آج میرا موضوع سخن ہے بچے۔ میں ایک ماں ہوں اور ماں کی ممتا بلا تمیز و امتیاز سب بچوں کے لئے یکساں ہوتی ہے۔ میرے لئے 25 سال کا جوان بھی بچہ ہے۔ لہذا میرا موضوع سخن چھوٹے بچوں سے لیکر نوجوانوں تک رہے گا۔ آج کے بچے میں اور ہمارے دور کے بچے میں بہت نمایاں فرق ہے۔ ہم ہوتے تھے معصوم، بھولے بلکہ بدھو اور آج کا بچہ ہوشیار، موقع پرست،حاضر جواب ، انتہائی ذہین۔ ہمارے دور میں ذہانت ناپنے کاپیمانہ کلاس میں پوزیشن لینا ہوتی تھی۔ جبکہ آج کے بچے کی ذہانت تعلیمی قابلیت سے نہیں اسکی حاضر جوابی اور مفاد پرستی سے ظاہر ہوتی ہے۔ وہ کیسے موقع محل کے مطابق بات کرکے اپنے بڑوں کو بھی لاجواب کر دیتا ہے ۔ اور اسے پتہ ہے کہاں اسے موقعے سے فائدہ اٹھا کر اپنی بات منوانی ہے۔ آج کا بچہ بلا کاپُر اعتماد ہے۔ یہ اعتماد یقیناً جدید دور کے والدین کا دیا ہوا ہے۔ اگر یہ اعتماد تہذیب کے دائرے میں ہو تو کوئی قباحت نہیں۔ لیکن اگر حد سے بڑھ جائے تو مسئلہ بن جاتاہے ناصرف والدین کے لئے بلکہ پورے معاشرے کے لئے۔
ہمارے والدین کی سوچ ہوتی تھی کھلاوُ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی نظر سے۔ اسی لئے ہم تمام آسائشوں اور سہولیات کے باوجود والدین کی ایک نگاہ سے بھی ڈر جاتے تھے۔ وہ صرف خوف یا ڈر نہیں تھا بلکہ محبت بھرااحترام ہو اکرتا تھا ۔ دراصل ہم جس سے محبت کرتے ہیں اسکی محبت کی وجہ سے ایسا کوئی کام نہیں کرتے کہ وہ ناراض ہو جائے، دراصل وہ انکی ناراضگی کا خوف ہوتا تھا۔ یہ اس وقت کے تمام بچوں کی تربیت کا حصہ تھا۔ بڑے بڑے طُرم خان اپنے والدین خاص طور پر والد کے سامنے بات کرتے ہوئے گھگھیاتے تھے۔ یہ بظاہر کمیونیکیشن گیپ ضرور تھا لیکن یہ دور ایک رکھ رکھاوُ ایک تہذیب کا آئینہ دار تھا۔
آج کا بچہ ذہین ، حاضر جواب اور پراعتماد تو ضرور ہے لیکن اس میں وہ رکھ رکھاوُ ، وہ تہذیب نہیں جسکے تحت ہماری تربیت ہوئی۔آج کے والدین نے کمیونیکیشن گیپ کے نام پر بچوں کو کچھ زیادہ ہی فرینک اور نڈر بنا دیا۔ وہ بلاجھجک اپنی بات کرتا ہے۔ آج کے بچے میں برداشت کامادہ انتہائی کم ہے۔وہ رو کے ، چِلاکر ،سانس روک کے ، اپنی بات منوالیتا ہے۔ اسکی یہی بات ماننی اسے ضدی بناتی ہے۔وہ سمجھتا ہے کہ ہر چیز اسکے تابع ہے۔ اور وہ ہر چیز حاصل کر سکتا ہے۔ اسکو میں کسی حد تک والدین کی کمزوری بھی کہوں گی۔ کیونکہ وہ بچے کی جا بے جا ہر بات مانتے چلے جاتے ہیں۔ بچے کی بات ضرور مانیں لیکن اعتدال میں رہتے ہوئے جیسے اگر وہ کسی چیز کی فرمائش کرتا ہے اسکے لئے مچلتا ہے تو اسکو وہی چیز نہ لیکر دی جائے بلکہ اسی سے ملتی جلتی کوئ اور چیز دلائی جائے اور رسان سے اسے سمجھایا جائے کہ کیا درست ہے اسکے لیئے اور کیا نہیں. آج کا بچہ دلیل سے قائل ہونیوالا بچہ ہے۔ لہذا والدین کو اپنے بچوں کی نفسیات سے واقفیت ہونی بہت ضروری ہے۔ اور یہ کوئی اتنی مشکل بات نہیں۔ بچے سے دوستانہ ماحول میں اسکی پسند ناپسند ، اسکے مشاغل ، اسکے شوق کے متعلق بات کرنی چاہئں تاکہ آپ اسکی نفسیات سے واقف ہوں۔ بہت سے بچے مشکل بچے ثابت ہوتے ہیں۔دوسروں پر کُھلتے نہیں۔ لیکن پیار اور دوستانہ ماحول انکو اپنے والدین کے قریب لے جاتا ہے۔
