ہم سب اصل میں روحانی ہیں ۔
کل پاکستان سے ایک دوست نے فرمایا کہ اسے کوئ روحانیت پر گائیڈینس کی ضرورت ہے ۔ میں نے عرض کی کہ جناب آپ تو روحانی ہیں ، کیسی گائیڈینس ؟۔ یہ تو بہت سادہ معاملہ ہے ۔ میں نے اسے آئنسٹائن کہ روحانی استاد اسپینوزا کا ایک quote سنا کر سارا معاملہ سمجھانے کی کوشش کی ۔
اسپینوزا نے کہا تھا کہ
“مادہ یا substance وہ ہے ، جو اپنے آپ میں ہے اور جو بھی تصور وہ اپنے بارے میں لاتا ہے وہ وہی ہے ۔ دوسرا اسپینوزا کہتا ہے کہ وصف یا attribute یا صفت ، وہ ہے جو عقل یا intellect اس چیز یا substance کہ بارے میں تصور قائم کرتی ہے ۔ اور تیسرا خدا وہ کہتا ہے اس کہ نزدیک ایک لامحدود یا infinite حیثیت ہے ۔ جس کی لاتعداد صفات ہیں جن میں سے ہر ایک اظہار کرتی ہے اس کہ ابدی یا eternal اور لا محدود ہونے کا ۔ لہٰزا آپ میں وہ سب کچھ ہے جس کی تلاش میں آپ پاگلوں کی طرح جنگلوں ، پہاڑوں اور سمندروں میں پڑاؤ ڈالتے ہیں ۔
یہی ساری کائنات کا راز، فلسفہ اور خدائ ہے ۔ بہت آسان اور سادہ ہے اگر سمجھ میں آ جائے ، ناممکن حد تک مشکل، اگر کانٹا الٹا بدل ہو جائے ، پھر حادثہ ، بربادی اور تباہی ۔
ہمارے سب میں روح ہے جو اصل میں زندگی کی علامت ہے ۔ انسان میں عقل اور شعور بھی ہے جو اسے باقی مخلوقات سے منفرد کرتی ہے ۔ انسان ہی میں قوت ارادہ یا will power ہے جو اسے ستاروں سے اگلے جہانوں میں لے جاتی ہے ۔ سائنسدان اس پر پھنسے رہتے ہیں کہ جیلی فش اور آکٹوپس میں دماغ اور زندگی ہے یا نہیں ؟ زندگی تو ضرور ہے لیکن دماغ نہیں ۔ آکٹوپس کہ بازؤں میں دماغ ہے ۔ جیلی فش میں دراصل nerves تو ہیں جس سے یہ touch اور temperature تو محسوس کر لیتی ہے لیکن دماغ نہیں ۔ آکٹوپس کہ تین دل ہیں ۔ ایک دل پوری باڈی میں بلڈ سرکولیٹ کرتا ہے اور دوسرے دو پمپ کرتے ہیں اس کے دو gills یا کنگھی کی طرح کہ پنکھ میں۔ مجھے Beatles کا Octopus Garden یاد آ گیا ۔ ضرور سنیے گا ۔ کائنات کی ہر چیز میں روح ہے ۔
کل پاکستانی صدر نے روحوں کی پلئتی کا پھر تزکرہ کیا اور کہا کہ وہ چہرے سے عیاں ہوتی ہے اور ان کہ چہروں پر پھٹکار پڑی صاف نظر آتی ہے ۔ مجھے اس بات کی بہت خوشی ہے کہ صدر صاحب کا اس بابت زاتی تجربہ ان سے یہ کہلوا رہا ہے ۔
روح روشنی کی مانند ہے اور ابدی ہے ۔ اس کا جو essence یا مرکب ہے وہ خوشی ، محبت اور شکرگزاری ہے ۔ اور ان تینوں چیزوں کا نہ ہونا اس کو بلکل مدھم کر دیتا ہے ۔
انسان کی عزت صرف اور صرف اس کہ کردار سے منسلک ہے اور اس کا شاخسانہ اس کی روح ہے ۔ روحانی طور پر تندرست ہوں گے تو جسمانی تندرستی بھی ہو گی وگرنہ جسم بھی آہستہ آہستہ کینسر کی طرح چھوڑ جاتا ہے ۔ انہیں cells میں زندگی ہے اور جب یہ اپنا کام چھوڑ دیتے ہیں تو جسم سے زندگی ختم ہو جاتی ہے ۔
ہم سب لوگ روح کی طرف توجہ دیں ، بجائے کسی جسمانی recognition کہ ۔ وہ تو بلکل مصنوعی ہے ، عارضی ہے اور ایک بہت بڑا دھوکہ ۔ دنیا کا امیر ترین شخص بھی اس خوشی میں نہیں جس میں آپ اس لمحہ کی مسرت کو پا کر پہنچ سکتے ہیں ۔ صرف بال برابر فرق ہے دونوں زندگیوں میں پہنچنے کا ، لیکن نتائج بہت خوفناک حد تک مختلف ۔ آپ کی تو منزل ہی کوئ نہیں آپ تو مست ہیں ایک لافانی اور ابدی رقص میں ۔ اس کی منزل پیسہ پیسہ اور پیسہ ہے جس کا کوئ end نہیں ۔ آپ تو موجودہ لمحہ میں رہ رہے ہیں اور سبحان اللہ کی تسبیح میں محو ہیں ۔ آپ کیوں فکر کریں لوگ کیا کہتے ہیں ؟۔ مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے آپ پر فلاں الزام ہے ، آپ نے فلاں غلط کام کیا ۔ میں کہتا ہوں ۔
کوئے جاناں کا سفر اتنا ہی ہے بس
ہمہ تن گوش ہونا اور پھر مدہوش ہونا
مجھے کسی صفائ کی ضرورت نہیں میں اپنی زندگی گزار رہا ہوں ہاں اگر میں کوئ امانت یا زمہ داری لیتا ہوں پھر میرا گریبان اور آپ کا ہاتھ ۔ حضرت علی کا قول ہے کہ
“آپ کو صفائ کی اس لیے ضرورت نہیں کہ جو لوگ آپ کو جانتے ہیں ان کو صفائ دینی نہیں پڑتی اور جو نہیں جانتے ان کو جتنی مرضی صفائیاں پیش کریں وہ مانیں گے نہیں ۔
میری درخواست ہے آپ سب پیارے احباب سے کہ اپنی نیت ٹھیک رکھیں ، پیار اور محبت پھیلائیں اور جزبہ شکرگزاری میں ۲۴ گھنٹے سر جھکائ رکھیں ، آپ ہی ولی ہیں ، آپ ہی پیر اور آپ ہی مرُشد ۔ بہت خوش رہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