ہمیں ایک قوم کیوں نہیں بننے دیا گیا۔۔2
——————————-
مزید کچھ عرض کرنے سے پہلے میں اپنی کم آگاہی کا اعتراف کر لیتا ہوں ۔۔میں نہ تاریخ داں نہ مفکر۔۔میری یاد داشت میں عام انسانی فرو گزاشت ممکن اور میرا مشاہدہ کم فہمی پر مبنی ہو سکتا ہے مجھے ہرگزہرگز ؎ نہ سایش کی تمنا نہ صلے کی پروا۔۔میں اس اختلاف کا متمنی ہوں جو دلیل ۔ درست حوالے اور واقعاتی حقایق پر مبنی ہو اور میرے فکری نتایج کی تصحیح کرے۔میں سب کی آراؑ کی قدر اور سب کے جزبات کا احترام ہی عین انسانیت اور اپنی اخلاقی ذمے داری جانتا اور مانتا ہوں
گزشتہ تحریر نے صرف صوبہ سرحد کی تصویر کا ایک رخ پیش کیا تھا جو مجھے نظر آیا لیکن حرف آغاز ہی تو حرف آخر نہیں اور ابتدا کسی انتہا کی امانت دار نہیں۔یہ سوال زیادہ اہم ہے کہ ملک کے دیگر حصے کس کی سازش کا شکار تھے اور میں اس کا جواب بھی اپنی عقل رسا کی مدد سے ہی دوںگا لیکن ؎ سفینہ چاہےؑ اس بحر بیکراں کیلۓ پختونستان تحریک ایک حصے میں اقلیت کی سوچ تھی جو اپنی موت آپ مرگیؑ لیکن کچھ سوال چھوڑ گیؑ
سرحد کے غیوراور حریت پسند عوام نے غلامی کا طوق کبھی قبول نہیں کیا تھا انگریز کے خلاف ان کا جہاد ہمیشہ جاری رہا جس کی سزا ان کو علاقہ غیر میں ایجنسی کی جابرانہ طرز حکمرانی کی صورت میں دی گیؑ جہاں ایک سیاہ قانون Frontier Crimes Regulat آج تک نافذ ہے۔۔ اس کی تفصیل میں جانا ممکن نہیں ۔ہر ایجنسی پر انگریز کا ایجنٹ کسی چنگیز خاں کی طرح راج کرتا تھا۔۔وہ مدعی سے منصف تک سب کچھ تھا۔اس کے اختیار میں تھا کہ ایک جرم کی اجتماعی سزا پوری بستی کو دے اور ایک مرد کے جرم میں اس کے خانداں کو جیل میں ڈال دے چنانچہ پردہ دار ماییؑں بہنیں بیٹیان ہی نہیں ان کے شیر خوار بچے بھی پابند سلاسل رہے۔ ان کیلۓ پاکستان کی کسی اعلیٰ ترین عدالت میں اپیل نہ تھی آ آ زادی نے ان کو کیا دیا؟ وہ آمرانہ کالا قانون اسی طرح قبایلی سمجھے جانے والے علاقے میں اج بھی نافذ ہے۔۔گورے کی جگہ نوکر شاہی کے نمایندے کالے ایجنٹ نے لے لی ہے۔ ایجنسیوں پر مشتمل علاقہ غیر آج بھی پاکستان کا حصہ نہیں۔۔ کیا اسی لےؑ سرحد کے عوام نے ریفرنڈم میں بھاری اکثریت سے کانگریسی حکومت کا فیصلہ مسترد کر کے متفقہ طور پر کہا تھا کہ وہ پاکستان چاہتے ہیں؟۔۔جواب بہت سادہ ہے۔۔ کالا انگریز بھی Divide and Rule کی پالیسی کو اقتدار پر قابض رہنے کیلےؑ ضروری سمجھتا تھا اورجغرافیایؑ خط تقسیم نے ملکی حکمرانون کی سوچ کونہیں بدلا تھا۔۔وہ عوام کو غلام رکھنے پر اتفاق راےؑ کر چکے تھے ،ان حکمرانوں میں آیؑ سی ایس نوکر شاہی کے ساتھ وہ جاگیر دار طبقہ اقتدار میں شریک ہو گیا جو انگریز سے وفاداری کا انعام خان بہادر یا سر جیسے خطابات اور جاگیروں کی صورت میں پا چکے تھے۔۔علامہ اقبال نے تو کہا تھا
