ہمیں ایک قوم بننے نہیں دیا گیا۔۔3
—————————–
ایک بنیادی خرابی جو ہماری سوچ میں پیدا کی جاچکی یہ ہے کہ قومیت کی بنیاد مزہب پر ہے جو ایک و ایک فی صد خلاف حقیقت ہے۔امریکی ملایؑشین برطانوی جرمن ترک جاپانی ایرانی مصری اور ٹرکش سب کی قومیت کا حوالہ ان کا ملک ہے۔۔مسلمان ایک مزہب کے پیروکار ہیں جو ان سب ممالک میں اباد ہیں ۔نتیجہ یہ کہ پاکستان میں ہنندو عیسایؑ احمدی پارسی سکھ سب گویا پاکستانی نہیں رہے اور اکثریت کے تشدد کا نشانہ بنے تو ملک بھی چھوڑ گےؑ ۔ اس سے اگلے مرحلے میں انشار کو متشدد بنانے میں ضیا الحق کے اسلام نے Divide and Rule کی پالیسی کو خانہ جنگی میں جھونکا لیکن اس کے اقتدار کو طول ملا فیصلہ اب تک کلاشنکوف۔ خود کش جیکت۔بم بارود کی قوت پر کیا جارہا ہے کہ "مسلمان" کون ہے۔۔ کیا یہ ملک مسلمانوں کیلےؑ نہیں بنا تھا ؟
اسلام کے عقایؑد میں وطن کا تصور ہی نہیں۔علامہ اقبال کا ایک شعر دیکھؑے
ان تازی خداوں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
دوسرا حوالہ بانگ درا میں ان کی نظم ہے جو یوں شروع ہوتی ہے
طارق چوں بر کنارہؑ اندلس مسلم سفینہ سوخت
گفتند کار تو بہ نگاہ خرد خطا ست
(ترجمہ:- طارق بن زیاد نے جب اسپین کے ساحل پر کشتیاں جلا دیں تو سب نے کہا کہ یہ تو نے کیا بے وقوفی کی ہے؟)
اس کا جواب کیا تھا؟ ہر ملک ملک ملک ماست کہ ملک خداےؑ ماست۔۔۔ یعنی۔۔ہر ملک ہمارا ملک ہے کیونکہ ہمارے خدا کا ملک ہے۔۔۔کیا اس سے از خود اس نظریہ پاکستان کی نفی نہیں ہوتی جو ان سے منسوب ہے کہ انڈیا کے مسلمانوں کو ایک الگ وطن چاہۓ۔۔لیکن جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا۔۔میں دو قومی نظریے کی بات 70 سال بعد لا حاصل سمجھتا ہوں۔۔میں اسی بات پر قایم ہوں کہ اب بقا کیلۓ ںاگزیرہے کہ پاکستانی کو ایک قوم ہونا چاہؑے۔۔لیکن حاکمیت قایم رکھنے والے بہت پہلے صوباییؑت کو قومیت کی بنیاد بنا چکے اور اگلا مرحلہ یہ ہے کہ برتر کون ہے جسے حاکمیت کا حق حاصل ہو
کسیایک صوبے کو بر تر ثابت کرنے کیلؑؑےؑ دوسرے کو کمتر بنانے کی تحریک ضروری تھی۔"دال چاول مچھلی کھاکے مچھلی کی طرح بچت پیدا کرنے والا۔۔۔( اس وقت مشرقی حصے کی ابادی ساڑھے چار اور مغری پاکستان کی ساڑھے تین کروڑ تھی جب کہ وہ حصہ رقبے میں ایک تہایؑ سے بھی کم تھا ) ۔۔ سوکھا سڑا۔۔کالا – ۔گھر دفتر بازار میں ہندو کی طرح دھوتی باندھنے والا بنگالی۔۔جس کی بہو بیٹیان سب کے سامنے ہندو کی طرح ناچتی گاتی ہیں تو وہ اس کو فخر سے اپنا کلچر کہتا ہے" ۔۔۔۔۔۔ ایسی سب باتیں مغربی پاکستان میں پھیلایؑ گییؑں۔۔لیکن ابھی میں بنگلہ دیش بننے کا سیاسی مسؑلؑہ موخر کرتا ہوں