ہمارا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے آج کے والدین میں بھی توازن نہیں ۔ اگر والد سخت ہیں تو والدہ انتہائی نرم اور اگر والد نرم مزاج ہیں تو والدہ انتہائی اصولی اور سخت گیر۔ یوں بچے بھی شدت پسندی کا شکار ہو جاتے ہیں بعض اوقات وہ اپنے ساتھ اس مسئلے کی وجہ سے دبی شخصیت کا شکار ہو جاتے ہیں یا ضرورت سے زیادہ خوداعتماد ہو جاتے ہیں ۔ اور یہ دونوں شدتیں ہی بچوں کی شخصیت پر منفی اثرات ڈالتی ہیں۔
اگر میں کچھ پہلے دور کی بات کروں تو وہ یہ کہ والدین گو کہ سختی کرتے تھے لیکن انہوں نے بچوں کو اخلاقیات کا ethics کا درس دیا تھا۔ والدہ اگر نرم مزاج ہوتی بھی تھی تو وہ والد کی سرزنش کے دوران کبھی بچے کی حمایت نہیں کرتی تھی۔ ان والدین نے بچے کی تربیت میں اپنا وقت دیا جبکہ آج کے والدین وقت کی کمی کا شکار ہیں ۔وہ اپنے بچوں کو جدید کھلونے اور gadgets تو پکڑا دیتے ہیں لیکن تربیت نہیں کرتے ، اچھے برے کی تمیز نہیں سکھاتے اور سب سے بڑھ کر وقت نہیں دیتے۔ جسکی وجہ سے آج کا بچہ رشتوں سے دور اور مشینوں سے قریب ہے۔ اور یہی مشینیں اسکی تربیت کر رہی ہیں۔ بہت سے والدین کو قطعی علم نہیں کہ انکے بچے کیاچیز استعمال کرتے ہیں اور کیسے۔ بہت سے والدین نئی ٹیکنالوجی سے نابلد ہیں۔ لیکن وہ بھی فخریہ اپنے بچوں کو یہ تمام جدید آلات خرید کر تو دیتے ہیں۔انہیں جیب خرچ کے نام پر بھاری رقوم دیتے ہیں۔ لیکن نظر نہیں رکھتے کہ وہ کیسے استعمال کر رہا ہے اور اسپر یہ چیزیں مثبت اثرات ڈال رہی ہیں یا منفی۔
آجکل جو چند واقعات میری نظر سے گزرے اسکا ذمہ دار میں کسے ٹھراوُں ۔آج کے بچوں میں خودکشی کابڑھتا ہوا رجحان ۔۔عدم برداشت پرمار پیٹ یا قتل کا اقدام۔والدین ، اساتذہ اور پڑھائی کےدباوُ و تناوُ کی وجہ سے نو عمر بچوں کا ہارٹ فیل ہوجانا ۔لوئر مڈل کلاس میں بچوں کا گھر سے بھاگ جانا۔۔۔ شاگرد کا استاد کو قتل کر دینا ۔۔۔۔ نوعمر بچوں کا منشیات کااستعمال ۔۔۔۔۔ یہ سب کیا ہے؟؟؟_
اگر میں تمام عوامل کو اکٹھا کروں کہ آج کا بچہ کس نہج پر چل رہا ہے اور کیا وہ مثبت ہے ؟ تو اسکی مختلف وجوہات ہونگی۔ کچھ پر میں بات کر چکی ہوں اور کچھ پر کرنا باقی ہے لہذا نمبر وار اگر اسکو لیں تو
1) والدین کا حد سے زیادہ لاڈ پیار
2) والدین کا بچوں کی جائز ناجائز خواہشات پوری کرنا
3) بچوں کی درست خطوط پر تربیت نہ کرنا( اسمیں دینی اور دنیاوی تربیت شامل ہے یعنی اخلاقیات )
4) انگریزی تعلیم کے نام پر بچوں کو ایسے سکولوں میں بھیجنا جو اصل ثقافت سے دور کر رہے ہیں اور مغربی معاشرے کی ترویج کر رہے ہیں )
5) بچوں کو بزرگوں کی صحبت سے دور رکھنا( پہلے وقتوں میں دادیوں نانیوں کا اہم کردار ہوتا تھا تربیت میں)