آ بتاوں تجھ کو رمز آیہؑ ان الملوک ۔۔۔۔ سلطمت اقوام عالم کی ہے اک بازیگری
لیکن ان وطن فروش وڈیروں اور جاگیر داروں نے ایک قدم اگےجا کراپنی روحانی برتری کا جال بھی پھیلا دیا اور ولایت سے قانون کی سند ایل ایل بی لینے کے بعد خود کو پیر کا درجہ بھی دیا اور آج تک ان کا عقیدت مند انہیں (نعوذ باللہ) خدایؑ قوتوں کا علمبردار سمجھتا ہے۔انہی سے رزق۔۔ اولاد۔ بیماری اور موت سے نجات اور زندگی مانگتا ہے۔ایسا تب ہی ممکن تھا جب اس تک تعلیم سے پہنچنے والی بصارت اور بصیرت کی روشنی نہ پہنچنے دی جاےؑ۔ اس مشن کی تکمیل میں طاقتور بیوروکریسی ان کی شریک بنی اوربالاخر عسکری قوت بھی۔۔آج آپ جانتے ہیں ہم تعلیم کے معیار میں کہاں کھڑے ہیں۔۔ہماری اعلیٰ درس گاہوں میں ایک بھی دنیا کی500 معیاری ینیورسٹی نہیں سمجھی جاتی۔۔ان کی عطا کردہ ہر سند جعلی ہے۔۔ ۔بی اے سے ایم اے اورپی ایچ ڈی تک۔۔جب تک کہ ہایؑر ایجوکیشن کمیشن اس پر مہر تصدیق ثبت نہ کرے ۔۔اس تصدیق کے بغیر کلرک کی نوکری بھی نہیں ملتی
کیا پختونستان جیسی مرکز گریز سندھو دیش۔۔ گریٹر بلوچستان اور مہاجر صوبہ کی ہر تحریک ان کی عطا نہیں تھی جو علاقایؑ حکمرانی چاہتے تھے؟ ہوس زر میں ذاتی خزانے بھرنے کیلےؑ قومیت کے تصورکواپنے مفادات کے منافی سمجھتے تھے۔اجتماعیت کو لسانی۔۔ قبایلی۔۔صوبایؑ نفرتوں میں بدلنے کیلۓ کوشاں تھے۔۔انہون نے جھوٹ کو سچ بنایا۔مخلس کو متعصب ۔ فکر و فہم کو ملکی مفاد کے خلاف اور دانشور کو دشمن کا ایجنٹ بناےؑ رکھا۔ان کو زنداں میں پا بہ زنجیر رکھا ۔جلا وطن کیا۔۔کوڑے مار کے سر عام رسوا کیا؟ وہ سچ بولنے کی ہاداش میں یون اٹھاےؑ گےؑ جیسے ان کا وجودہی نہ تھا۔ انصاف قابل خرید بنا
35 سال تک ایک پرایؑ جنگ کا ایندھن کون بنا؟ ڈرون حملوں میں موت کہاں برسی ۔ اسی خطے پر جہان کالا قانون نافز ہے۔۔اسی قوم پر جو حریت پسند تھی۔۔ جس صوبے کا تعلیمی تناسب سب سے زیادہ تھا۔۔جس کے افراد سب سے زیادہ ذہین اور با صلاحیت تھے۔۔ کیسے؟؟۔۔اس کی تفصیل ادھار۔۔یار زندہ صحبت باقی
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