اگر آپ مطالعہ کی عادت ڈالنا چاہتے ہیں تو آپ آمکھوں سے پڑھنا سیکھیں ۔ لیکن آنکھوں سے ایک دم پڑھ نہیں پڑھ سکتے ہیں ۔ کیوں کہ آپ اس کے عادی نہیں ۔ لیکن اس کا مطلب ہر گز نہیں ہے کہ آپ آنکھوں سے نہیں پڑھ سکتے ہیں ۔ حالانکہ آپ آنکھوں سے بہت کچھ پڑھتے ہیں ۔ آپ گھڑی کو دیکھتے ہیں چار بج کر انچاس منٹ ہو رہے ہیں ۔ یہاں بھی آپ نے ہونٹوں کو حرکت نہیں دی مگر اس کے باوجود درست پڑھ لیا ۔
ہونٹوں سے پڑھنے والے لوگوں کی رفتار اس لیے سست ہوتی ہے کہ وہ لفظ کو پہلے آنکھوں سے دیکھتے ہیں ، پھر ہونٹوں سے ادا کرتے ہیں اور اس کے بعد دماغ میں اس کا مفہوم سمجھتے ہیں ۔ بعض لوگ اور خاص کر بچے یاد کرنے کے لیے زور زور سے پڑھے ہیں ۔ وہ اپنے ذہن میں بٹھانے کے لیے آنکھ ، ہونٹ اور کانوں کا استعمال بھی کرتے ہیں ۔ کیوں کہ کانوں کے ذریعے جو آواز ہمارے دماغ میں پہنچتی ہے وہ الفاظوں کی خاص ترکیب کو بار بار دھرانے سے قبول کرلیتا ہے ۔ مگر جب یہ سارے عضو یعنی ہونٹ ، آنکھیں اور کان استعمال ہوتے ہیں تو ہمارے دماغ جلدی تھک جاتا ہے ۔ کیوں ہونٹ سے پڑھنے کی رفتار بہت سست ہوتی ہے اور دماغ اس کا ساتھ نہیں دیتا اور ہونٹوں سے پڑھنے والا جلد اکتا جاتا ہے اور چوکچھ پڑھتا ہے اس کا بہت کم یعنی چند فیصد ہی ذہن میں بیٹھتا ہے اور اسے ذہمن میں بٹھانے کے لیے ہمیں رٹے لگانے پڑتے ہیں ۔
ہمًً میڈیکل اسٹور میں جاکر کوئی دوا پوچھتے ہیں یہ دوا ہے ، سلیز مین الماری پر ایک نظر ڈال کر بتادے گا کہ یہ دوا ہے کہ نہیں ۔ اگرچہ اس نے ایک ایک دوا پڑھ کر نہیں دیکھا بلکہ یہ دیکھا کہ اس کا ڈبہ اس کلر کا اتنا بڑا ہے ۔ آپ جنرل اسٹور میں آپ کام کرتے ہیں اور کوئی پرفیوم مانگتا ہے تو آپ ایک نظر الماری میں ڈال کر بتادیتے ہیں کہ یہ پرفیوم ہے کہ نہیں ۔ کیوں کہ آپ کو اس کے ڈبے کا رنگ اور سائز پتہ ہے ۔ لیکن اگر آپ کو نہیں معلوم ہے تو تب بھی آپ کو فوراً معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہے کہ نہیں ۔ کیوں کہ الماری کے بشتر پرفیوم آپ کے دیکھے ہوئے ہیں اور آپ انہیں نظر انداز کرے صرف ان ڈبوں کو دیکھتے ہیں جو آپ کے لیے نئے ہوتے ۔ یہاں آپ نے نوٹ کیا کہ یہاں بھی دوا کی طرح ایک ایک پرفیوم کو چیک نہیں کیا گیا بلکہ خاص رنگ اور سائز کو تلاش کیا گیا اور باقی سب کو نظر انداز کردیا ۔
میں نے آپ کو کمرے کی مثال دی تھی ۔ جہاں آپ نے آنکھوں سے کام لیا تھا اور صرف اہم اور خاص چیزوں کو نوٹ کیا اور بہت سے غیر ضروری اور عام چیزوں کو نظر انداز کردیا ۔ لیکن جب آپ کو پڑھنے کے لیے دیا گیا تو اس میں اس کمرے کی ایک ایک چیز کی فہرست تھی اور اس فہرست کو آپ نے اپنے ہونٹوں کی حرکات سے پڑھا ۔ مگر آپ نے کمرے میں جو اشیاء تھیں ان کو آنکھوں سے دیکھا اور اس کی اطلاع دماع کو ملی اور بہت سے عام اشیاء آپ نے نظر انداز کردیں ۔ مثلاً میز میں پائے تھے یا نہیں ، اگر تھے تو پائے کیسے تھے ؟ یا دیوار میں تصویر میں بچہ جو ہے تھا اس نے کپڑے کیسے پہنے تھے ؟ اس کی وجہ ہے ہم نے انہیں اہمیت نہیں دی یا انہیں غیر ضروری سمجھا ۔ ہاں اگر اس میں کوئی خاص بات ہوئی تو پھر آپ یقیناً متوجہ ہوتے ورنہ نہیں ۔ مثلا تصویر میں کوئی خاص بات ہوتی تو آپ اس تصویر کو بغور دیکھتے ۔ اس طرح جب ہم کسی عبارت کو ہونٹوں کے حرکات سے پڑھ رہے ہوتے ہیں تو اس کے ایک بھی لفظ کو نذر انداز نہیں کرتے ہیں کہ نذر انداز کرنے سے ہم عبارت سمجھ نہیں سکیں گے اور یہ حقیقت بھی ہے ہونٹوں کی حرکات سے پڑھنے والے اگر الفاظ چھوڑ دیتے تووہ عبارت کو سمجھ نہیں پاتے ہیں ۔ کیوں کہ ان کا ذہن ایک خاص ترتیب کا عادی ہوتا ہے اور وہ ایسی عبارت قبول نہیں کرتا ہے ۔ اسے عادت ہوتی ہے کہ الفاظوں کی خاص ترتیب سے مفہوم بنتا ہے ، حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ مثلا اس کمرے جہاں آپ بیٹھے ہیں اور آپ سامنے پھل رکھے جاتے ہیں تو آپ ایک لمحے میں سمجھ جائیں گے کہ یہ پھل آپ کے کھانے کے لیے آئے ہیں ۔ یعنی جب آپ ہونٹوں کی حرکت سے پڑھتے ہیں تو آپ کے دماغ کے لیے الفاظوں کی ترتیب زیادہ اہم ہوتی ہے اور اس کے سامنے جب تک عبارت کی پوری ترتیب نہیں ہو وہ اس سمجھ نہیں پاتا ہے ۔ لیکن جہاں آپ نے صرف اپنی آنکھوں سے کام لیا وہاں ساری بات آپ کے دماغ میں فوراً آگئی ۔
جس طرح آپ نے کمرے کا جائزہ لیا تو اس میں بہت سے چیزیں نے نظر انداز کردیں تھیں ۔ کیوں کہ انہیں آپ انہیں غیر ضروری یا عام سمجھا ۔ اس طرح آپ آنکھوں سے کسی عبارت کو دیکھیں گے تو اس سلیزمین کی طرح آپ صرف ان الفاظوں کو دیکھیں گے جن سے کوئی عبارت کا مفہوم بنتا ہے ۔ باقی رسمی اور ایسی عبارت کو ایک نظر ڈال کر آگے بڑھ جائیں گے جو آپ کو معلوم ہے ۔ جس طرح آپ کے سامنے پھل آئے تو سمجھ گئے ان کا کیا کرنا ۔ اس طرح آپ کو صرف ان الٖفاظوں کو دیکھنا ہے جس سے بات سمجھے میں آرہی ہے ۔ یعنی ہر لفظ کو نہیں پڑھنا ہے ۔ رسمی اور ان باتوں کو جنہیں آپ جانتے ہیں یا پڑھ چکے نظر انداز کرکے آگے بڑھ جانا ہے ۔
اس طرح آنکھوں پڑھنے والے پوری عبارت یا لفظ با لفظ نہیں پڑھتے ہیں ۔ اس سلیز مین کی طرح جو کہ مطلوبہ ڈبہ دیکھتا ہے صرف انہیں صرف وہ الفاظ دیکھتا ہے جس میں کچھ مفہوم ہو ۔ اگر عبارت کا مفہوم سمجھ میں آگیا تو الفاظ خود بخود ڈورے چلے آجائیں گے ۔ کسی بھی عبارت کا مفہوم اہم ہوتا ہے اس کے الفاظ نہیں ۔ چوں کہ اس طرح آپ کی آنکھیں براہ راست دماغ کو مختصر اور فوری پیغام دے رہی ہوتی ہیں اس لیے آپ اسے فوراً ذہن نشین کرلیتے ہیں ۔ بالکل اس پھل کی طرح جسے دیکھ کر سمجھ گئے کہ آپ کو کیا کرنا ہے ۔ کیوں کہ آپ آنکھوں کے ذریعے براہ راست یہ بات دماغ کو پہچاتے ہیں ۔ اس لیے آپ کا دماغ فوراً سمجھ جاتا ہے ۔
جب ہم ہونٹوں کی حرکت سے پڑھ رہے ہوتے ہیں ہمیں اپنے پر اعتماد نہیں ہوتا ہے کہ ہم اسے اپنے ذہن میں بٹھاسکیں گے ۔ اس لیے ہم ایک لفظ پڑھ رہے ہوتے ہیں ۔ حالانکہ ایسا نہیں ہوتا ہے ۔ دماغ اتنی ساری تفصیلات یعنی حروف با حروف قبول نہیں کرتا ہے اور ہمیں یاد نہیں رہتا ہے اور اس کا الزام اپنے مطالعہ کو لگاتے ہیں ۔ میں نے بہت سی کتابوں پر تبصرے لکھے ہیں اور انہیں پسند بھی کیا گیا ۔ آپ یقین کریں گے میں ان کتابوں کو میں نے بمشکل سے پچس منٹ دیکھا ہوگا ۔ لیکن کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ میں نے کتاب سے ہٹ کر تبصرہ کیا ہوگا ۔ پرانی بات ہے ، میں ایک مقالہ لکھ رہا تھا اور اس کے لیے میں کتابوں میں مواد کی تلاش میں رہتا تھا ۔ میں اسٹیٹ بنک کی لائیبری میں چند بار اپنی مرحومہ بیگم کے ساتھ گیا ۔ وہاں میں پندرہ بیس کتابیں اٹھا لاتا اور انہیں دیکھتا تھا جہاں کام کی بات نظر آئی اس صفحہ پر نشان لگا دیتا تھا ۔ اگر عبارت مختصر ہوتی تو بیگم اس کی نقل کرلیتی تھی اور طویل ہوتی تو اس کی فوٹو کاپی آخر میں کر والیتے تھے ۔ وہاں میں پندرہ بیس کتابیں دو تین گھنٹہ میں دیکھا لیتا تھا ۔۔
یہاں میں نے وضاحت کردی کے کیسے مطالعہ کرنا چاہیے اور مطالعہ کا مقصد اور اہم کیا ۔ مگر آئندہ قسط میں یہ بتانے کی کوشش کروں گا کہ دیکھ کر پڑھنے کی عادت کسیے اپنائی جائے ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...