ہمیں بخار کیوں ہوتا ہے؟
بخار کا مطلب ہے جسم کا درجہ حرارت نارمل سے بڑھ جانا۔ ہمارے جسم کا نارمل درجہ حرارت اوسطاً 98.6 درجے فیرن ہائیٹ ہوتا ہے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ بخار بذات خود کوئی بیماری نہیں ہے اور یہ بات درست بھی ہے کیوں کہ بخار ہمارے جسم کے انفیکشن کے خلاف تحفظ کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ یعنی یہ ہمارے جسم کا ڈیفنس میکنزم ہے۔ جب ہمارا جسم انفیکشن کے خلاف نبرد آزما ہوتا ہے تو ہمارے جسم کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔ اس لحاظ سے بخار بذات خود کوئی بیماری نہیں ہے بلکہ یہ انفیکشن کی علامت ہے۔ دیکھا جائے تو بخار تقریباً ہر بیماری ،جسے ہم جانتے ہیں، کی علامت ہے۔ٹھنڈ لگنا ، گلے کے غدود کی سوزش، درمیانی کان کی سوزش، زکام، سانس کی نالی کی سوزش، تشنج، خسرہ، کن پیڑے، چیچک اور نمونیا، یہ سب کی سب بیماریاں بیکٹیریل اور وائرل انفیکشن کی مثال ہیں۔ بخار اس بات کا اشارہ ہے کہ ہمارے جسم کے اندر کوئی جنگ جاری ہے۔ بعض صورتوں میں ویسے بھی جسم کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ مثلاً شام کے وقت عام طور پر جسم کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔ کسی جسمانی مشقت، شدید جذباتی کیفیت، کھانے پینے، بھاری کپڑے پہننے، میڈی کیشن، کمرے کے گرم ماحول، اور ہوا میں نمی کا تناسب زیادہ ہونے کی وجہ سے بھی جسم کا درجہ حرارت نارمل سے زیادہ ہوجاتا ہے۔ بچوں میں خاص طور پر یہ تبدیلی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ چھ ماہ سے کم عمر بچوں میں درجہ حرارت کے روزانہ انحرافات معمولی ہوتے ہیں۔ چھ ماہ سے دوسال کے بچے کے جسم کے درجہ حرارت میں روزانہ انحراف ایک ڈگری تک ہو سکتا ہے اور چھ سال کی عمر تک یہ فرق 2 ڈگری تک ہو سکتا ہے۔ بالغ افراد کے درجہ حرارت میں روزانہ انحراف کم ہی ہوتا ہے تاہم خواتین کے مخصوص ایام میں جسم کا درجہ حرارت ایک ڈگری فرین ہائیٹ تک بڑھ سکتا ہے۔ جسم کے اندر ایک انتہائی پیچیدہ عمل بخار کی وجہ بنتا ہے۔ ہمارا خون اور لمفاوی نظام (Lymphatic Systems) وائیٹ بلڈ سیل پیدا کرتے ہیں جو کہ انفیکشن کے خلاف لڑتے ہیں۔ جب ہمارے جسم میں خون کے سفید ذرات کی تعداد بڑھتی ہے تو یہ ایک فوج کی طرح جراثیم کے خلاف لڑتے ہیں۔ وہ اور بھی زیادہ تیزی سے جراثیم پر حملہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے جسم کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے جسے بخار کہا جاتا ہے۔دماغ میں ہایپوتھیلمس جسم کے درجہ حرارت کو متوازن رکھنے کا میکنزم ہے۔ یہ پائروجنز یعنی بخار پیدا کرنے والے جرثومی زہروں سے یا خون کے سفید ذروں سے متاثر ہوتا ہے جو انفیکشن کے خلاف لڑنے کے لئے پیدا ہوتے ہیں۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ بخار کا مطلب ہے انفیکشن کے خلاف لڑائی اور یہی وجہ ہے کہ بخار کو بہت جلد اور بہت تیزی سے نیچے لانا درست نہیں ہوتا۔ عام طور پر 100 سے 101 ڈگری فیرن ہائیٹ درجہ حرارت جسم کے لئے ٹھیک سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جسم انفیکشن کے خلاف برسرپیکار ہے۔ تاہم اگر بخار زیادہ بڑھ جائے تو پھر اسے نیچے لانے کی تدبیر کرنی چاہیے۔ 104 یا 105 فیرن ہائیٹ درجہ حرارت پر بخار کافی زیادہ ہوجاتا ہے۔ 105 سے اوپر جانے پر اعصابی نظام میں ٹوٹ پھوٹ ہو سکتی ہے۔ بعض لوگوں میں جب بخار 102 ڈگری سے اوپر جاتا ہے تو انہیں دورے پڑنے شروع ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ بخار بیماری کے خلاف مزاحمت کرکے ہماری مدد ہی کر رہا ہوتا ہے لیکن پھر بھی یہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ بخار میں آرام کی خاطر عام طور پر ماتھے پر گیلی پٹیاں لگائی جاتی ہیں اور بخار کم کرنے والی ادویات دی جاتی ہیں۔ بخار میں ہلکا کمبل اوڑھنا چاہیے کیوں کہ بھاری کمبل حرارت کو باہر نہیں جانے دیتا جس سے جسم کا درجہ حرارت اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ بخار کی حالت میں گرم پانی سے نہانے سے گریز کرنا چاہیے کیوں کہ اس سے بھی جسم کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔مائعات زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے چاہیے تاکہ ڈی ہائیڈریشن سے بچا جا سکے۔ سادہ پانی اور فروٹ جوسز خاص طور پر بخار کی حالت میں مفید ہوتے ہیں۔ اگر بخار زیادہ ہو تونلکے کے پانی سے کپڑا گیلا کرکے ’’غسل‘‘ کیا جا سکتا ہے۔ چھوٹے بچوں میں تیز بخار کی صورت میں فوری طور پر ڈی ہائیڈریشن ہوجاتی ہے۔ خاص طور پر اگر ساتھ میں ڈائیریا اور قے کی بھی صورت حال پید ا ہوجائے۔ ایسی حالت میں فوری طور پر او آر ایس وغیرہ سے پانی کی کمی پوری کی جاسکتی ہے۔ بخار کی دیگر حالتوں میں آرتھرائٹس اور لیوکیمیا شامل ہیں جن میں جسم ناقص اور بیکار وائٹ بلڈ سیلز پیدا کرتا ہے جس سے بخار ہوتا ہے لیکن یہ وائٹ سیل انفیکشن کے خلاف نہیں لڑ رہے ہوتے۔ اسی طرح لُو لگنے سے بھی بخار ہوجاتا ہے۔ ہیٹ سٹروک کی صورت میں زیادہ دیر تک براہ راست دھوپ کی زد میں رہنے کی وجہ سے جسم کے درجہ حرارت کو متوازن رکھنے والا نظام درست طور پر کام نہیں کرتا۔ جسم نہ تو درجہ حرارت کو نیچے لاتا ہے اور نہ ہی پسینہ آتا ہے۔ اس میں جان جانے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔ اس لئے فوری طور پر طبی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے بخار کی صورت میں مریض کو عام طور پر ٹھنڈے پانی میں غوطہ دیا جاتا ہے اور ٹھنڈے مشروبات پینے کو دئیے جاتے ہیں۔ بخار کی ایک عام قسم مچھروں کے ذریعے پھیلتی ہے جسے ملیریا کہا جاتا ہے۔ دنیا میں ہر سال تقریباً 30 کروڑ انسان ملیریا سے متاثر ہوتے ہیں اور ہر سال 10 لاکھ سے لے کر 15 لاکھ لوگوں کی اس سے موت بھی واقع ہوجاتی ہے۔ ملیریا کا سبب پلازموڈیئم قسم کے پروٹوزوآن پیراسائٹس ہیں۔ مختلف شکلوں میں پلازموڈیئم کی چار اقسام بیماری پھیلاتی ہیں۔ ملیریا پیراسائٹس ایک آدمی سے دوسرے آدمی میں انافلیز (Anopheles) نامی مادہ مچھر کے کاٹنے سے منتقل ہوتے ہیں۔ نر مچھر یہ بیماری نہیں پھیلاتے کیوں کہ وہ صرف پودوں کے رس پر زندگی گزارتے ہیں۔ انافلیز مچھر کی 380 سے زائد اقسام ہیں لیکن صرف 60 کے قریب قسمیں ایسی ہیں جو پیراسائٹ ٹرانسمٹ کرتی ہیں۔ مچھروں کی دیگر اقسام کی طرح انافلیز بھی پانی میں پرورش پاتے ہیں۔ پلازموڈیئم مچھر کے پیٹ میں ڈیویلپ ہوتے ہیں اور پھر متاثرہ کیڑے کے لعاب میں شامل ہوجاتے ہیں۔ مچھر جب خوراک حاصل کرنے کے لئے کسی کو کاٹتا ہے تو پیراسائٹس شکار کے جسم میں داخل ہوجاتے ہیں۔ بخار کے بارے میں یہ معلومات محض قارئین کے علم میں اضافہ کی خاطر فراہم کی گئی ہیں۔ یاد رکھیں کہ کسی بھی بیماری کی صورت میں اپنے لئے خود علاج تجویز کرنا درست نہیں ہوتا۔ اس طرح کے طرز عمل سے نقصان ہو سکتا ہے۔ بیماری کی صورت میں ڈاکٹر سے رجوع کریں اور دوا ہمیشہ کسی مستند معالج کی تجویز پر استعمال کریں
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“