یہ درست ہے کہ قبرض کے ترک حصے میں یونان نے مداخلت کی تھی تو چند ثانیوں کے اندر اندر ترکی کے جنگی جہاز ایتھنز پر منڈلا رہے تھے۔ یہ بھی درست ہے کہ تائیوان ہو یا کوئی اور مسئلہ، چین نے کبھی کسی ملک کو اپنے معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دی لیکن یہ سب تاریخ کے کولڈ سٹوریج میں جا چکا ہے۔ یہ سب ماضی کی داستانیں ہیں۔ آج اگر کرۂ ارض پر کوئی غیرت مند اور خود مختار ملک بڑی سے بڑی طاقت کو اپنے امور میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتا تو وہ صرف اور صرف پاکستان ہے! طلوع ہونے والے سورج کے دیس جاپان سے لے کے ۔۔ بحرالکاہل کے نیلے پانیوں کے کنارے آباد میکسیکو تک اور آسٹریلیا کے دل نشین ساحلوں سے لے کر دل پر جادو کر دینے والے فن لینڈ تک ۔۔ صرف پاکستان ہی ایک ایسا عزت دار ملک ہے جس کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے والی بڑی سے بڑی طاقت چند لمحوں کے اندر اندر جھاگ کی طرح بیٹھ جاتی ہے۔ شیخ سعدی اگرچہ کچھ دیر پہلے ہی دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن ان کی دور رس نگاہیں پردۂ غیب پر پاکستان کو دیکھ چکی تھیں۔ انہوں نے یہ شعر یقیناً پاکستان کے لئے کہا تھا …؎
ہر کہ با فولاد بازو پنجہ کرد
ساعت سیمینِ خود را رنجہ کرد
جس کسی نے بھی فولاد جیسے بازو سے پنجہ لڑانے کی حماقت کی تو اس نے اپنی نازک، چاندی جیسی کلائی ہی کو گزند پہنچایا!
میں دعویٰ کرتا ہوں تو ہمیشہ ثبوت بھی پیش کرتا ہوں۔ آج بھی میں اپنی اس روش پر قائم ہوں۔ آپ کو اگر معلوم نہیں تو میں عرض کئے دیتا ہوں۔ ایک مغربی طاقت نے ہمارے ملک پر ڈرون حملے کرنے کی غلطی کی۔ چند سیکنڈ بھی نہ گزرے تھے کہ ہمارے جنگی جہازوں نے درجنوں ڈرون گرا دئیے۔ ہم نے اسی پر اکتفا نہیں کیا، احتجاج کے طور پر اس طاقت کے سفارت خانے کو بند کر دیا اور سفیر کو چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر ملک چھوڑ دینے کا حکم دیا۔ مغربی طاقت کے گھٹنے لرزنے لگے، اس نے معافی مانگی اور قسم اٹھا کر وعدہ کیا کہ آئندہ اس کے جہاز ہماری مقدس فضاؤں کی حدود میں اپنی ناپاک تھوتھنیاں نہیں داخل کریں گے۔
جیکب آباد کے ہوائی اڈے پر قبضے کی کوشش کی گئی تو ہم نے قبضہ کرنے والوں کو بحیرہ عرب میں پھینک دیا جہاں وہ مچھلیوں کی خوراک بنے۔ جب ایک بڑے ملک کے اہلکار پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر چک لالہ بیس پر اترنے لگے تو ہم نے انہیں جیل میں بند کر دیا۔ لاہور میں سیاہ شیشے والی کار کو پولیس نے روکا، جب سفارش کا فون آیا تو پنجاب حکومت نے سفارش ماننے سے انکار کر دیا! لیکن پاکستان نے غیرت کا بڑا مظاہرہ اس وقت کیا جب ایک بڑی طاقت کے گماشتے پاکستانیوں کو پاکستان کے اندر سے پکڑ پکڑ کر لے جانے لگے۔ پاکستان نے بدلہ لینے کے لئے اسلام آباد میں پائے جانے والے کئی سفید فام افراد کو گرفتار کر لیا۔ پھر جب ڈاکٹر عافیہ کو اغوا کیا گیا تو پاکستان نے کمال ہی کر دیا۔ اس نے ایک خاص ملک سے تعلق رکھنے والی تمام خواتین کو گرفتار کر لیا۔ واشنگٹن میں اپنا سفارت خانہ بند کر دیا۔ اس ملک کی سفیر کو چند گھنٹوں کے نوٹس پر پاکستان سے نکال دیا گیا۔ پاکستان نے وزیرستان سے فوج واپس بلانے کا اعلان کر دیا اور نیٹو کو سپلائی ہونے والا پٹرول اور دیگر اشیائے ضرورت روک لیں۔ چند دنوں ہی میں اس طاقتور ملک کے ہوش ٹھکانے آ گئے اور اس نے عافیہ صدیقی کو رہا کر دیا۔
اور اس وقت تو دنیا عش عش کر اٹھی جب پاکستان نے آئی ایم ایف کے کہنے پر بجلی اور گیس کے نرخ بڑھانے سے انکار کر دیا اور ورلڈ بینک نے ویٹ نافذ کرنے کا حکم دیا تو حکومت پاکستان نے ورلڈ بینک کے تمام نمائندوں کے پاکستانی ویزے منسوخ کر دیے۔
اس غیرت مند رویے ہی کا نتیجہ ہے کہ آج پاکستان کی دنیا بھر میں عزت کی جاتی ہے۔ پاکستانی پاسپورٹ دیکھ کر دنیا بھر کے ہوائی اڈوں پر پاکستانیوں کے گال چومے جاتے ہیں، پاکستانیوں کے جوتے اتروا کر آنکھوں سے لگائے جاتے ہیں اور پاکستانی افسروں اور جرنیلوں کی پتلونوں کی پیٹیاں اتروا کر ان پر بوسے ثبت کئے جاتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ کے کئی صدر اور وزرائے اعظم ہمارے وزیر خارجہ سے بات کرنے کے لئے گھنٹوں ٹیلی فون کے پاس بیٹھے رہتے ہیں۔ ہمارا کوئی معمولی اہلکار بھی واشنگٹن جائے تو امریکی صدر خود اس کا استقبال کرتے ہیں۔ دوسری طرف امریکہ کا صدر بھی اسلام آباد آئے تو ہمارے معمولی اہلکار انہیں لینے کے لئے ہوائی اڈے پر جاتے ہیں۔
قصہ مختصر ۔۔ ہمارے دن عزت سے گزر رہے تھے۔ ہمارے اندرونی معاملات میں سوچنا بڑی سے بڑی طاقت کے لئے بھی ممکن نہ تھا۔ لیکن افسوس! ایک ملک نے ہمارے اندرونی معاملات میں دن دہاڑے کھلم کھلا مداخلت شروع کر دی ہے۔ زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ وہ دوست ملک ہے۔ سعودی عرب کی عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ جعلی ڈگریوں پر نوکری حاصل کرنے والوں کی روزی حرام ہے۔ علماء کونسل نے فتویٰ دیا ہے کہ مسلمانوں کے لئے یہ بات جائز نہیں کہ وہ دھوکہ دہی کے مرتکب ہوں۔ علماء نے یہ بھی کہا ہے کہ ۔۔ ’’جعلی ڈگری حاصل کرنے والے معاشرے کیلئے نقصان دہ ہیں۔‘‘
یہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے اور یہ ناقابل برداشت ہے۔ اگر اس سلسلے کو روکا نہ گیا تو کل کو یہ فتویٰ بھی آ جائے گا کہ ناجائز مال کمانا اور کھانا حرام ہے۔ چند دن کے بعد یہ بھی کہہ دیا جائے گا کہ ایک مخصوص گروہ کے پسندیدہ افراد کو قومی خزانے سے تنخواہیں دے کر ملک پر مسلط کرنا جائز نہیں۔ پھر ایک دن آئے گا جب مجرموں کی سزائیں معاف کرنا سراسر ظلم قرار دے دیا جائے گا۔
ہم ایک خود دار غیرت مند اور عزت نفس رکھنے والی قوم ہیں۔ ہمارے اندرونی معاملات میں یہ مداخلت فوراً بند کی جائے۔