اسلامی تاریخ بڑی خونخوار ہے ، اس میں کوئی گھرانہ بھی رنج و الم سے محفوظ نظر نہیں آتا ـ اھلسنت حضرت عمر فاروقؓ کی شہادت سے شروع کرتے ہیں تو شیعہ کا غم رسول اللہ ﷺ کے وصال اور سقیفہ بنو سعد سے شروع جاتا ہے ، ان کے نزدیک حضرت عمرؓ کی شہادت کا دن جشن کا دن ہے اور قتلِ عمر ان کی پالیسیوں کا لازمی نتیجہ تھا ـ قتلِ عثمان جیسا سانحہ جس میں ایک خلیفہ بغیر کسی مزاحمت کے چند سو بلوائیوں کے ہاتھوں تلوار سونتے ہوئے نہیں بلکہ قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے روزے کی حالت میں شھید کر دیا جاتا ھے ، ان کی لاش کو تین دن دفن نہیں کرنے دیا جاتا ، اور یہود کے قبرستان میں دفن کرنا پڑا بھٹو کے جنازے سے بھی کم لوگ تھے ،ٹوٹل چھ سات ،، مگر شیعہ کہتے ہیں کہ یہ ان کی سیاسی پالیسیوں کا نتیجہ تھا ،اس کے بعد حضرت علیؓ نے کمان بالجبر سنبھالی ،، اور مسلمانوں کی لاشوں کے پشتے لگا دیئے ان کے پورے دور میں ایک کافر نہیں مارا گیا اور نہ ہی ایک گز زمین کو اسلامی دسترس میں لایا گیا ـ البتہ مسلمانوں کی خوب گوشمالی کی گئ ، اس میں اپنے پرائے سب شامل ہیں اور عشرہ مبشرہ کے طلحہؓ و زبیؓر بھی شامل ہیں ،جو جبری بیعت سے فرار ہو کر مدینہ پہنچے اور پھر بصرہ ،،
حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد معاویہؓ اور امام حسنؓ کے درمیان صلح ہوئی ، ان ساری جنگوں میں اسلام اس بوڑھی عورت کی طرح گھر بیٹھ کر روتا رھا جس کے بیٹے آپس میں ہی سر پٹھول کر کے ماں کے غم میں اضافہ کرتے رہے ، اس لئے امیر معاویہؓ اور امام حسنؓ کے درمیان صلح کلمے کے صیغے، نماز کی رکعتوں ، روزوں کی تعداد ، اذان و اقامت کے اوقات ، زکوۃ کے نصاب پر مذاکرات کے بعد نہیں ہوئی بلکہ اس بات پر ہوئی کہ آپ اتنا الاونس اور خراسان کی آمدن ہمیں دیتے رہیں تو ہم چین سے گھر بیٹھ جائیں گے ، امیر معاویہؓ نے خالی پیپر مہر لگا کر بھیج دیا کہ اس پر جو چاہے لکھ لیجئے اور جتنا لکھا گیا ، امیر معاویہؓ نے اس کو دگنا کر کے دینا شروع کر دیا ۔۔ یہ الاؤنس حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کے بیٹے ہونے کا خراج تھا ، اگر ہر عرب اٹھ کھڑا ھوتا اور ریاست سے تلوار کے زور پر الاؤنس کے نام پر خراج وصول کرتا تو کیسا لگتا ؟
اگر خطرہ اسلام کو ہوتا تو کہیں مذاکرات میں اسلامی شرائط بھی شامل ہوتیں کہ آپ فلاں فلاں کام جو کہ خلافِ شریعت ھے وہ چھوڑ دیں تو ہم آپ کی اطاعت کریں گے ـ
