ہمیں ایک قوم کیوں نہیں بننے دیا گیا
————————————-
میں جو کچھ لکھ رہا ہوں اس کے بارے میں وضاحت ضروری ہے کہ میں ہرگز اس طبقہؑ فکر کے خیالات کی ترجمانی یا حمایت نہیں کر رہا ہوں جو دو قومی نظریہ کی بنیاد پر70 سال قبل پاکستان بناےؑ جانے کو ایک سیاسی اور فکری غلطی قرار دیتے آؑےؑ ہیں۔۔ کسی حوالے کے بغیر۔۔۔ آج میں صرف پاکستانی ہوں ۔۔جو بھی میں لکھ رہا ہوں اس میں ابتدایؑ 8 سالوں کے بارے میں میری معلومات کا ماخذ مطالعہ ہے اور اس کے بعد کا مشاہدہ پلس مطالعہ ۔۔
قیام پاکستان کے پہلے سال میں جو مہمانداری یک جہتی اور ہر قسم۔اب کے تعصب سے پاک اپناییؑت کےجذبات کا جوش میں نے لاہور میں 1948 تک دیکھا وہ ایک قومیت کا مکمل تصور پیش کرتا تھا جب میں نےپہلی عید کی نماز بادشاہی مسجد میں ادا کی پہلے یوم آزادی کا جشن دیکھا ۔پھر قایؑد اعظم کی وفات پر سوگ ۔۔۔(میرے والد اور میرے 25 سال بعد کے سسر ساتھ بیٹھے زار و قطار رو رہے تھے)۔۔۔ اور گاندھی کے قتل پر سوگ میں لاہور کے بازار بند دیکھے۔آج بھی میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت پاکستانی ایک قوم تھے
پھر راولپینڈی میں چار سال کی ابتدایؑ تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں پشاور کے ایڈورڈزکا لج پہنچا تو کانگرس سے سرحدی گاندھی کا خطاب پانے والا سرخ پوش راہنما عبدایغفار خان کسی زخم خوردہ سانپ کی طرح زندہ تھا۔اس کی پاکستان مخالف قوت کو سرحد کے مسلمان عوام کے ریفرنڈم نے اورکانگریسی حکومت کو قایؑداعظم نے ختم کر دیا تھا۔ ایک قومیت کے خلاف پہلی علیحدگی کی تحریک کی بنیاد اس نے رکھی کیونکہ اس کی اپنی سیاست کے اور ذاتی مفادات بھی اسی سے وابستہ تھے۔اس نے "پختونستان" کے نعرے سے محدود اقلیت والے حامی عناصر کو ساتھ ملالیا تھا،مسلم لیگی وزیر اعلیٰ عبدایقیوم خان نے اس تحریک کو سختی سے بھی کچلا اور عوامی فلاح کی اصلاحات سے بھی ۔۔اور بالاخر کامیاب رہا ۔۔۔ سرحدی گاندھی اب کابل میں دفن ہے۔۔دو گز زمین بھی نہ ملی کوےؑ یار میں۔۔یہ بہادر شاہ ظفر کا نوحہ تھا۔۔غفار خان کی خواہش اور وصیت تھی
غفار خان کے تین بیٹے تھے۔۔ بڑاغنی خان مصور اور شاعرتھا ۔وہ آبایؑ قلعہ نما حویلی میں رہ کرگنا پیدا کرنے والی زمینوں اور چارسدہ شوگر مل کو سنبھالتا تھا۔ ولی خان سیاسی جانشیں ہوا۔ چھوتاعلی خان پشاور یونیورسٹی کا وایؑس چانسلر بنا۔ ان دونون نے پختونستان تحریک کو آگے بڑھایا یعنی ایک قومیت کے تصور کو دانستہ تقسان پہنچایا۔۔علی خان نے اسلامیہ کالج میں تحریک کو قوت دی۔مجھے یاد ہے کہ اس کی مخالفت کرنے واکے ایک طالب علم کو اتنا مارا گیا کہ وہ 6 ماہ ہسپتال میں پڑا رہا۔صدر سے ملحق ایک جگہ " نوتھیا" تھی جہاں کریم کبابی کے چپلی کباب ٹاپ پر تھے۔ لیکن یہ پختونستان کے حامی اور بدنام عناصرکی پناہ گاہ بھی تھی ،قیوم خان نے سب کو ڈنڈے سے سیدھا کیا اور علاقے کو پاک کرکے وہاں ایر فورس کو آباد کیا۔میں ناواقفیت کے باعث 26 دن اس علاقے میں رہا ۔اس عرصے میں 5 قتل ہوۓ اور خیریت گزری کہ ہم باڑہ لاین کے سرکاری کوارتر میں منتقل ہوگےؑ
پختونستان کی علیحدگی پسند تحریک میرے 1958 میں گریجویشن کرنے تک ختم ہوچکی تھی اس کی بنیاد خالص مقامی سیاست سے وابستہ ایک خاندان اور اس کے مفاد پرست حامی عناصرتک محدود تھی لیکن اس سے قومیت کے فروغ پزیر تصور کو ناقابل تلافی نقسان ہوا۔۔اس کا ایک ذیلی رد عمل بھی عجیب تھا۔وہان ہرراہ چلتے پتلون پہننے والے کو" دال خور پنجابی" کی گالی دی جاتی تھی۔جو مجھے بھی دی گیؑ۔۔اسے گالی بنانے کا طریقہ یہ تھا کہ مخاطب کی طرف ایک ہاتھ کی پانچ انگلیوں کولاوڈ اسپیکر کی شکل میں اٹھایا جاتا تھا اور یہ "لعنت" کا نشان تھا۔پنجابی کا لفط صرف پنجابی بولنے یا پنجاب کے باسی کیلےؑ مخصوص نہ تھا۔۔یہ جذبات بھی معدوم ہوگےؑ جو متعصب اور غیر تعلیم یافتہ عناصر تک محدود تھے۔میں اس دور مین ریڈیو پاکستان کیلےؑ ڈرامے لکھتا رہا ، شاعر فارغ بخاری کے علاوہ وہاں احمد فراز پروڈیوسر اور میرے مدگار دوست تھے۔جن کا مجموعہ "تنہا تنہا" شایع ہو کے مقبول ہو چکا تھا،ایک خاتون پرؤدیوسررعنا شیروانی اسے (مجموعے کو) سینے سے لگاؑےؑ پھرتی تھیں ۔یہ بعد میں غالبا" پی ٹی وی کی ایم ڈی بھی ہوییؑں۔۔ 1958 میں ایوب خاں کا پہلا مارشل لا نافذ ہونے تک میں وہیں تھا اور ،یں سمجھتا ہوں کہ جس دور میں پاکستانی قومیت کی بنیادوں کو استوار کیا جا سکتا تھا وہ حالات مقامی سیاست دانوں نے ذاتی اور مالی مفادات پر قربان کےؑ اور مارشل لا کی راہ ہموارکی،،پاکستانیوں کو ایک قوم بننے نہیں دیا گیا۔اس کے مضمرات اور نقصانات کا خمیازہ ہماری موجودہ نسل کو بھگتنا پڑ رہا ہے
(جاری ہے)
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