6) اساتذہ کا بچوں کو تعلیم تو دینا لیکن تربیت نہ کرنا۔ اخلاقیات نہ سکھانا۔ صرف کتابی علم سے مستفید کرنا۔
7) آج کے بچوں کو اپنے اسلاف کے کارناموں سے کوئی واقفیت نہیں۔ بلکہ مغربی طرز کے اداروں میں انپر تنقید کی جاتی ہے۔
8)پہلے وقتوں میں محلے ، کالونی کے بچے آپس میں اکٹھے کھیلتے تھے اور یوں ایکدوسرے سے بہت کچھ سیکھتے تھے۔ آج کا بچہ اگر کھیلے توآپس کی لڑائی کی والدین کی لڑائی بن جاتی ہے۔ جو خونخوار نتائج کا پیش خیمہ بنتی ہے۔
9) تحمل و برداشت جسکی پہلے بچوں کو تربیت دی جاتی تھی۔ وہ اب مفقود ہو گئی ہے۔ انہیں اینٹ کا جواب پتھر سے دینا سکھایا جاتا ہے۔
10) پہلے وقتوں میں استاد کی عزت والد کی عزت پر مقدم ہوتی تھی۔ والدین استاد کی شکایت لگانے پر الٹا بچے کی سرزنش کرتے تھے جبکہ آج کے والدین فوراً لٹھ لیکر استاد کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ اورانکے لئے بغض و عناد دل میں رکھتے ہیں ایسے میں بچہ کیسے استاد کی عزت کر سکتا ہے ۔
11) آج کا استاد بھی مشینی انداز میں کام کرنے کا عادی ہو گیا ہے۔ یعنی اسے بچے کی پوزیشن سے غرض ہے اسکے کردار سے نہیں ۔ پہلے کے استاد سارا زور کردار سازی پہ دیا کرتے تھے۔
12) کتاب کی جگہ اب ٹیبلٹ نے لے لی ہے۔ پہلے بچہ اچھی کتب پڑھتا تھا ۔ جس سے اسکی ذہنی نشو و نما ہوتی تھی۔ جو کہ اب اسطرح سے ممکن نہیں ۔
13) پہلے بچہ آوُٹ ڈور کھیلوں میں مگن ہوتا تھا۔ اسطرح وہ ذہنی اور جسمانی طور پر فٹ رہتا تھا۔ آجکا بچہ ن ڈور گیمز میں زیادہ وقت گزارتا ہے ۔اسکی آوُٹ ڈور ایکٹیویٹیز انتہائی کم ہوگئی ہیں۔ جس سے اسکی ذہنی وجسمانی نشو و نما متاثر ہوئی ہے۔
یہ تو چند ایک وجوہات ہیں جو میں یہاں بیان کر سکی ہوں۔ بہت سی ایسی باتیں ہیں جنکا ذکر یہاں نہیں ہو سکا۔
آج اور کل کے بچے کے درمیان موازنہ کرنے کی ایک وجہ یہ تھی آج کا بچہ پراعتماد اور ذہین تو ہے ہی لیکن اسکے ساتھ منہ پھٹ بھی۔ برداشت کی کمی کی وجہ سے وہ بڑے چھوٹے کا لحاظ کرنے سے قاصر ہے۔ اسمیں ضد اور انا کوٹ کوٹ کے بھری ہے۔ انا کی بجائے اگر اسے خودداری کا درس دیا جاتا تو حالات مختلف ہوتے۔
بہرحال مقصد تنقید کرنا نہیں ہے بلکہ اپنے بچوں کی تربیت اخلاقیات اور دینی تعلیمات کے دائرے میں کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں صحتمندانہ سرگرمیوں کی طرف راغب کرنے کے اشد ضرورت ہے۔ ہم نے بچوں پر کتابوں کا بوجھ تو لاد دیا ہے لیکن انکی تربیت سے لاپروا ہو گئے ہیں.ہمیں اپنے بچے کو ایک بہترین انسان بنانے کے لئے اسکے ساتھ وقت بتانا ہوگا۔ اسکی ذہانت کو مثبت انداز میں ڈھالنا ہو گا اور اسکی خوداعتمادی کو اخلاقی اقدارکے ذریعے ا cutجاگر کرنا ہوگا ۔ یہی آج کے والدین کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ یہیں سے اچھی قوم بنے گی۔ جو ملک وملت کا نام روشن کریگی۔
اللہ کریم ہمیں اور ہمارے بچوں کو حکمت عطا کرے آمین