یاد آیا کہ الیکشن کے بعد ڈاکٹر ایمان نور نے دھاندلی کا شور مچایا تو اسکے بعد ہی انکی جعل سازیاں منظر عام پر آئیں۔ آج بیاسی سالہ صدر حسنی مبارک حقیقی اور اصلی جمہوریت کا جیتا جاگتا نمونہ ہیں، ہمیں نہیں معلوم کہ اُنکی سلامتی اور انکے اقتدار کی صحت کیلئے ہر روز ایک کالے بکرے کا صدقہ دیا جا رہا ہے یا نہیں!
شام، مسلمان ملکوں میں بہاریں دکھلاتی جمہوریت کا ایک اور خوبصورت پھول ہے۔ ایک پاکیزہ اور پُرامن بغاوت کے نتیجے میں جنرل حافظ الاسد برسر اقتدار آئے۔ یہ 1970ء کی بات ہے۔ ایک سال بعد انہوں نے ریفرنڈم منعقد کرا کر جمہوریت کے پودے کو نیا اور تازہ پانی دیا۔ ریفرنڈم میں 99.2 فیصد عوام نے فیصلہ صادر کیا کہ حافظ الاسد موزوں ترین صدر ہیں انکے مقابلے میں کوئی نہیں تھا۔ یہ سلسلہ جاری رہا۔ یہاں تک کہ دسمبر 1991 میں عوام نے چوتھی بار اُنہیں صدر رہنے پر مجبور کیا۔ جوں جوں صدر حافظ الاسد بڑھاپے کی طرف بڑھ رہے تھے یہ غم انہیں کھائے جا رہا تھا کہ اُنکے بعد جمہوریت کے اس تناور درخت کو پانی کون دیگا؟ چنانچہ انہوں نے اپنے بڑے فرزند باصل الاسد کو اپنا جانشین نامزد کیا لیکن کرنا خدا کا کیا ہوا کہ باصل ایک حادثے میں ہلاک ہو گئے اور حافظ الاسد کی وفات پر 2000ء میں اُنکے چھوٹے صاحبزادے جناب بشار الاسد صدر بنے۔ یہاں ایک مسئلہ یہ آن پڑا کہ بشار الاسد کی عمر چونتیس برس کی تھی اور آئین کہتا تھا کہ صدر چالیس سال سے کم نہ ہو۔ یہ مشکل پارلیمنٹ نے آئین میں ترمیم کر کے آسان کر دی۔ 2007ء میں ایک بار پھر ریفرنڈم ہوا اور بشار الاسد آئندہ سات سال کیلئے صدر منتخب ہوئے۔ تقریباً اٹھانوے فیصد شامی باشندوں نے اُنکے حق میں ووٹ ڈالے‘ اُنکی مخالفت میں کسی نے کھڑا ہونا گوارا ہی نہ کیا۔
مسلمان ملکوں میں مکمل جمہوریت کی اور بھی مثالیں دی جا سکتی ہیں جیسے لیبیا لیکن ہم بات کو اختصار کے دائرے کے اندر رکھتے ہوئے پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کا تذکرہ کرینگے۔ کچھ متعصب مغرب نواز حضرات امریکہ، برطانیہ اور دوسرے اسی قسم کے غیر اسلامی ملکوں کی مثالیں دیتے ہوئے ذرہ بھر حیا نہیں کرتے۔ مثلاً وہ یہ کہتے ہیں کہ امریکی سیاسی پارٹیوں کے اندر صدارتی امیدوار منتخب کرنے کیلئے ووٹوں کا مقابلہ ہوتا ہے۔ کبھی وہ سعیدہ وارثی کی مثال دیتے ہیں اور کبھی آسٹریلیا کی جولیا گلرڈ کا تذکرہ کرتے ہیں۔ یہ دونوں خواتین عام سیاسی کارکن تھیں لیکن آج اپنی اپنی سیاسی پارٹی کی سربراہ ہیں۔ ہمارا مؤقف اس ضمن میں واضح ہے اور اس سلسلے میں ہم، اللہ کا شکر ہے، کسی احساس کمتری کا شکار نہیں۔ غضب خدا کا، ہم ان نصرانیوں، مشرکوں اور غیر مسلموں کی نقالی کریں؟ ایں خیال است و محال است و جنوں۔ پاکستان کی سیاسی پارٹیاں اس وقت جمہوری حوالے سے پورے مغرب کیلئے قابل رشک ہیں۔ تازہ ترین مثال جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ کی ہے جس میں وفاقی وزیر حضرت مولانا اعظم سواتی اور سینیٹر قبلہ مولانا طلحہ محمود جیسے جید اور یادگارِ سلف علماء کرام کا وجود اس حقیقت کا بین ثبوت ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کا مطلب ہے علماء کا گروہ اور اس میں واقعی علماء کرام ہی کو وزارتیں اور سینیٹ کی نشستیں دی جاتی ہیں۔ ہم یہاں معترضین کا منہ بند کرنے کیلئے اس جمہوری صداقت کا ذکر بھی کر سکتے ہیں کہ وفاقی وزیر سیاحت حضرت مولانا عطاء الرحمن کو خالص میرٹ کی بنیاد پر وزیر بنایا گیا ہے اگر ان کا نام پارٹی کے سربراہ کے نام سے ملتا جلتا ہے تو اسکا یہ مطلب نہیں کہ خدانخواستہ پارٹی کے سربراہ نے اقربا پروری سے کام لیا ہے۔
