ہمارے ڈیمز کا خواب کہیں ہماری تباہی کا خواب تو نہیں ؟
یہ امید ناز کے نام پر عمر گزار دینے کا سا معاملہ تو ہے نہیں کہ کہا گیا ڈیم بنا دیجیے اور ڈیم بنا دیے گئے۔ قوم کے منصف بھی سادہ مزاج ہیں اور اس کے رکھوالے بھی۔ جب جہاں جو لکیر مل جائے اس کے فقیر بن بیٹھتے ہیں۔ کتنے ہی سوال ہیں جو پوچھے نہیں گئے۔ کتنے ہی جواب ہیں جو دیے نہیں گئے۔
مژدہ ہو کہ اب پانی کے ذخیرے بننے کو ہیں۔ وہ الگ بات ہے کہ دلی میں رہیں، کھائیں گے کیا۔ اب تو اتنی بھی نہیں پیمانے میں کہ سملی اور خان پور ہی بھرے جائیں۔ نہ جانے منڈا اور بھاشا میں کیا بھرا جائے گا۔ کیا مسئلہ اتنا ہی ہے کہ ایک حکم نامے، ایک بینک اکاؤنٹ اور دو دو دن کی تنخواہوں سے نمٹ جائے گا۔ پر ایک لحظہ ٹھہریے۔ اس سے پہلے کہ حکایت دراز کی جائے کچھ حقائق پر بھی نظر ڈال لیجیے پر اس سے بھی پہلے ایک لطیفہ سن لیجیے۔ گئے برسوں کا قصہ ہے کہ پاکستان اسٹیل مل کا سودا ہونے کو تھا کہ کچھ "ذمہ دار" شہریوں نے کھنڈت ڈال دی۔ مقدمہ عدالت عظمی تک جا پہنچا اور بنچ کے محترم جج کا ایک تاریخی جملہ عدالتی ریکارڈ کا حصہ بن گیا۔ فرمایا "اسٹیل مل بے شک بیچ دیجیے اگر قیمت مناسب ہے پر اس کے اثاثے قومی امانت ہیں۔ انہیں بیچنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی"۔ قوم تالیاں پیٹتی رہی اور واقفان حال دانتوں میں انگلیاں دبائے سوچتے رہے کہ اس حکمت کو بروئے کار کیسے لایا جائے کہ کارخانہ بک جائے اور اثاثے بچا لیے جائیں ۔ جج صاحب نے تشریح سے گریز کیا۔ کہانی ایک دن لپیٹ دی گئی۔ وہ دن ہے آج کا دن، ہر سال قوم ایک ناکارہ کارخانہ کے اثاثے اور ملازموں کا تاوان بھرتی جا رہی ہے۔
فہم اور فراست کو قبولیت عام کے کند دھار خنجر سے ذبح کرنے کی روایت پرانی ہے سو اب کے بھی کچھ ایسا نہیں ہے جسے انوکھا کہا جا سکے۔ امیدیں پھر باندھ لی گئی ہیں ۔ کوئی دن آتا ہے کہ کھل کر پیروں میں روندی جائیں گی تاوقتیکہ ایک نیا تماشہ بازار میں لگا نہ دیا جائے۔
ہمارے اکثر بزرجمہر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ہر سال بے پناہ پانی ضائع کرتے ہیں، بس کسی طرح اسے بچا لیا جائے تو ہمارے سارے دلدر دور ہو جائیں گے اور اس کا واحد علاج کالا باغ ، منڈا یا بھاشا جیسے میگا پراجیکٹ کی صورت ہی دستیاب ہے۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ پانی کا بحران ہے اور شدید ہے۔ کچھ برسوں میں شاید ہم قحط کا منہ دیکھ رہے ہوں گے لیکن اس حوالے سے کچھ مغالطے دور کر لیے جائیں تو شاید بہتری کی کسی ایسی صورت کی طرف قدم بڑھانا ممکن ہے جو محض خیالی پلاؤ اور سراب آسا سبز باغات پر مشتمل نہ ہو۔
مجھے یاد ہے کہ بچپن میں مطالعہ پاکستان کی کتاب کا ایک باب دریاؤں کے بارے میں تھا اور وہیں سیلاب کا ذکر کچھ ایسے الفاظ میں تھا کہ سیلاب اپنے ساتھ زرخیز مٹی لاتے ہیں جو زیریں پنجاب اور سندھ کے میدانوں کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرتی ہے۔ جیسے جیسے بڑے ہوئے ہم تیسری یا چوتھی جماعت کا یہ سبق بھول گئے کہ سیلاب محض تباہی کے پیمبر نہیں ہیں، خوشحالی کی ضمانت بھی ہیں۔ ان کے پانی کو روک لینا مقصد نہیں ہے، اس کی سلیقگی سے مینجمنٹ اصل مدعا ہے۔ سندھ کا کاشتکار اسی بات کا شاکی ہے کہ تربیلا اور منگلا اس کے زمین کے حصے کا صرف پانی ہی نہیں بلکہ وہ سلٹ اور مٹی بھی کھا گئے ہیں جس سے اس کی زمین کی زرخیزی وابستہ تھی۔ زیریں سندھ کی اکثر زمینوں کے بنجر ہونے میں ایک عمل دخل اس بات کا بھی ہے۔ اسی لیے وہ سندھ پر بننے والے کسی بھی اور ڈیم کے خلاف کھڑا ہو جاتا ہے۔ کوٹری بیراج سے نیچے کی زمینوں کی پیداواری صلاحیت مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔ پانی کی کمی اپنی جگہ ہے جس کو ہمارا مشہور زمانہ نہری نظام قابو نہیں کر پارہا لیکن سندھ کے کناروں کے ساتھ ساتھ چلتی زمین پر زرخیز مٹی بچھنے کا عمل بھی انتہائی اونچے سیلاب کے علاؤہ موقوف ہے اور چونکہ یہ سیلاب سال میں ایک دفعہ اور بعض اوقات دو سے تین سال میں ایک دفعہ ہی آتا ہے اس لیے اس کے لیے کئے گئے انتظامات میں بھی کوئی باقاعدگی نہیں ہے۔ پشتوں کا واحد فائدہ یہ معلوم پڑتا ہے کہ اس سے ٹھیکیداروں کی روزی وابستہ ہے لہذا ان کا ٹوٹنا، بننا، بن کر ٹوٹنا، لہو گرم رکھنے کا اک بہانہ بنا رہتا ہے۔
ایک مشہور کالم نگار جو ایک اور مشہور کالم نگار کے فرزند بھی ہیں، نے کچھ عرصہ پہلے انہی صفحات پر اپنے کالم میں یہ انکشاف کیا تھا کہ پاکستان میں پانی کا کوئی بحران نہیں ہے۔ ہمیں صرف یہ کرنا ہے کہ جو 21 ملین ایکڑ فٹ پانی ہم ہر سال سمندر کی نذر کر دیتے ہیں اسے بچا لیں پھر راوی چین ہی چین لکھے گا۔ ہم یہ تو بتانے سے قاصر ہیں کہ یہ اعدادوشمار کون سی درسگاہ سے انہیں ودیعت ہوئے پر یہ جانتے ہیں کہ یہ سمندر میں پانی پھینک کر ضائع کرنے والا نظریہ ہمارے یہاں قبول عام کی سند رکھتا ہے۔ تو چلیے ذرا اس کا جائزہ حقائق اور سائنس کی روشنی میں لے لیتے ہیں۔
ایک فطری ماحول یا ایکوسسٹم میں دریا کا پانی ہمیشہ سمندر میں گرتا ہے۔ قدرت کے نظام میں یہ پانی کا ضیاع نہیں ہے بلکہ ماحولیاتی بقا کی ایک اور ضمانت ہے۔ پاکستان انسٹیوٹ آف اوشیانو گرافی کے مطابق پاکستان کے دریاؤں سے سمندر میں پانی کا کم از کم اخراج 10 ملین ایکڑ فٹ ہونا چاہیے۔1991 میں سرکاری طور پر بھی طے کیا گیا تھا کہ کوٹری سے آگے اتنا پانی لازمی چھوڑا جائے گا۔ اسے کم اخراج پر ماحول پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں ان کا جائزہ لینے کے لیے ایک تحقیق 2014 اور ایک 2016 میں کی گئی۔ یہ تحقیق پڑھیے تو کانوں سے دھواں نکلنے لگے گا۔
