''تم کیا جانو صحافت کیا ہوتی ہے… تمہیں کیا پتا سچ لکھنے کی کتنی بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے‘‘۔
الیاس چکری کافی عرصے بعد مجھ سے ملا تھا اور سخت غصے میں تھا۔ اسے شکوہ تھا کہ آج کل کے صحافی سچ کیوں نہیں لکھتے۔ اس کا کہنا تھا کہ ہر صحافی جھوٹ لکھتا ہے۔ میں نے پوچھا کوئی تو ایسا ہو گا جو سچ بھی لکھتا ہو گا؟ یہ سنتے ہی اُس نے اثبات میں سر ہلایا اور آگے کو جھک کر بولا 'ہاں! اور اس کا نام ہے الیاس چکری‘۔ یہ سنتے ہی میں نے بھی اثبات میں سر ہلا دیا اور پوچھا کہ 'سچ لکھنے کی پاداش میں تمہیں کوئی تکلیف اٹھانا پڑی؟‘۔ یہ سنتے ہی الیاس چکری کے چہرے پر اذیت کے آثار نمایاں ہو گئے‘ ایک زخمی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے اپنا بایاں ہاتھ میرے سامنے کیا اور میں کانپ گیا۔ اس کا ہاتھ غائب تھا۔ ''یہ ہاتھ سچ لکھنے کی پاداش میں کاٹ دیا گیا‘‘ الیاس کی پھنکار سنائی دی ''لیکن تم تو دائیں ہاتھ سے لکھتے ہو‘ پھر بایاں ہاتھ کیوں کاٹ دیا گیا؟‘‘ میں نے سوال کیا اور الیاس چکری ایک آہ بھر کر رہ گیا ''میرے دوست! بایاں ہاتھ کاٹ کر مجھے پیغام دیا گیا کہ اگر اب بھی سچ لکھنے سے باز نہ آئے تو دائیں ہاتھ سے بھی جائو گے‘‘۔
یقین کیجئے میرے دل میں الیاس چکری کی عزت مزید بڑھ گئی۔ میں تو آج تک یہی سمجھتا رہا کہ الیاس چکری ایک چھوٹے سے اخبار 'روزنامہ پریشر ککر‘ میں بلیک میلنگ کے ذریعے پیسہ کماتا ہے لیکن آج پتا چلا کہ وہ ایک سچا صحافی ہے اور اتنا سچا ہے کہ اپنا بایاں ہاتھ بھی صحافت کی نذر کر بیٹھا ہے۔ یقینا ایسے ہی لوگ صحافت کا مان ہیں۔ تاہم مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ الیاس چکری
نے ایسا کون سا سچ لکھ دیا جس کی اسے اتنی خوفناک سزا بھگتنا پڑی؟ جہاں تک مجھے یاد ہے 'روزنامہ پریشر ککر‘ کا ڈکلریشن تو تھا لیکن وہ شائع ہونے کی بجائے فوٹو کاپی ہوتا تھا اور فوٹو کاپی بھی الیاس چکری اپنی جیب سے کرواتا تھا۔ میں یہ سوال کرنا ہی چاہتا تھا کہ الیاس چکری بغیر کچھ کہے چلا گیا۔ کچھ روز بعد اس کے بھائی سے ملاقات ہوئی تو میں نے افسوس کیا کہ الیاس چکر ی کے ہاتھ کے ساتھ بہت ظلم ہوا ہے۔ بھائی غصے سے بولا 'ایسا کام کریں گے تو ایسا ہی ہو گا‘۔ میں نے اسے گھورا 'شرم کرو! ایسا کام کرنے والے تو ہیرو ہوتے ہیں‘ تاریخ میں ان کا نام سنہرے حروف میں لکھا جاتا ہے‘ تمہیں تو اپنے بھائی پر فخر ہونا چاہیے‘۔ وہ چیخا 'کیسا فخر؟ ہزار دفعہ سمجھایا تھا کہ چارہ کاٹنے والے ٹوکے سے دور رہا کریں لیکن بھائی صاحب کو بڑا شوق تھا خود چارہ کاٹنے کا… اب بھگت لیا ناں انجام…‘‘۔