بات دور نکل گئی۔ ہم جمہوریت کی مثال دے رہے تھے۔ یکم اگست 2010ء کو جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن گروپ) کے ’’اندر‘‘ انتخابات ہوئے۔ ’’مرکزی جنرل کونسل‘‘ کا اجلاس لاہور میں رکھا گیا تھا۔ اس میں آزادانہ انتخاب کے نتیجے میں مولانا فضل الرحمن پانچویں بار اپنی سیاسی پارٹی کے سربراہ ’’منتخب‘‘ ہوئے۔ ایک دن قبل پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات نے یہ اعلان بھی کر دیا تھا کہ انتخابات خفیہ بیلٹ پیپر کے ذریعے ہوں گے اور یہ کہ جے یو آئی صرف نعرے نہیں لگاتی بلکہ اس پارٹی میں حقیقی جمہوریت موجود ہے۔ اس انتخاب کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ حضرت مولانا بلامقابلہ منتخب ہوئے ہیں، انکے مقابلے میں پارٹی کا کوئی اور رکن کیوں نہ انتخاب لڑ سکا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو منطقی ہے نہ مبنی برانصاف! اگر اس قسم کے سوال ہونے لگیں تو کل کو لوگ یہ بھی پوچھ بیٹھیں گے کہ شام کے صدر بشار الاسد کے مقابلے میں کوئی انتخاب کیوں نہیں لڑتا؟ ہاں ! ہم یہ بتانا بھول گئے کہ مولانا فضل الرحمن کے والد گرامی مولانا مفتی محمود کا انتقال 1980ء میں ہوا۔ گزشتہ تیس برسوں سے پارٹی کی صدارت کا جمہوری بارِ گراں اُنکے فرزند ارجمند، حضرت مولانا فضل ارحمن مدظلہم العالی کے مضبوط کندھوں نے اٹھا رکھا ہے …؎
آسمان بارِ امانت نتوانست کشید
قرعۂ فال بنامِ منِ دیوانہ زندد
ایک اور اعتراض پاکستان کی سیاسی جماعتوں پر یہ ہوتا ہے کہ ان میں اتفاق نہیں۔ یہ ایک اور معتصبانہ الزام ہے جس میں حقیقت کا شائبہ تک نہیں! اس سے پہلے علامہ اقبال نے بھی اس الزام کی تردید کی ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے یہ شعر بھی کہا ہے ؎
یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لئے
کہ متفق ہیں فقیہانِ شہر میرے خلاف
لیکن یہ اتفاق اقبال کے بعد بھی نظر آتا رہا۔ جب بھی منتخب ارکان پارلیمنٹ کے مراعات کا سوال اٹھتا ہے تو پارلیمنٹ میں موجود ساری سیاسی جماعتیں متحد ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح جب بھی زرعی اصلاحات کا سوال اٹھتا ہے یا جاگیرداروں کی زرعی آمدنی پر انکم ٹیکس لگانے کی بات کی جاتی ہے تو ہماری سیاسی جماعتیں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتی ہیں‘ اگر بھارتیوں میں ایسا اتحاد ہوتا تو وہاں 1951ء میں زرعی اصلاحات سے بچا جا سکتا تھا۔ افسوس! اتحاد نہ ہونے سے اُنکے ہاں فیوڈلزم دم توڑ گیا۔
سیاسی پارٹیوں میں اتحاد کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون نے ایم این اے جناب جمشید دستی کو بچانے کیلئے مشترکہ کوششیں شروع کر دی ہیں ۔
کچھ عرصہ قبل ایم این اے صاحب نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مظفر گڑھ ڈسٹرکٹ ہسپتال پر حملہ کیا تھا اور ڈاکٹروں اور نرسوں کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ جناب جمشید دستی جب منتخب ہوئے تو ان کیخلاف چالیس ایف آئی آر تھیں لیکن حکومت مسلم لیگ نون کی ہے! وزیر قانون پنجاب نے ڈاکٹروں اور رکن اسمبلی کے درمیان ’’صلح‘‘ کیلئے لاہور میں مذاکرات کرائے جو ڈاکٹروں کی ’’ہٹ دھرمی‘‘ کے باعث ناکام ہو گئے۔ یہ کم فہم ڈاکٹر قانون کیمطابق انصاف چاہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ میں اس اتحاد کو خوش آمدید کہتے ہوئے ہم یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ انصاف مانگنے والے ڈاکٹروں کو جیل میں ڈال دیا جائے۔