ہمیں اب زندہ رہنا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فطرت سوہان کا پاکستان سے اتنا ہی تعلق ہے کہ ان کی والدہ صاحبہ کا پاکستان سے تعلق ہے ورنہ فطرت کی زندگی کا پیشتر حصہ پاکستان سے باہر ہی رہا پے – مگر اپنی والدہ صاحبہ کی وجہ سے فطرت کو جو اردو زبان پہ دسترس حاصل پے وہ پاکستان میں بسںنے والے اچھے بھلے اردو کے ادیبوں کو نھی نہیں فطرت کی انگریزی اور عالمی ادب پہ جو نظر ہے سو ہے مگر فطرت سوہان کو اردو کے کلاسیک ادب اور خاص طور پہ اردو کی کلاسیک شاعری پہ جو نگاہ پے وہ بہت کم اردو شناسوں کو ہے
پچھلے دنوں مجھے بیماری کی وجہ سے ہسپتال داخل ہونا پڑا جہاں بہت دن میں سانس کی نالی لگایے پڑا رہا
دوستوں نے جس محبت کا آظہار کیا میں ان کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا
مگر فطرت سوہان نے نظم اور الفاظ سے جس محبت کا اظہار لیا اس پہ بس اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ
فبرت تمہاری یہی محبت تھی جس کی وجہ سے میں ہسپتال کے بستر اتھ کر گھر واپس اگیا
بہت بہت پیار ہے تمہارا فطرت سوہاں ( مسعودقمر)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں زندہ رہنا ہے (یہ نظم پیارے دوست مسعود قمر کے لیے لکھی گئی تھی جب وہ سویڈن کے ایک ہسپتال میں اپنی بیماری سے نبرد آزما تھے)۔
————-
ہمیں اب زندہ رہنا ہے
نشیبِ رائیگانی کے تسلسل میں
ہمیں اب زندہ رہنا ہے
مسلسل خواب ہوتی خواہشوں کی لا زمانی میں
ہماری زندگی کی یہ پہیلی ختم ہو کر بھی
ابھی تک وقت کی دیوار پر کندہ
اُڑے حرفوں کے ترچھے زاویوں میں سانس لیتی ہے
ہماری خواب ہوتی خواہشیں پھر سے
کسی تازہ بدن کے صد رسیلے لمس کی تعبیر ٹھہری ہیں
ہمیں اب زندہ رہنا ہے
نئی آنکھوں کی جھلمل میں ،
جواں چہروں کے خطِ سبز ریشم کی تمنا میں
ہماری جھریوں کی
خشک، بنجر سر زمینوں میں
ابھی تک شورشِ تخلیق زندہ ہے
نشیبِ رائیگانی کے
مسلسل راکھ ہوتے نقش کی تہ میں
طلب کی لو سلامت ہے
دریدہ پیرہن کے تار باقی ہیں
ہمیں اب زندہ رہنا ہے
خود اپنی بافتوں میں رقص کرتے سرمدی گیتوں کے جھرمٹ میں
ہمیں اک پردۂ امکان کے ہر تار کو
زر بفت کرنا ہے
ہمیں پھر سے پلٹنا ہے
پلٹ کر جھلملانا ہے
سرابِ زندگانی کی نئی صُورت بنانا ہے
فطرت سوہان
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“