مغرب حسے کے پاکستان میں حریت پسند غیور۔جسمانی قفدو قامت رنگ اور نسل میں برترنظر انے والا سرحد کا پٹھان ذہنی طور پر بھی واضح برتری کا حامل نظر اتا تھا،اس کیلےؑ تاریخ سند ہے۔۔انگریز کت کلاف جہاد مٰین سب سے زیادہ پٹھان مارے گےؑ اور انہوں نت سب سے زیادہ انگریز مارے۔۔ان کے خلاف عسکری کارروایؑ راولپڈی کی ناردرن کمانڈ سے ہویؑ اور یہاں "ہارلے اسٹریٹ" میں 200 سال پرانا سب سے بڑا گورا قبرستان اس کی تاریخی شہادت دیتا ہے لیکن آپ پشاور کی طرف جاییؑں توپہلے "سنگ جانی" کی دو پہاڑیوں میں سے ایک کی چوٹی پر کسی انگریز میجر کی قبر پر استادہ لا ٹ یا ستون نظر اتا ہے۔سڑک درمیان سے گزرتی ہے۔۔ایسی یادگاریں آپ کو ہر جگہ نظر آییں گی
اب بات کرتے ہیں ان کی ذہنی صلاحیت کی تو کسی شعبے کو لیں۔۔ فوج میں ایوب خان نور خان۔اصگر خان جیسے نام بہت ہیں۔۔غیر منقسم انڈیا میں موسیقی میں اکبر کے تان رس خاں (تان سینٗ)۔پھر آفتاب موسیقی فیاض خاں۔بڑے غلام علی خان۔عبدا لکریم خان سے حال ہی مین وفات پانے والے فتح علی خان تک سب پٹھان۔۔شہنایؑ میں بسماللہ خان (انھون نے 15 اگست 1947 کو لال قلعہ پر نہرو کے بھارتی پرچم لہرانے کی تقریب میں شہنایؑ بجای) سارنگی میں بندو خاں۔۔ستار میں ولایت خان سرود میں علی اکبر خان۔طبلے میں ذاکر خان۔ چتربین میں علاوالدین خان۔۔ان گنت نام اپنی سند آپ ہیں۔۔کرکٹ کو لیں تو شاہد آفریدی سے پہلےرنز کی تعداد اور فتوحات میں سب سے بڑا نام یونس خان۔۔جس کو اسٹریلوی کپتان نےPerfect Gentleman کہا۔۔باولنگ میں عمران خان جس نے پاکستان کو واحد ورلڈ کپ دلایا۔۔ اسکوایژ میں ہاشم خان فیملی جس کا بیٹا جہانگیر خان ورلڈ اسکواش فیڈریشن کا صدر بھی بنا اور جس پر بی بی بی سی نے اپنی فلم The Conquerer بنای۔اور پھر جان شیر خان۔۔ لمبی فہرست ہے
آ جاییےؑ بزنس پر۔۔کراچی لاہور راولپنڈی مہیں"رابی سنٹر" اعلیٰ ،لکی اور غیر ملکی کپڑے کے مراکز انہی کے ہین اور کپڑے کی تجارت میں لنڈا بازار کیا کپڑا جو کروڑوں کو سفی پوشی اورسردی میںحفاظت دیتا ہے سب پٹھان ہیں۔۔تینون بڑے شہرون میں پرانی کارون کے اسپیرؑ پارٹس کی مارکیٹ انہی کی ہے وہی دبیؑ اور جاپان سے اسکریپ لاتے ہیں جس سے غریب کی پرانی سے پرانی کار رواں دوان رہتی ہے یہ ٹرانسپورٹ کے شعبے سے فروت اور سبزی منڈی تک نظر آتے ہیں ۔