انسانی حمل ایک پیچیدہ عمل ہے۔ حمل کے دوران ایک عورت کے جسم میں کئی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ ان تبدیلیوں کی سب سے بڑی وجہ عورت کے جسم میں ہارمونز کے توازن کا بگڑنا ہوتا ہے ۔ ہارمونز کیا ہوتے ہیں؟ ہارمونز دراصل کچھ خاص طرح کے کیمیکلز ہوتے ہیں جو انسان کے جسم کے مخصوص حصے جنہیں غدود کہا جاتا ہے، اُن سے نکلتے ہیں اور یہ انسان کے جسم میں ہونے والے مختلف عوامل کو کنٹرول کرتے ہیں۔غدود پر بات کی جائے تو انسان کے جسم میں سب سے اہم غدہ دماغ میں موجود پچوٹری گلینڈ ہے جو خود کئی ہارمونز خارج کرنے کے علاوہ ایسے ہارمونز بھی خارج کرتا ہے جسکی بدولت جسم کے دوسرے غدود بھی ہارمونز خارج کرتے ہیں۔ گویا یہ پکچوٹری گلینڈ جسم کے غدود اور اُنکے ہارمونز کو کنٹرول کرتا ہے۔
مختلف ہارمونز کے خارج ہونے سے انسانی نفسیات پر بھی گہرا اثر پڑتا ہے۔ کسی ہارمون کے کم یا زیادہ خارج ہونے سے انسان کے موڈ بدلتے ہیں بھوک بڑھتی یا کم ہوتی ہے، دباؤ، غصہ، خوف، اور دیگر کئی جذبات کا تعلق ان ہارمونز کی جسم میں مقدار پر منحصر ہوتا ہے۔
حمل کے دوران عورت کے جسم میں انہی ہارمونز کا توازن بگڑتا ہے جس سے وہ کئی نفسیاتی اور جسمانی ہیچیدگیوں کا شکار رہتی ہیں۔ مگر یہ سلسلہ محض حمل کے اختتام پر ختم نہیں ہوتا۔ سائنس یہ بتاتی ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد ہر نو میں سے ایک عورت ایک خاص طرح کے ڈپریشن کا شکار رہتی ہے۔ اسے “پوسٹ پارٹم ڈپریشن”کہتے ہیں۔
“پوسٹ پارٹم ڈپریشن” کی علامت پیدائش کے فوراً بعد عورت میں شروع ہو جاتی ہیں اور بعض عورتوں میں یہ سالوں رہتی ہیں۔ اسکا شکار خواتین بچے کی پیدائش کے بعد عورت خالی خالی محسوس کرتی ہیں، اُن میں ایک نا اُمیدی سی آ جاتی ہے، اُنہیں اپنے نوزائیدہ بچے سے کوئی لگاؤ،۔کوئی محبت نہیں رہتی۔ وہ بچے کو اور خود کو مارنے کا بھی کئی بار سوچتی ہیں۔اسکی علامت میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ کسی شے میں دلچسپی نہیں لیتی، دوستوں رشتہ داروں یا کسی اور شخص سے میل ملاپ یا بات چیت کا دل نہیں کرتا حتیٰ کے جنسی خواہشات بھی ماند پڑ جاتی ہیں جن سے شادی کے مسائلِ پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ مسلسل سر میں درد، زیادہ یا کم نیند آنا، غصے میں رہنا، چڑچڑاپن ، بھوک کم لگنا، نظامِ ہضم کا خراب ہونا، جسم اور چہرے پر بالوں کا اُگنا، خود کو شرمندہ شرمندہ محسو کرنا وغیرہ وغیرہ یہ تمام پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی علامات میں شامل ہیں۔ اگر اس ڈپریشن کی تشخیص جلد سے جلد ہو جائے تو اس سے نپٹا جا سکتا ہے۔ ورنہ یہ ایک خاندان کو تباہ بھی کر سکتا ہے۔ اس حوالے سے تین رویوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اول کسی عورت کی حمل کے بعد دیکھ بھال کرنا اور دوسرا اس طرح کے معاملات سے آگاہی حاصل کر کے خواتین کے ساتھ نرم اورشائستہ رویہ اختیار کرنا اور اُنکی مشکلات کو سننا شامل ہے۔اور تیسرا علامات ظاہر ہونے کی صورت بروقت کسی معالج سے مشورہ لینا ۔
ہمارا پدر شاہی معاشرہ جہاں عورتوں کے مسائل کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی وہاں اس بارے میں لوگوں کو آگاہی دینا ضروری ہے کیونکہ ایک عورت حمل کی پیچیدگیوں سے گزرنے کے بعد جب ان مسائل سے گزرتی ہے تو اُسکا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا۔ اسکے علاوہ نوزائیدہ بچے کی دیکھ بھال کی بہت بڑی ذمہ داری اُسکے کندھوں پر آ جاتی ہے۔
یوں ایک عورت پِس کر رہ جاتی ہے۔ اس مسئلے کو نہ سمجھ کر اور خواتین کی حوصلہ افزائی نہ کر کے دراصل ماں کے ساتھ پیدا ہونے والے بچے کی صحت پر بھی گہرا اثر پڑتا ہے۔
لہذا معاشرتی رویوں کو بدلنے اور ان معاملات سے مکمل آگاہی حاصل کرنا خاوند کی اور اُس عورت کے قریب رہنے والے لوگوں کی ذمہ داری اور فرض میں شامل ہے۔ نجانے کتنی عورتیں آج بھی چُپ چاپ اس بیماری سے گزر رہی ہونگی اور ساتھ ہی ساتھ معاشرے کے طعنوں کو بھی سہہ رہی ہونگی۔
اپنی نسلوں کی بہتری کے لیے اس رویے کو بدلنا اور اس حوالے سے آگاہی ہم سب کا فرض ہے۔ اس پوسٹ کو ہو سکے تو جتنا شئیر کر سکتے ہیں کیجیے تاکہ لوگوں میں اس حوالے سے آگاہی پھیلے۔ شکریہ
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...