تحریری صورت میں دنیا کی بشتر معلومات کے خزانے پوشیدہ ہیں ۔ قدیم زمانے انہیں جادوئی افسوں کہا جاتا تھا اور جسے یہ جادو آتا تھا اس کے سامنے بہت سے پوشیدہ راز عیاں ہوجاتے تھے اور وہ انہیں محفوظ بھی کرسکتا تھا ۔ اس لیے اس جادو کو جانے والوں کی بہت عزت و توقیر کی جاتی تھی ۔ آج کے زمانے میں یہ خزانہ چند تحریرں تک محدود نہیں رہا ہے ۔ اس کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ کسی ترقی یافتہ زبان میں کسی ایک موضع لکھے گئے مواد کا ذخیرہ اس قدر وسیع ہوتا ہے کہ اس کو پڑھنے کے لیے یہ زندگی ناکافی ہوتی ہے ۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ اس خزانے تک جاننا چاہتے ہیں مگر ان سے مطالعہ نہیں ہوتا ہے یا وہ مطالعہ کی عادی نہیں ہوتے ہیں ۔ اس کی عادت کسیے ڈالیں ؟ اور بہت سے لوگ مجھے سے یہ سوال کرچکے ہیں ۔ میرے خیال میں یہ ایک اچھا اور صحت مندانہ سوال ہے ۔ کیوں کہ ہمارے معاشرے پڑھنے کا شوق کم کرتے ۔ اگر مطالعہ کا شوق ورثہ اور ماحول کی وجہ سے بھی ہوتا ۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں پڑھنے کا رجحان نہیں ہے ۔ اس لیے یہاں یہ چیز ورثہ میں ملتی ہے اور نہ ہی ماحول ملتا ہے ۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے لوگ مطالعہ کیوں کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ جادو ہر کسی کو آتا ہے اور وہ اس وہ اس خزانے تک پہنچنا چاہتا ہے ۔
اس کا سیدھا سا جواب تو یہ ہوگا کہ لوگ کسی بارے میں اپنی معلومات میں اضافہ کرنا چاہتے ۔ لیکن علم میں اضافہ کرنے کے لیے کتابیں پڑھنا ضروری نہیں ہے بلکہ اس کے لیے تحربہ اور پرکیٹس سے بھی حاص کی جاسکتا ہے ۔ لوگوں کی باتیں یا لکچر سن کر یا فلمیں دیکھ کر بھی حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ پھر کیا ضرورت ہے کہ موٹی موٹی کتابیں پڑھیں جائیں اور سچی بات یہ ہے میں بہت کچھ سکھا اور حاصل کیا ہے اس میں کتابوں کے علاوہ بھی ہر ذرائع کو استعمال کیا ہے ۔ آج جاننے یا علم حاصل کرنے کے بہت سے ذرائع ہیں ۔ جس میں فلم ، ٹی وی ، ریڈیو ، لکچر اور اشتہارات مگر اس کے باوجود تحریر کی اہمیت کم نہیں ہوئی ہے ۔ کیوں کہ بے شمار لوگ اپنے علم ، معلومات و تجزیہ کو تجریر کے ذریعہ محفوظ رکھتے ہیں اور معلومات دوسرے اس وقت تک مستند نہیں سمجھی جاتی ہیں جب تک وہ تحریری شکل میں نہ ہو ۔ دوسری بات یہ مگر ہم اس طرح جو سیکھتے ہیں وہ تجرباتی یا عملی اور محدود ہوتا ہے ۔ جب کہ لکھی ہوئی تحریر لا محدود ہیں اور ان تک پہنچنے کا طریقہ مطالعہ ہے ۔
مطالعہ کرنے کی عادت اچھی ہے ۔ اس سے مطالعہ کرنے والا آزادنہ اپنی پسند اور مرضی کے مطابق کی معلومات اور تفریح لے سکتا ہے ۔ مگر وہی سوال ہے کہ یہ عادت کیسے ڈالی جائے ۔ ہمارے معاشرے میں مطالعہ کرنے والے کسی اور دنیا کے لوگ سمجھے جاتے ہیں ۔ اکثر لوگ جو پڑھنا جانتے ہیں مگر ان کے لیے مطالعہ کرنا ایک مشکل کام ہوتا ہے ۔ بعض اوقات انہیں مطالعہ کرنے والوں سے رشک و حسد ہوتا ہے ۔ پڑھا آنا اور مطالعہ کرنا دو الگ باتیں ہیں ۔ جس کو پڑھنا آتا ہو وہ صرف اپنی مطلب یا ضرورت کی چیزیں پڑھ سکتا ہے ۔ مگر مطالعہ کرنے والا وسیع اور لامحدو معلومات حاصل کرسکتا ہے ۔ آپ کسی عام آدمی اور مطالعہ کے عادی افراد کو مطالعہ کرتے وقت بغور دیکھیں تو دونوں کے انداز میں فرق ہوتا ہے ۔ عام آدمی کے ہونٹ ہل رہے ہوں گے اور مطالعہ کے عادی صرف آنکھیں کتاب کو دیکھ رہی ہوں گیں ۔
یہی فرق ہے جو عام پڑھنے والے اور مطالعہ کے عادی افراد میں ہوتا ہے ۔ پڑھنے والے ہونٹوں کو حرکت کی جنبش سے اپنے الفاظ دماغ تک پہنچاتے ہیں ۔ ہونٹوں کی حرکت سست ہوتی ہے ۔ اس سے اس کا دماغ تھک جاتا ہے اور وہ ماؤف ہونے لگتا ہے ۔ بالکل اس طرح جیسے دو آدمی پیدل کہیں جارہے ہوں ایک جوان آدمی تیز رفتار اور دوسرا بوڑھا آہستہ چلنے والا اور دو ہی کچھ دیر میں تھک جائیں گے ۔ کیوں کہ جوان آدمی آہستہ چل نہیں سکتا ہے اس لیے بوڑھا کے ساتھ آہستہ چلتا تو اکتاتا اور تھک جاتا ہے ۔ جب کہ بوڑھا اس قابل نہیں ہے کہ وہ تیز اور زیادہ دور تک چل سکے ۔ ہونٹوں کی حرکت سے پڑھنے والا کبھی ایک اچھا قاری نہیں بن سکتا ہے ۔ کیوں کہ ہونٹوں کی سست رفتاری کا اس کا دماغ ساتھ نہیں دیتا ہے اور سر اور آنکھوں میں درد شروع ہونا اور ذہن ماہوف ہونا شروع ہوجائے گا ۔
یہ اصل میں رٹے لگانے کا طریقہ ہے اور اس میں الفاظوں کی ترتیب ذہن میں بیٹھائی جاتی ہے ۔ اس سے سبق یاد ہوجاتا ہے لیکن صرف الفاظ کی ترتیب کی حد تک ۔ مگر ہم نے کیا یاد کیا ہے ہم وہ نہیں سمجھ سکتے ہیں ۔ اگرچہ رفتہ رفتہ ہم اس رٹے کو سمجھنے لگتے ہیں ۔ لیکن ان کے سیکھنے اور سمجھنے کی رفتار سست ہوتی ہے ۔ اگرچہ ایسے طلبا جو کہ رٹے لگا کر پڑھتے ہیں ان کے نمبر بھی اچھے آتے ہیں ۔ مگر وہ عملی زندگی میں صرف لکیر کے فقیر ہوتے ۔ وہ ایک لگے بندھے طریقے سے اپنا کام کرتے ہیں اگرچہ ان کے زندگی اور کاموں میں بے ترتیبی نہیں ہوتی ہے ۔ لیکن ہنگامی یا مروج طریقہ کار ہٹ کر وہ اپنے فرائض انجام نہیں دے سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی تخلقی کام کرسکتے ہیں ۔ اس طرح کے لوگوں میں مطالعہ کا شوق نہیں ہوتا ہے اور صرف مطلب کی اور مختصر تحریر پڑھ سکتے ہیں ۔
اگر آپ مطالعہ کا شوق رکھتے ہیں تو اس کے آپ کو ہونٹوں سے نہیں بلکہ اپنی آنکھوں سے پڑھنے کی عادت اپنانی ہوگی ۔ کیوں کہ ہماری آنکھوں کی دیکھنے کی رفتار ہونٹوں کے مقابلے میں بہت تیز ہوتی ہے اور وہ پورا پورا ہمارے دماغ کا ساتھ دیتی ہیں ۔ آنکھوں سے مطالعہ کرنے والا جلد اکتاتا نہیں ہے اور مطالعہ کا بشتر حصہ اپنے ذہن میں رکھتا ہے ۔ آپ اگر کسی کے گھر جاتے ہیں وہاں آپ کو ڈرائنگ روم میں بیٹھا دیا جاتا ہے اور ان صاحب کے کے انتظار میں کمرے میں تنہا بیٹھے ہیں ۔ آپ کمرے کا ایک طائرانہ جائزہ لیتے ہیں ۔ وہاں میز ، صوفہ ، کتابوں یا آرائش کے سامان کی الماری ، گلدان اور دوسری چیزیوں کو دیکھتے ہیں ۔ ان سب چیزوں کا جائزہ لینے میں آپ چند منٹ بھی نہیں لگاتے ہیں اور دیکھ لیتے ہیں وہاں کیا ہیں ۔ لیکن اگر اس کمرے میں موجود تمام چیزوں کی تفصیل بنا کر آپ کو دی جائے تو اس کو پڑھنے میں شاید آپ پندرہ بیس منٹ لگائیں گے کیوں ؟ آپ نے سوچا ہے ۔ آپ نے جائزہ لینے میں آنکھیں استعمال کیں اور پڑھنے میں ہونٹ ہلائے اور بہت سی چیزیں جنہیں آپ نے نظر انداز کیا وہ بھی درج ہیں ۔ اس لیے پڑھنے میں آپ کا وقت زیادہ لگا ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...