اس لئے یہ چورن بیچنا کہ امام حسینؓ کی شہادت کے پیچھے اسلام کے دفاع کا کوئی عمل دخل ہے ایک ناقابلِ فہم تھیوری ہے ـ باقی ناحق قتل ہونے والا ہر بچہ اپنی ماں کا حسین ہی ہے ، خود حضرت زبیرؓ کے ساتھ جو ہوا سو ہوا ان کے فرزند عبداللہ ابن زبیرؓ کے ساتھ کیا ہوا ؟ جس دردناک اذیت سے حضرت اسماءؓ بنت ابوبکؓر کو گزارہ گیا پڑھ کر کلیجہ شق ہوتا ھے ،مگر چونکہ وہ حضرت ابوبکرؓ کی بیٹی اور عبداللہؓ حضرت ابوبکرؓ کے نواسے ہیں لہذا کوئی پراپیگنڈا نہیں کوئی جلوس نہیں اور کوئی نفرت انگیز خطاب نہیں ، اھل سنت اسلام کو اسلام کے مزاج کے مطابق لے کر چلے ہیں کہ جو ماضی میں ھو گیا وہ ماضی کے حوالے ،حساب لینے والا خدا جب عدالت لگائے گا تو نسب کی بنیاد پر فیصلے نہیں کرے گا بلکہ عدل کی بنیاد پر کرے گا ، اور وہی کرنے والوں کو پوری پوری سزا دے بھی سکتا ہے کہ وہ خود موقعے پر موجود تھا اور اگلے پچھلے سارے اس کے سامنے موجود ہونگے ، حضرت خالد بن ولید کی وجہ سے سید الشہداء حضرت حمزہؓ سمیت ۷۰ مسلمان شھید ہو گئے تھے ، مگر وہی حضرت خالد بن ولید مسلمان ھو کر جب مدینے تشریف لائے تو رسول اللہ ﷺ ان کے استقبال کے لئے اس گرم جوشی سے اٹھ کر آگے بڑھے کہ رداء مبارک قدموں میں گر گئ اور فرمایا کہ مکے نے اپنے جگر گوشے اگل دیئے ہیں اور ان کو سیف اللہ کا لقب دیا ،، ان کے ہاتھوں شھید ھونے والوں کا ماتم نہیں منایا ، یہ ہے اسلام کا مزاج جو گزر گیا وہ مر گیا الذی فات مات ،،
دنیا کے اسٹیج پر ہمیں پاروؤں اور پانڈوں کی لڑائی سے کوئی سروکار نہیں تو لوگوں کو بنو امیہ اور بنو عباس کی لڑائیوں سے بھی کوئی لینا دینا نہیں ، اگرچہ اس میں مذھبی شخصیات شامل تھیں مگر یہ مذھبی جنگیں نہیں تھیں سیاسی جنگیں تھیں، جو ساری اسلامی تاریخ پر محیط ہیں ،، اگر اھلسنت کی اکثریت یعنی بریلوی آپ سے اتفاق رکھتے ہیں وہ تو ناصبی نہیں مگر آپ ان کو سینے سے لگاتے ہیں ؟ آپ حسینؓ کی شہادت تک محدود نہیں رہتے اس کے بعد آپ حضرت علی اور امیر معاویہ رضی اللہ عنھما کا قصہ چھیڑ دیتے ہیں کہ اس پر بھی ہتھیار ڈالو ، اگر کوئی آپ کے اس موقف کو تسلیم کر کے حضرت علیؓ کو خلیفہ راشد مان لے تو آپ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما تک بات لے جاتے ہیں کہ ان کی خلافت کو بھی غصب تسلیم کرو اور علی دا پہلا نمبر کا نعرہ لگاؤ یعنی آپ اھلسنت کو واپس ان کی رحم مادر میں جب تک گھسا نہ لیں آپ کا اسلام مکمل نہیں ہوتا ،، اگر اتفاق و اتحاد پیدا کرنا ہے اس کا بہترین طریقہ ماضی کو ماضی کے حوالے کر کے حال کے حالات کو سدھارنا اور امت میں یگانگت اور اتحاد پیدا کرنا ہو گا ، ھند کے مسلمان تو بیچارے کربلا کے زمانے میں مسلمان بھی نہیں ہوئے تھے ـ یاحسین کہہ کر آپ کسی دوسرے مسلمان سے بہتر قرار نہیں پاتے ، اسلام عمل کا دین ہے نعروں کا نہیں ـ
وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ وَسَتُرَدُّونَ إِلَى عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (105) توبہ اور کہہ دیجئے کہ عمل کرو[ قسمیں نہ کھاؤ] اللہ ،اس کا رسولﷺ اور مومن تمہارا عمل دیکھیں گے اور جزا و سزا کے لئے تم اس ہستی کے سامنے پیش کیئے جاؤ گے جو عالم الغیب والشھادہ ہے ، سو وہ تم کو بتا دے گا جو تم کرتے رہے ہو ـ