لوگ مر کیوں جاتے ہیں۔ ہنستی بستی زندگی گزارتے گزارتے، دوستوں، بچوں، ہمسایوں اور سب سے بڑھ کر اپنی پیار کرنے والی شریکِ حیات کو اچانک سے بغیر خدا حافظ کہے،چپکے سے کروٹ بدل کر رزقِ خاک بن جاتے ہیں۔ کبھی نہیں لوٹتے، مُڑ کر بھی نہیں دیکھتے۔ کتنی عجیب بات کہ وہ گھر جس کو بنانے کے لیے سو جتن کیے، ایک ایک دورازہ، ایک ایک دیوار انگلی کے پوروں سے کھڑی کی، آنگن کی سخت زمین کو نرم کرکے سو سو بُوٹے لگائے اور ان کی اپنے پسینے سے آبیاری کی۔ جب پھل پھول رنگ اور خوشبو بکھیرنے لگے، ان پر نیلے پیلے پرندے اپنے نازک نازک گلوں سے موسیقی کا سحر پھونکنے لگے تو صاحب جی کو کیا ہوا کہ اچانک اس جہانِ رنگ و بُو کو کنارہ کر کے رنگ، رونق اور روشنی سے دُور شہرِ خموشاں میں جا بسے۔ منہ بھی موڑ گئے اور اُلٹا ناراض بھی ہم سے کہ یہ سب ہمارا کیا دھرا ہے۔ ذرا دیکھو تو سہی یہ حامد سراج صاحب ہمیں کیا کہہ رہے ہیں
دبا کے قبر میں سب چل دیے نہ دعا نہ سلام
ذرا سی دیر میں یہ کیا ہو گیا زمانے کو۔۔۔۔
حامد بھیا کی رخصتی کی خبر انہی کے موبائل نمبر سے ملی جس میں غیر ادبی تحریر میں مطلع کیا گیا کہ میرے والد حامد سراج صاحب وفات پا گئے۔ جس سکرین پر ان کے نام تلے ہمیشہ یارانِ چمن سے بات شروع ہوتی تھی آج ایک عجب قصہ غم سنا رہی تھی۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں۔ اگر احمد آفتا ب نیازی کی کال نہ آتی تو میں اس خبر کو سچ نہ مانتا۔میں دل کو بہلا ہی رہا تھا کہ شاید یہ حامد صاحب کا لکھا ہی پیغام تھا اور شاید ان کے والد داغِ مفارقت دے گئے۔ بہرحال تقدیر کے لکھے کو کون مٹا سکتا ہے۔
حامد سراج اور میرا ادبی تعلق ا ٓغاز و اختتام کو دیکھیں تو ربع صدی پر مشتمل رہا لیکن حقیقت میں یہ تین چار سالوں پر ہی محیط تھا۔ درمیان کے سال ایک خلا بن کر جانے کہاں سے آن موجود ہوئے۔ یہ خلیج کانٹے کی طرح ہمیشہ چبھتی رہے گی۔ مجھے جب ان کی بیماری کا پتہ چلا تو ماضی کی تمام غیر حاضریوں اور ان کی سچی جھوٹی وجوہات کو بھلا کر عصمت گل خٹک اور ضیا قریشی کے ہمراہ آستانہ پہ جا حاضر ہوا۔ وہی گھر، وہی دالان، وہی خاموشی، وہی سکون، وہی ماحول لیکن حامد سراج پہلے والا نہیں تھا۔ بیماریوں نے اس کے چہرے کی چمک دمک کو مٹا دیا تھا۔ ہارڈ وئیر میں تھوڑا بدلاؤ ضرور تھا لیکن سافٹ وئیر ویسا ہی سافٹ تھا۔ وہی محبت، وہی لگاؤ، وہی انس۔ مجھے یاد ہے ہم گرمیوں کے موسم کے باوجود ان کے لان کے سبزہ زار کے بیچ میں کھڑے یکا و تنہا درخت کی چھاؤں میں بیٹھے تھے۔ ہمارے آنے پر وہ بہت خوش ہوا تھا۔ یہ خوشی اس کی باتوں سے عیاں ہو رہی تھی۔ گھنٹہ بھر کی ملاقات ایک اور ملاقات کے وعدے پر ختم ہوئی لیکن وہ دوسری ملاقات افسوس نہہو سکی۔
حامد سراج پر بیسیوں مضامین لکھے جائیں گے۔ اس کے فن اور شخصیت کو کھنگالا جائے گا۔ میں ایسا نہیں کرنا چاہتا۔ میں ایسا کر بھی نہیں سکتا۔ میرے میں ایسی صلاحیت بھی نہیں ہے اور نہ میں اس کا حق رکھتا ہوں۔
حامد سراج بہت بہادر آدمی تھا۔ اس نے کبھی کمزوری ظاہر کرتے ہوئے اپنی بیماری کو نہ چھپایا۔ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو کر بھی اس نے ہمت نہیں ہاری اور ہر کسی کو یوں بتاتا جیسے کینسر نہ ہومعمولی سر درد ہو۔ روانگی سے دو دن پہلے ایک ٹی وی انٹرویو میں اس نے جس بہادری سے گفتگو کی یاد رکھنے کے قابل ہے۔ لگتا تھا کہ بیماروہ نہیں بلکہ انٹرویو لینے والی محترمہ ہیں جس کو وہ ہر ہر جملے پر دلاسہ دے رہا تھا۔ پھر اگلے دن مظہر نیازی سے ملاقات کا قصہ تو ہر کسی نے مظہر نیازی کی پوسٹ پر پڑھ ہی لیا۔ کون جانتا تھا کہ آج کی ملاقاتیں الوداعی ملاقاتیں ہوں گی اور آج کی رات ان کی اس جہانِ رنگ و بُو کی آخری رات ہو گی۔
حامد سراج کی کہانیوں نے تین دہائیوں سے اردو کی دنیا کو سحر میں مبتلا کر رکھا تھا۔ اس کی فطرت سے محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ اس کی داستانوں کو ہمیشہ ایسی ہی محبت سے پڑھا جاتا رہے گا لیکن وہ داستان گو اب نہیں ہوگا۔
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے