ہم نے اپنے ہونے کو تسلیم ہی نہیں کیا ۔
کل پاکستان سے ایک خاتون نے میرے کل کہ بلاگ پرکچھ یوں تبصرہ کیا ۔
“آپ روح کی بات کرتے ہیں ، ہمارا تو ہونا ہی زمانہ کے معاملات میں الجھ کر دھندلا گیا ہے ۔ میں نے کبھی محسوس ہی نہیں کیا میرے اندر روح ہے ، بلکہ میں صرف جسم ، اور وہ بھی مشین کی کی طرح چلتا ہوا پر جی رہی ہوں ”
کل ہی میں جان میکین ، ایک نامور امریکی سیاستدان کی موت پر مختلف امریکیوں کہ یہاں تبصرے پڑھ رہا تھا ۔ میکین سولجر بھی رہا ، سینیٹر بھی اور دو دفعہ صدارت کا الیکشن ہارا۔ میکین کی کچھ ہی مہینے ہہلے اپنی سوانح عمری “restless wave“ ریلیز ہوئ تھی ۔ جو مجھ پڑھنے کا بہت مزہ آیا تھا ۔ ایک سیاست دان اخلاقیات کی بات کر رہا ہے ۔ ایک تو اس نے ٹرمپ پر بہت مثبت تنقید کی تھی ، دوسرا سیاست میں high moral ground کی بات کی ۔ اوبامہ نے اسی لیے اس کی موت پر کہا “ ہم میں سے بہت کم لوگوں کا بہادری پر ایسا امتحان لیا گیا جیسا میکین کا اور جو اس نے دکھائ ۔ ہم سب یہ خواہش تو رکھتے ہیں کہ greater good کو اپنی زات سے اوپر رکھیں لیکن یہ میکین نے کر دکھایا “
جان میکین نے مرتے وقت یہ بھی کہا کہ ٹرمپ ان کی آخری رسومات میں شامل نہ ہو ۔ دراصل میکین کی ٹرمپ کہ خلاف جنگ صرف اور صرف امریکی اقدار پر تھی اور رہی ۔ دونوں ہی ریپبلیکنز ، لیکن میکین ہیوی ویٹ اور ٹرمپ novice ۔ ٹرمپ کی اس سے زیادہ تزلیل نہیں ہو سکتی ۔ خاص طور پر اس وقت جب ٹرمپ کہ وکیل مائیکل کوہن نے plead guilty کر لیا اور سابقہ کیمپین مینیجر پال مینا ہارٹ کو سزا ہو گئ ۔ اور اگر نومبر میں گانگریس میں ڈیموکریٹ کی اکثریت ہو گئ تو ٹرمپ کا بچنا ناممکن ۔
امریکہ میں ہی دوسری ڈیولپمنٹ امریکی idol اسٹیو جابز کی بیٹی لیزا برینن جابز جو لکھاری بھی ہیں ، نے اپنی آنے والی سوانح عمری “small fry” کے کچھ اقتباسات ریلیز کیے ہیں جس میں اسٹیو کہ ، اس پر ظالمانہ سلوک کا بیانیہ ہے ۔ برینن کہ نزدیک اسٹیو اپنے سٹاف اور ملازمین کہ ساتھ بھی بہت ظالمانہ سلوک رکھتا تھا ۔ برینن ، اسٹیو کی پہلی بیوی سے تھی اور دوسری سے مزید تین بچے تھے ۔ اسٹیو اس کی پیدائش پر تو آیا لیکن اسپورٹ منی دینی بند کر دی تھی ، جو عدالت نے دلوائ ۔ پھر بھی جب اسٹیو کینسر سے مر رہا تھا، برینن ایک بُدھ مزہب کے راہب کہ ہاتھوں بُدھ ہوئ اور ہر weekend پر اسٹیو کہ چرنوں میں شفایابی کہ لیے حاضری دیتی باوجود اس کہ کہ اس کی سوتیلی ماں اور بچے اسےسخت ناپسند کرتے تھے ۔
میرا ان دونوں مثالوں سے یہ سمجھانا تھا کہ ، ایک تو ہمارا جو خیال امیر اور celebrity کی زندگیوں پر رشک کرنا ہے وہ بلکل اندھی اور احماقانہ تقلید ہے ۔ دونوں شخصیات جو میں نے اوپر ڈسکس کی ، کینسر سے مرے اور تب جب دونوں اپنے عروج پر تھے ۔ میکین مرتے وقت تک Arizona کا سینیٹر تھا اور ایک بہت بڑا سیاست میں نام ۔
دوسری، جو بات بہت اہم ہے ہر انسان کہ بارے میں جو چیز اہم ہے ، وہ اس کا کردار ہے ۔ اس کا کردار اس کی روح کہ تابع ہے ۔ اس کی شناخت اس کی روح ہے نہ کہ جسم ۔ جسم کا تو ڈبل ڈیجیٹل بن جائے گا ۔ لیکن روح کا نہیں ۔ انسان کا سب سے بڑا امتحان تب ہوتا ہے جب وہ شہرت یا طاقت کی سیڑھیاں چڑھتا ہے ۔ عام آدمی اس کو فالو بھی کر رہا ہوتا ہے اور تنقید بھی ۔ دونوں بیکار ، ہاں اگر وہ پبلک آفس یا کوئ امانت ہولڈ کر رہا ہے تو مثبت تنقید نہ صرف جائز بلکہ بہت ضروری ۔
ہر انسان unique ہے ، اپنے اندر ایک اپنی دنیا سموئے ہوئے ہے ، صرف پہچان کی ضرورت ہے ۔ مجھے سمجھ نہیں آتی جب ہم عہدہ ، پیسہ یا شہرت کی خاطر اس پہچان ، اس اصلیت اور اس خدائ عنایت کا نیلام کر دیتے ہیں ۔ آخر تو روح نے ہی رہنا ہے جسم نے تو چھوڑ جانا ہے کیوں نہ روح کو منور کریں جو صرف اور صرف اپنے ہونے کو جاننے اور پہچاننے سے ممکن ہے ۔ چند وقت روز اس کی نشو نما پر لگایا کریں ، عبادات کہ زریعے ، مراقبہ میں جا کر یا کسی قدرتی دلکش جگہ پر ۔ صبح کو ننگے پاؤں گھاس پر چلیں اور رات کو ستاروں کہ جھرمٹ میں رقص کیا کریں ۔ restless wave سے اس نام کا گانا یاد آگیا ، ضرور سنیں ۔
Dirty three- Restless Waves
بہت خوش رہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