یہ سب لکھ پتی کروڑ پتی ہین گو حلیے سے نظر نہیں اتے۔۔ان کے شنوای ہوٹلون نے کڑاہی گوشت نے قورمے کو اڑادیا ۔چاےؑ اور پراٹھے نے اپنی اجارہ داری قایم کرلی،یہ پرچون فروش ہیں بوٹ پالش بھی کرتے ہیں مزدوری بھی اور جہاد بھی،تعلیم کے تناسب مین صوبہ سرھد اور سرحد میں سوات سب سے آگے تھا۔۔ میں نے ایک قبایلی ایجنسی مالاکنڈ کی تحصیل تھانہ میں دو گرلز کالج اور 6 اسکول خود دیکھے جس میں سب دے پرانا 1893 کا قیم شدہ تھا۔۔۔۔اسکولوں کی تباہی کا کار خیرسوات ہی سے شروع کیا گیا
پٹھان پورے ملک میں معشی برتری قایم کر چکے تھے جب ان کو بدنام اور تباہ کرنے کی پالیسی پر عمل شروع ہوا۔۔ان کی کم عقلی کے لطیفے سب سے زیادہ ہیں جو ہر روز ایجاد ہوتے ہیں اور پھیلاےؑ جاتے ہیں۔ مگر یہ برا نہیں مانتے اور سب کے ساتھ خود پرہنستے ہیں۔ان کی نسوارکا خوب مزاق بنایا گیا،ان کو اسمگلر۔ جاہل اور غیر مہزب۔۔ہم جنس پرست کیا نہیں کہا جاتا۔کراچی میں جرایم کو انہی سے منسوب کیا جاتا ہے وہان صنعت کاری نہیں کی گیؑ مگرضرب ؑعزب کا نشانہ علاقہ غیر ہی بنا۔۔وہ اج بھی ہمارے لےؑ غیر ہیں لیکن اب ایک تازہ کردار کشی کی مہم میں ان کو دہشت گردی میں پیش پیش ثابت کیا جارہا ہے۔تین بڑے شہروں میں ان کو افغان تخریب کاروں کا سہولت کار قرار دیا جارہا ہے۔جب تک میں پشاور میں طالب علم تھا ہر موسم سرما میں 4 لاکھ سے زاید خانہ بدوش جو پاوندے کہلاتے تھے پاکستان ا جاتے تھے اوراس میں کویؑ خرابی نہ تھی افغانستان کو اجناس کی فراہمی ایک طرح سےہماری ذمے داری تھی
جیسے سپر پاورز چھوٹے ملکوںکی معاشی پیش رفت روکتی ہیں ایسے ہی ہماری حکمران بیورو کریسی رفتہ رفتہ پٹھان کی ہر شعبے میں بالادستی سے خایؑف ہویؑ۔۔کالا باغ ڈیم نہیں بننے دیا گیا۔۔سب جانتے ہیں دہشت گردی کے مراکز کہاں ہیں مگر سزا کسے مل رہی ہے۔۔کیوں؟۔۔ذرا بے تعصب ہو کے سوچےؑ کہ کیا مسؑلہ زبان کا ہے؟ انڈیا کے تیس صوبوں کی تیس زبانیں ہیں۔ وہان 25 کروڑ مسلمان ہیں۔ دہلی کی جامع مسجد کے پیش امام بخاری نے سیڑھیوں پر بیٹھ کے انٹر ویو دیتے ہوےؑ کہا تھا کہ مسلمانون کے وہ سارے فرفے تو یہاں بھی ہیں جو وہان آپس میں خونریزی کر رہے ہیں؟ پاکستان میں ایسا کون کرا رہا ہے اور کیون؟۔اور اینکر بغلیںجھانکتا نظر آیا تھا
۔دوسرے صوبوں کا کچھاھوال واقعی پھر سہی
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