ہم سب ایک دوسرے کا آئینہ ہیں ۔
یاد رہے ، میری تمام تحریریں بنیادی طور پر تخیلاتی ہوتی ہیں واقعاتی نہیں ۔ واقعات کا صرف برائے مشاہدات تزکرہ ضرور کرتا ہوں ۔ آج کی یہ تحریر بھی میرے تخیل یا میرے اپنے سچ کی عکاسی ہے۔
میں نے جب سے ہوش سنبھالا تو بُدھا کی طرح لوگوں کو مسائل میں گھِرا دیکھ کر پریشان ہو گیا اور حتی آل امکان کوشش کی کہ ایک تو اس کی وجہ تک جاؤں اور دوسرا اس کا حل نکالوں یا کم از کم کسی حد تک ان کے لیے آسانی پیدا کر سکوں ۔ سول سروس میں بھی ۲۰ سالہ نوکری میں یہی کوشش کی ، تھک ہار کے چھوڑ دی ، کیونکہ سسٹم کے خلاف لڑا نہیں جا سکتا تھا۔ وکالت شروع کر دی وہاں حالات اس سے بھی بدتر تھے ۔ ہیومن رائیٹس کے لوگ اور تنظیمیں لوگوں کے حقوق کی جنگ لڑنے کی بجائے اپنی شہرت اور دوکانداری میں مصروف تھیں ۔ اور وہ سارے تو خود اس استحصال میں ملوث تھے ۔
کاروبار شروع کیا ، نوجوان لوگوں کے ساتھ ، ترقی میں بھائ چارہ کے نام پر، اُن لوگوں کے ساتھ جن کے پاس پیسہ نہیں تھا گو کہ ہنر اور آیڈیا تھا۔ وہاں بھی شکست ہوئ ۔
چند رفاہی پروجیکٹ شروع کیے چکوال اور لاہور کی کچی آبادیوں میں ، ان میں بھی ناکامی ہوئ ۔ لاکھوں روپیہ جیب سے لگا دیا ، نتیجہ کچھ نہ نکلا ۔ یہاں امریکہ آتے ہوئے بھی ایک این جی او، ‘ساڈا چانن ‘ کے نام سے چھوڑ کر آیا جو بھی اپنے ہدف پورے کرنے میں مشکلوں کا سامنا کر رہی ہے ۔
میں تھکا نہیں ، ہار نہیں مانی ۔ امریکہ آ کر بھی اِس مسئلہ کے حل کے لیے پھر جتن شروع کر دیے ۔ ایک دن بھی چین سے نہیں بیٹھا اور تگ و دو جاری رکھی۔ مجھے یہ ضرور پتہ تھا کہ رکاوٹ مادی زندگی اور ہدف والی سوچ ہے جس میں یہاں موجود ہر بشر گرفتار ہے ۔ لہاز روحانیت پر مغرب کی سوچ جاننے کی کوشش کی ۔ کیونکہ مشرق میں تو سوائے صوفیا کے سب نے اسے کاروبار بنایا ہوا تھا ۔ ایک اور دُھر لُوٹنے کا۔
آخر میں، ایک سال کی جدوجہد کے بعد، کوئ دو سو کے قریب کتابوں، جرائید اور رسالوں کا مطالعہ کرنے کے بعد اِس نتیجے پر پہنچا کہ حل تو میرے اپنے اندر موجود ہے ۔ کیونکہ یہ ساری بُرائیوں اور مسائل جو میں لوگوں میں دیکھ رہا ہوں ، وہ ساری تو بدرجہ اُتم مجھ میں موجود ہیں ۔ ہم سب ایک دوسرے کی عکاسی کر رہے ہیں بزریعہ روح۔
جی ہاں ، یہ سب کچھ اِسی طرح تھا، جب میں نے اس آئینہ میں اُن تمام مشکلوں میں گھرے لوگوں کی بجائے اپنے آپ کو دیکھا تو پتہ چلا کہ مجھےپہلے اپنے آپ کو ٹھیک کرنا ہو گا ، اُس سے عکس میں موجود سب لوگ خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے ۔
یہ دراصل رُوحوں کا معاملہ ہے ۔ مادیت سے کبھی ٹھیک نہیں ہوگا ۔ ڈسپینسریاں اور چندہ ٹیکس تو بچا سکتا ہے غربت ختم نہیں کر سکتا ۔ روحوں کو پوتر کرنا ہو گا ، آیئنہ میں جو نظر آ رہا ہے اُس کو تبدیل کرنا ہو گا، مگر کیسے؟
بہت آسان ، موجودہ لمحہ میں منتقل ہو کر ، جو موجود ہے اُس میں جا کر ۔ مراقبہ میں جا کر ، سانسوں کو توجہ دے کر یا جو بھی طریقہ آپ کو آسان لگے توجہ کو موجود کی طرف مبزول کرنے میں۔ جو بھی آپ کو آسان لگتا ہے، ہر صورت میں ماضی اور حال سے جان چھڑانی ہو گی وگرنہ شیشہ دُھندلا ، گندا اور جُھوٹا رہے گا ۔ آپ کو پریشان رکھے گا۔
آپ سب اپنے مسیحا خود ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ دوسروں کے بھی ۔ ایک فریکوینسی پر آنے کی ضرورت ہے ۔ روحوں کے کنکشن وقت اور جگہ کی قید سے آزاد ہوتے ہیں ۔ اور عمودی طور پر سفر کرتے ہیں نہ کہ افقی ۔ جیسے موت پر کہا جاتا ہے روح پرواز کر گئی۔
ایک ۱۹۹۷میں فلم آئ تھی ‘تمنّا’ جس میں کمار سانُو کا گایا ہوا ایک گانا بہت پاپولر ہوا تھا جو میں نے اپنی ایک دوست کو بھیجھا تھا جو بہت ناراض ہوئ تھی کہ تمہارے خیال میں میں اتنی بد صورت ہوں ۔ وہ تب بھی اُس کو نہیں سمجھی تھی اور آج بھی ۔ میں تب بھی سمجھ گیا تھا اور آج مزید ، بہت زیادہ ۔ گانے کے بول تھے۔
‘یہ آئینے جو تمہے کم پسند کرتے ہیں
انہیں خبر ہے تمہے ہم پسند کرتے ہیں ‘
یہ گانا ضرور سُنیں ۔ میں یہی چاہتا ہوں کہ ہم سب اپنے من میں جھانک کر سُراغ زندگی پا جائیں ۔ میں آپ کے ساتھ اِس سفر میں ہر وقت موجود ۔ جو چاہتے ہیں ہو جائے گا ، مل جائے گا ۔ میں اور آپ اپنے آئینے میں جائیں گے اور اُس کو پا لیں گے ۔ مجھے یقین ہے ‘ساڈا چانن’ اب کامیاب ہو جائے گا سچی خوشیاں بکھیرنے میں ۔ہمیشہ خوش رہیں ۔ بہت دعائیں ۔ نیک تمنائیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