پانی کے اخراج میں کمی کا ایک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دریاؤں کی لائی ہوئی سلٹ اور مٹی ساحلوں تک نہیں پہنچ پاتی۔ عام حالات میں یہ مٹی اور سلٹ سمندر کے کٹاؤ کے خلاف ایک قدرتی رکاوٹ کا کام کرتی ہے اور اس کی وجہ سے زمینی رقبے میں سال بہ سال اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ کئی سالوں سے یہ اخراج تمام تر سیلابوں کے باوجود دس ملین ایکڑ فٹ سے کہیں کم ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایک انتہائی محتاط اندازے کے مطابق دس لاکھ ایکڑ سے زیادہ زمین پچھلے کچھ سالوں میں سمندر برد ہو چکی ہے۔ بعض جگہوں پر سمندر کا سالانہ کٹاؤ کئی ہزار ایکڑ سے زیادہ ہے۔ دریاؤں کے تازہ پانی میں سمندر کے کھارے پانی کی مار ساحلوں سے سو کلومیٹر اندر تک مشاہدے میں آئی ہے جس کی وجہ سے دریاؤں میں موجود مچھلیاں اور دیگر جاندار تقریبا فنا ہو گئے ہیں۔ زمین کے اس بیش بہا نقصان پر ہی بات ختم نہیں ہوتی۔ مسئلہ اس سے کہیں زیادہ گمبھیر ہے۔
پاکستان میں ماہی گیری کی صنعت اور ہماری خوراک کے ایک اہم جزو جو کہ سمندری حیاتیات پر مشتمل ہے، کا 80 فی صد اس علاقے پر منحصر ہے جہاں دریائے سندھ بحیرہ عرب سے ملتا ہے۔ دنیا بھر میں آبی حیاتیات کا مرکز وہ علاقہ ہوتا ہے جہاں تازہ پانی کے کھارے پانی میں ملنے سے نمکیات کا ایک بہتر توازن تشکیل پاتا ہے۔ آج کے دن میں ہمارے یہاں یہ توازن قریبا عنقا ہے۔ اس وجہ سے اس علاقے کی سمندری حیات میں بے پناہ کمی واقع ہوئی ہے۔ ماہی گیری کی صنعت پر اس کے خوفناک اثرات مرتب ہوئے ہیں اور اندازہ یہ ہے کہ اگلے چند سالوں میں سمندری حیات اس علاقے میں مکمل طور پر ختم ہو جائے گی۔ اس سے ملکی معاشیات اور ہمارے خوراک کے ذرائع دونوں پر کس قدر منفی اثر پڑے گا ، اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
عدم توازن کی ایک اور نشانی مینگروو کے جنگلات کا ختم ہونا ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں حکومتی سطح پر ان جنگلات کو بچانے کی مسلسل کوششیں بھی یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ یہ جنگلات بھی اس وقت اپنی بقا کی آخری جنگ لڑ رہے ہیں۔ مینگروو کے جنگلات کو دنیا بہت اہم سمجھتی ہے۔ ان جنگلات کے سبب دریاؤں سے آنے والا پانی سست پڑتا ہے۔ یہ اس پانی کی لیے ایک چھلنی کا کام کرتے ہیں۔ سلٹ اور مٹی کی ساحل سمندر پر ایک قدرتی تہہ ان جنگلات کے سبب تشکیل پاتی ہے۔ سمندر میں بہت سے ایسے دھاتی اجزاء انہی جنگلات کی وجہ سے نہیں مل پاتے جن سے سمندری ماحول کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ سونامی اور سمندری طوفان کے موقعے پر یہ جنگلات ایک حفاظتی دیوار کا کام کرتے ہیں۔ ان جنگلات کی موجودگی میں سمندر کا کٹاؤ نہیں ہو پاتا اور قابل کاشت اور زرخیز زمین محفوظ رہتی ہے۔ پاکستان میں مینگروو کے جنگلات کا رقبہ 3 لاکھ ایکڑ رہ گیا ہے جو کسی زمانے میں 14 لاکھ ایکڑ سے زائد تھا۔ صنعتی فضلے اور غیر قانونی کٹائی بھی ان وجوہات میں شامل ہے جن سے یہ جنگلات گھٹتے جا رہےہیں لیکن بنیادی وجہ سندھ طاس کے دریائی بہاؤ میں آنے والی کمی ہے جو مزید ڈیم بننے کی صورت میں اور کم ہوتی چلی جائے گی۔