ہمارے ہاں بے شمار ایسے لوگ بھرے ہوئے ہیں جو اپنے ساتھ ہوئے کسی بھی حادثے کو اپنی بہادری کا نام دے دیتے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ بعض اوقات یہ واقعات سچ بھی ہوتے ہیں لیکن جھوٹ کی مقدار کہیں زیادہ ہے۔ ہمارے محلے میں ایک صاحب کے چہرے پر کٹ کا نشان ہے‘ وہ اکثر بتاتے رہتے ہیں کہ ایک دفعہ ان کے گھر چار ڈاکو گھس آئے تھے‘ وہ نہیں گھبرائے اور اکیلے ہی ان سے بھڑ گئے۔ گھمسان کی لڑائی ہوئی‘ چاروں ڈاکو بھاگ گئے لیکن اس لڑائی میں ایک ڈاکو کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے خنجر سے ان کا ایک گال کٹ گیا جسے بعد میں ٹانکوں سے جوڑا گیا… یہ نشان اسی کا ہے۔ بعد میں پتا چلا
کہ موصوف خود اُن ڈاکوئوں میں شامل تھے اور کٹ اس لیے لگا تھا کہ گھر کے مالک نے چھری سے ڈاکوئوں پر حملہ کر دیا تھا۔ ہمارے اکثر صحافی بھائیوں کو بہت شوق ہوتا ہے کہ ان کے کالم پر کوئی ایسا رسپانس آئے جس کے نتیجے میں ان کی ہڈی پسلی ایک ہو جائے… اور کچھ نہیں تو چار پانچ زبردست قسم کی دھمکیاں ضرور آجائیں۔ ہمارے ایک صحافی دوست کی موٹر سائیکل اکثر کسی اہم 'مشن‘ پر جاتے ہوئے پنکچر ہو جاتی تھی۔ موصوف کو شک تھا کہ کوئی ان پر نظر رکھے ہوئے ہے اور ان کو سچ کی تلاش میں نکلنے سے روکنے کے لیے ایسا کرتا ہے۔ ایک دن میں نے ان سے کہا کہ آج آپ موٹر سائیکل میرے حوالے کیجئے۔ انہوں نے موٹر سائیکل مجھے تھما دی۔ آدھے گھنٹے بعد میں نے موٹر سائیکل ان کے حوالے کی اور خوشخبری سنائی کہ آج آپ کے دشمن کا خاتمہ کر دیا گیا ہے‘ اب وہ کبھی آپ کے راستے کا پتھر نہیں بنے گا۔ بہت خوش ہوئے ‘ پوچھا کون تھا؟ میں نے اطمینان سے کہا 'آپ کے ٹائر کی ٹیوب کا وال… خراب تھا… تبدیل کرا دیا ہے‘۔
ایک اور دوست کو یقین ہے کہ پچھلے مہینے موبائل پر میسج کرتے ہوئے ان کی گاڑی جس کھمبے سے ٹکرا گئی تھی وہ ان کے دشمنوں کی طرف سے لگایا گیا تھا جس کا یقینا ایک ہی مقصد تھا کہ انہیں سچ لکھنے سے روکا جا سکے۔ خدا گواہ ہے ہمارے ہاں اگر کچھ صحافیوں کے پیچھے ان کے دشمن پڑے ہوں گے تو سچ لکھنے کی وجہ سے نہیں جھوٹ لکھنے کی وجہ سے ہوں گے۔ اصل میں یہ سچ بڑا عجیب ہوتا ہے۔ ہر بندے کو لگتا ہے کہ جو کچھ وہ لکھتا ہے وہی سچ ہے۔ اپنے منہ سے خود کو سچا کہنے والے آپ نے جابجا دیکھے ہوں گے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ دنیا خود ان کو سچا کہے‘ لیکن یہ لائوڈ سپیکر پکڑ کر خود ہی اپنے سچے ہونے کا اعلان کرتے پھرتے ہیں اور طے کر لیتے ہیںکہ سچائی صرف ان پر ہی آشکار ہوتی ہے۔ ہر کسی کا اپنا سچ ہے‘ کوئی کیسے کسی دوسرے پر اپنا سچ تھوپ سکتا ہے؟ عین ممکن ہے جو میرے نزدیک سچ ہو وہ آپ کے نزدیک جھوٹ ہو‘ میں کون ہوتا ہوں آپ کا سچ جھٹلانے والا؟ لیکن مزا اُن لوگو ں کی باتیں سننے اور پڑھنے کا آتا ہے جنہیں اپنی ہر مصیبت سچ کی پاداش میں آئی ہوئی لگتی ہے۔ یہ پولیس کے خلاف کچھ لکھ دیں تو 'رضاکار‘ کو مشکوک سمجھنے لگتے ہیں۔ کوئی سپاہی ناکے پر انہیں روک کر گاڑی کی تلاشی بھی لے تو ان کا پہلا دھیان اسی طرف جاتا ہے کہ یقینا آئی جی نے ان پر نظر رکھنے کا حکم دیا ہو گا۔ یہ ڈاکٹر قدیر خان کے ساتھ فوٹو بنوانے میں کامیاب ہو جائیں تو فیس بک پر سٹیٹس لکھ دیتے ہیں 'آج ڈاکٹر قدیر خان سے یورینیم افزودگی اور ایٹم بم کی اپ گریڈیشن کے حوالے سے سیرحاصل گفتگو ہوئی‘۔ کسی لڑکی کے ساتھ تصویر بنوا لیں تو صدیوں کی کہانی فل رومانٹک ٹچ کے ساتھ خود ہی بنا لیتے ہیں 'شکیلہ بڑے دنوں بعد ملی‘ کہنے لگے… اوئے لفنگے… مشہور ہوگئے ہو تو اب فون ہی نہیں اٹھاتے‘ چلو اب مجھے اچھا سا پیناکلاڈا پلائو‘۔
ایسے لوگوں کے اندر بہت سی خواہشات پل رہی ہوتی ہیں جو دھیرے دھیرے انہیں حقیقت لگنے لگتی ہیں۔ انہیں ہر وقت یہی لگتا ہے کہ دنیا صرف انہی پر نظر رکھے ہوئے ہے‘ انہی کا بول بالا ہے اور انہی کے خواب دیکھے جا رہے ہیں۔ جہاں جہاں ان پر حقیقت کھلتی ہے وہاں یہ بپھر جاتے ہیں‘ گالیاں دیتے ہیں اور کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں۔ یہ اپنی خیالی دنیا میں رہنے والے وہ لوگ ہیں جن سے عبرت پکڑنی چاہیے۔ یہ اپنی ہر ناکامی کی ذمہ داری اپنے دبنگ اور بے باک شخصیت پر ڈالتے ہیں اور طے کر لیتے ہیں کہ چونکہ ان کے اندر منافقت نہیں اس لیے کچھ نہیں کر سکتے۔ یہ جہاں بیٹھتے ہیں اپنی بہادری کے قصے سنا سنا کر ساتھ والے کا دماغ چٹ کر جاتے ہیں تاہم اس دوران اگر دوسرا شخص بھی ان کو اپنے قصے سنانے کی گستاخی کر بیٹھے تو ان کے چہرے پر تمسخر نمودار ہو جاتا ہے اور پھر کرید کرید کر ایسا ایسا شاندار سوال کرتے ہیں کہ دوسرا بندہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آخر ایسے سوال یہ کبھی خود سے کیوں نہیں کرتے؟
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“