پچھلے چند سالوں میں ہونے والی تحقیق نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ زمین کے نقصان کے علاؤہ ہمارے ساحل بھی زمین میں دھنستے جارہے ہیں اور اس کی وجہ بھی اس مٹی اور سلٹ کی کمی ہے جو دریا قدرتی طور پر اپنے ساتھ لاتے ہیں۔ تمام ساحلی شہر اس وقت شدید خطرے سے دو چار ہیں. آبپاشی کے ہمارے موجودہ نظام نے دریا اور سمندر کے ملاپ سے بننے والی قدرتی کھاڑیوں کو تقریبا تباہ کر دیا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سطح سمندر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ سندھ کا ساحل بںیادی طور پر ایک ریتلا ساحل ہے جہاں چٹانیں موجود نہیں ہیں اور سندھ کے اکثر ساحلی شہر سطح سمندر سے بہت اوپر نہیں ہیں۔ اس جغرافیائی حقیقت کو اس بات کی روشنی میں دیکھیں کہ یہ ساحل اپنی بقا کے لیے دریاؤں کے بہاؤ پر منحصر ہیں اور پھر سوچیں کہ ہم ایک پہلے ہی سے تقریبا ناموجود بہاؤ کو مزید متاثر کر کے کیا کمائیں گے۔ 2016 میں پیش کی گئی ایک رپورٹ میں منگلا ، تربیلا اور کوٹری سے پہلے اور بعد کے بہاؤ کے اعدادوشمار موجود ہیں جو خود اپنی جگہ ہوشربا ہیں۔ سپارکو نے سندھ کی وڈی کھڈی کریک کا مصنوعی سیاروں سے معائنہ کر کے یہ بتایا ہے کہ سمندر 2 کلومیٹر سے زیادہ زمینی علاقے میں گھس آیا ہے۔ ایک انگریزی محاورے کے مطابق یہ دو کلومیٹر محض برفانی تودے کی ناک ہیں۔ آبی گذرگاہوں پر کھارے پانی کی مار سو کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے۔
عام حالات میں دریا کے قدرتی بہاؤ اور نچلے اور درمیانے درجے کے سیلاب دریا کے آس پاس کی زمین کو زرخیز بناتے ہیں۔ قابل کاشت اراضی میں اضافہ ہوتا ہے اور جنگلات نشونما پاتے ہیں۔ اگر یہ بہاؤ بڑے ڈیمز کی وجہ سے ایک خاص حد سے نیچے چلا جائے تو زمین کے کٹاؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔ ریتلے کنارے بن جاتے ہیں۔ دریائی ڈیلٹا کی سطح نیچے چلی جاتی ہے۔ جنگلات اور خودرو جھاڑیاں ختم ہو جاتی ہیں اور جب بھی اونچے درجے کا سیلاب آتا ہے تو وہ انتہائی تباہ کن ثابت ہوتے ہیں ۔ پاکستان کے تباہ کن سیلابوں کی وجہ ڈیمز کا نہ ہونا نہیں ہے ۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ بڑے ڈیم اونچے درجے کے سیلاب کا پانی ذخیرہ نہیں کر پاتے کیونکہ ان میں سلٹ کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے اور اس کو ذخیرہ کرنے سے ڈیم کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ایسے سیلاب کے موقع پر آبی گذرگاہوں پر موجود سپل وے کھلے رہتے ہیں۔ سیلاب مار کرتا زیریں علاقوں تک پہنچتا ہے جہاں عام حالات میں پانی کی شدید کمی کے باعث قدرتی دفاعی نظام ناپید ہوتا ہے اور پھر جو ہوتا ہے وہ ہم سب نے دیکھا ہے ۔
ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ بارشوں میں کمی کی ایک وجہ دریاؤں کے قدرتی بہاؤ کا متاثر ہونا بھی ہے۔ واٹر سائیکل یا نظام آب بڑے سادہ اصول پر کام کرتا ہے۔ سمندر سے بادل بنتے ہیں جو زمین پر سفر کرتے ہوئے بارش برساتے ہیں۔ دریا یہ پانی واپس سمندر میں لاتے ہیں ۔پھر دوبارہ آبی بخارات سے بادل بنتے ہیں اور یوں یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ دریا کا قدرتی بہاؤ متاثر ہونے سے ساحلی علاقوں میں بخارات بننے کا عمل بھی سست پڑ جاتا ہے اور نتیجہ بارش کی کمی کی صورت برآمد ہوتا ہے۔
بڑے ڈیمز سے اب بجلی کی پیداوار بھی ایک فرسودہ نظریہ ہو گیا ہے۔ اب رن آف دی ریور بجلی گھروں پر توجہ مرکوز ہے جہاں کم لاگت اور کم ماحولیاتی تغیر سے کافی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ دریائے نیلم پر موجود بھارت کا کشن گنگا اور پاکستان کا نیلم جہلم پراجیکٹ اس کی مثال ہیں۔ یہ پراجیکٹ کم مدت میں تیار ہوتے ہیں اور ان کی لاگت بھی ڈیمز سے بہت کم ہوتی ہے۔ اگرچہ نیلم جہلم کے معاملے میں ہمارا ریکارڈ اس تاثر کی مکمل نفی کرتا ہے پر اس کی وجہ ہماری اپنی نااہلی ہے۔
آپ تحریک انصاف کو لاکھ برا بھلا کہیے اور یہ بھی قابل بحث امر ہے کہ زمینی حقائق کیا ان کے دعووں کی توثیق کرتے ہیں یا نہیں پر مائیکرو ہائیڈل پراجیکٹ اور بلین ٹری سونامی جیسے منصوبے اس ملک کی بقا کے لیے میٹرو بس اور اورنج ٹرین سے سینکڑوں گنا زیادہ اہم ہیں اور ہمیں اسی سمت توجہ مرکوز رکھنی ہے۔
ہمارے شہروں اور قصبوں میں زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک گر چکی ہے۔ ہمارے دریاؤں میں گرنے والے فضلاتی نالوں نے ان کا حلیہ بگاڑ ڈالا ہے۔ صاف پانی کا ذخیرہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارے پاس بارشی پانی کو ہارویسٹ کرنے کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ اس حوالے سے بھارت کی کیرالہ ریاست میں کیے جانے والے اقدامات ہمارے لیے مشعل راہ ہو سکتے ہیں اگر ہم ادھر دیکھنا چاہیں تو۔ ہمارے ملک میں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کی شدید ترین قلت ہے۔ دنیا جن ذرائع کو حرز جان سمجھتی ہے ہمارے یہاں ان کا وجود تک نہیں ہے۔ ہمیں چھوٹے ڈیم بنانے ہیں۔ ویٹ لینڈ پراجیکٹس پر کام کرنا ہے۔ جنگی بنیادوں پر شجر کاری کرنی ہے۔ آبی گذرگاہوں کو صاف کرنا ہے ۔ آبپاشی کے جدید طریقہ کار متعارف کروانے ہیں۔ بارشی پانی کو ذخیرہ کرنے اور سینچنے کے شہری منصوبوں کو تشکیل دینا ہے۔ مائیکرو اور منی ہائیڈل پراجیکٹس پر توجہ لگانی ہے۔ پانی کے قدرتی بہاؤ کو ہر ممکن حد تک بحال کرنا ہے۔ یہ ہیں کرنے کے کام پر ہم ایسے ڈیمز کے خواب دیکھ رہے ہیں جو شاید خوشحالی سے زیادہ تباہی کے پیمبر ہوں۔ ذرا سوچیے۔۔۔
(مضمون کی دم یہ ہے کہ یہ کچھ عرصہ پہلے تحریر کیا گیا تھا ۔۔ خان صاحب ابھی اقتدار سے کچھ دن کی دوری پر تھے۔ تو یہ نشر مکرر ہے پر حقائق وہیں کھڑے ہیں۔ بڑے ڈیم کیونکر بنائے جائیں گے وہ ایک الگ مسئلہ ہے پر کیوں نہ پہلے یہ سمجھ لیا جائے کہ ڈیم بنانے بھی چاہئیں یا نہیں)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“